بوڑھے شاعر کا ہزیان

 

1
مار دے گا مجھے عمرِ فانی کا دکھ۔۔۔
یہ مرے دل میں کروٹ بدلتا ہوا رائگانی کا دکھ۔۔۔
کون ہے تو!
تو کیا کہہ رہا تھا میں؟؟؟
ہاں!
آسماں راکھ ہے۔۔۔
ہے دراڑیں زمیں اور زماں راکھ ہے
ایش ٹرے میں پڑے
میرے سگریٹ دھواں ہیں، دھواں راکھ ہے۔۔۔
اور اس راکھ میں
دل سلگتا ہے میرا
کسی درد کی آخری ہچکیوں کی طرح!!…۔
2
خموشیاں بڑبڑا رہی ہیں
مری سمجھ میں تو کچھ نہیں آرہا مگر کچھ بتا رہی ہیں!۔
مجھے بتاؤ! سمندروں نے مگرمچھوں کو جنا ہے
یا پھر
مگرمچھوں کے فریبکار آنسوؤں نے دریا بُنے ہیں۔۔۔
جو اب سمندروں میں بٹے ہوئے ہیں
جہاں پہ پانی بہت گھنا ہے؟؟؟؟
3
پانی میں ڈوبتے ہوئے سورج نے آج پھر
دریا کی موج موج کو خون رنگ کردیا!…۔
4
میرے بوڑھے ذہن کے نامربوط افکارو!۔
میرے بیٹو! میرے پیارو!۔
فلاں پھول کی ٹہنی پہ اک شعر پڑا ہے
وہ میرا ہے
خشکیدہ گلدان میں مردہ تتلی کے پر
میری بالکل تازہ نظم کے کچھ مصرعے ہیں
انہیں مرے دیوان میں بالترتیب لگا دو
اور میرا دیوان جلا دو
یاد رکھو تم!!…۔
5
مرے ذمے ابھی ہے داد باقی اس غزل کی
جو رنگوں نے مری آنکھوں کی تختی پر لکھی ہے
اور اس نظمِ معرا کی
جسے دیوار پر تحریر کی ہے خوں کے چھینٹوں نے۔۔۔۔
مرا قرضہ چکا دو
یاد رکّھو تم!!…۔
6
133تو میں کیا کہہ رہا تھا؟؟؟
ہاں!…
7
میرے ورثا! تمہیں میں اک راز بتاؤں؟؟
میری پونجی، مری بچت۔۔۔۔!۔
8
مجھے 133نیند…آ رہی 133ہے!!۔
9
میری پونجی۔۔۔۔
10
اے بے منظر منظر ہٹ!۔
ہشت اے حیرت! چل مر! ہٹ
چل ہٹ اے ری خامو۔۔۔ (شی
اور اے شور سمنآہ تم! کتنے سرد مہر ہو تم؟

آہ تم! کتنے سرد مہر ہو تم؟

لفظ بھی نیلے
خاموشی بھی
سرگوشی بھی
غصہ نیلا قہقہہ نیلا
اور ہنسی بھی
ہونٹ بھی نیلے اور صورت بھی
دل بھی نیلا، دل کے اندر کی مورت بھی
سکڑے جسم اور سینے نیلے
لمحے یخ بستہ اور سال مہینے نیلے
ٹھٹھری خاک ادھر یخ بستہ
اس کے سب منظر یخ بستہ
اندر، باہر، گلی، محلے، گھر یخ بستہ
جنگل، پھول، پرندے مردہ
رینگنے والے قاتل،
وحشی، خون آشام درندے مردہ
یعنی جتنے زندے مردہ
سبھی پہاڑ چٹختے تودے
ندیاں، جھیلیں، دریا اور سمندر سارے برف کے تودے
آنکھ کے گوشوں پر اشکوں کا ننھا سا برفیلا تودہ
نیلا تودہ
سارے چہرے، حلیے نیلے
جسم کے سارے خلیے نیلے
خون بھی نیلا، خون کے اندر زندہ عالم بھی یخ بستہ
ڈی این اے بھی ۔ شاید ۔ ایٹم بھی یخ بستہ!۔
دونوں عالم بھی یخ بستہ
اور جہنم بھی یخ بستہ!۔
سوچ رہا ہوں ان ساری باتوں کا کیا مطلب نکلے گا؟جانے سورج کب نکلے گا!۔

 

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*