محبت فروش

 

اے ذ ینیی۔۔۔ اے ذ ینیی۔۔۔۔ زنیرہ زنیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔ امی کی ساری تلملاہٹ میرا نام پکارنے میں ہی سمٹ آتی ہے۔ جی امی۔۔۔۔۔۔ آتی ہوں۔۔۔۔رَرا ٹی وی۔ کی آواز مدہم کر دے۔ تیرے ابا اونگھنے لگ گئے ہیں۔ کچن کا بلب جلتا ہی رہنے دو۔ اماں کچن کے کیڑے مکوڑے بلب کی چوکیداری سے نہیں ڈرتے۔ آٹے کے کنستر اور چاولوں کی بوری کو جاتی پگڈنڈی کے پرانے بھیدی ہیں۔ اماں سر گو شیاں کرتی چونٹیاں کتنی پیاری لگتی ہیں۔ لگتا ہے سر گوشی کرتے ہی قہقہہ لگا کر بھاگ جاتی ہیں کہ جیسے ” تیری میری چھو” کھیل رہی ہوں۔ اماں۔۔۔ اماں۔۔۔ ان کے ہاں ذات پات برادری کا کوئی نظام رائج نہیں۔ لیکن ایک نہ ایک نظام ضر و رہوتا ہے۔ شاید کیڑے مکوڑوں کا مکھیا اور چونٹیوں کی ”ملکہ رانی“ ہوتی ہے۔ بس کردے ذنیرہ۔ بس کر دے! واپسی پہ چٹکی بھر نمک لیتی آنا۔ چائے کے کپ میں ڈال دوں۔ گلے کی خراش کم ہو جائیگی۔ ذنیرہ ٹی وی کی آواز مدہم کرتی۔ نمک دانی اٹھا کر لائی۔ کچن کا دروازہ بند کیا۔ کو دتی، پھلانگتی اپنے کمرے میں کمبل میں دھنس گئی۔ بیڈ کے سرہانے تکیے کے اطراف بکھری شاعری کی کتابیں سمیٹ کر الماری میں رکھتے ہوئے واپس اپنے بستر پہ ڈھے سی گئی۔اپنی ڈائری پہ منتخب کلام کو بار بار پڑھنے کی بے زاری کو جھٹک کر پھر سے اوراق پلٹنے لگی۔۔۔ کیا بات ہے کشور ناہیدکی ”چورنی لگتی ہے چورنی۔ میرے جذبات، احساسات اور تمنائیں“چر ا کر لکھتی ہی چلی جا تی ہے

پھر بلند آواز سے نظم ”بگولہ“ گنگنانے لگ۔

بگولہ

جھیل پہ ٹھہر ی د ھند کی طر ح

و ہ میر ے ا ند ر ہے

را ت کے اند ھیر ے ا و ر خا مشی کی طر ح

وہ میر ے سا تھ ہے

یہ کیسا ر شتہ ہے د یو ا ر بھی نہیں کھڑ ی کر تا

ا تصا ل کو بھی ا ر ز ا ں نہیں کر تا

طلب کے و یرا نے میں بھی نہیں بھٹکتا

بس ا یک بے آ ب با دل کی طر ح

میر ی یا دو ں کے آبنا ئے میں

لہر یں بنا تا ر ہتا ہے۔

زنیرہ، زنیرہ کے امی ابو نیم تاریک سی خاندانی حویلی کے مکیں تھے۔ حویلی کا ایک تہائی حصہ قابل استعمال نہ رہا تھا۔ خستہ حال چھتوں کے گرنے کا اندیشہ اسکی اینٹوں سے لپٹی ویرانیوں کو مزید مستحکم کردیتا۔ 7-6 سال پہلے ابا نے اس حصے کے گرد آ ہنی باڑ لگوادی تھی۔ تا کہ کسی ذ ی روح کے گزر کاا حتما ل بھی باقی نہ رہے۔ ایک حصے کی تعمیر نسبتاً قدیم نہ تھی۔ جسے ماں کے سلیقے سے زنیرہ نے ماتحتی کی حیثیت سے سجا رکھا تھا۔ طارق زنیرہ سے ڈھائی سال بڑا تھا۔ طارق کی شادی خالہ زاد عالیہ کیساتھ طے ہوئی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کی خاموش محبت میں گرفتار تھے۔ برادری کی برادری۔۔۔ رشتے داری کی رشتے داری۔ ہینگ لگی نہ پھٹکری رنگ چوکھا آیا۔ اس چوکھے رنگ کی ہمراہی میں طارق دبئی کی نوکری کی خوش قسمتی اور پھر ہر سال عالیہ کے ہاں ڈلیوری۔ بڑھتے اخراجات کا بہانہ بنا کر پروگرام اگلے سال ملتوی کر دیتا۔۔۔اماں دبئی کی ایک ٹکٹ تو مہنگی نہیں۔۔ بھائی سے دل بہت اداس ہے۔ پر ان کی کیا مجال کہ پاکستان کا اکیلے رخ کر سکیں۔ اماں بھی ٹھنڈی آ ہ بھرتی بولیں۔ میرے طارق سے میرا بھی دل بہت اداس ہے۔ طارق آئے تو برادری میں رشتے کی کوشش کرے۔ میں نے تو برادری کے دور دراز کے آنگن بھی ٹٹول ڈالے ہیں۔ لیکن کہیں معاملہ طے نہ ہوا۔ ابا تو تمہارا گھڑی بنا بیٹھا ہے۔ بہانوں سے زنیرہ ماں کے کان میں پھونک مارتی۔ اماں برادری کی چار دیواری گرا دو۔ ورنہ میں اس حویلی میں پڑی کسی کباڑئیے کے قابل بھی نہ رہوں گی۔ ماں دانت پیستے جواب دیتی۔۔۔۔ ہمارے خاندان بھر میں کسی نے آج تک کوئی رشتہ برادری سے باہر طے نہیں ہوا۔ یہ کالک میں اپنے منہ پر کیسے مل لوں۔ باپ کی زبان فالج نے بند کر دی تھی۔ لیکن غیر برادری کے نام پہ آنکھیں چیخیں مارنے لگ جاتیں۔ محلے دار عورتوں کے زنیرہ کی شادی کے مشورے پر گھوڑے کی طرح ہنہنا نے لگ جاتا۔ سوچتی آج تک اماں کو ابا کی زندگی بھر کسی بھی بات کی تائید میسر نہ ہوئی۔ ماسوائے برادری میں رشتے کے اصول پہ۔۔۔۔ ورنہ تو دونوں کے درمیان خاموشی طاری رہتی۔جیسے ایک لاری میں اجنبی مسافروں کی طر ح اپنی اپنی جگہ ہچکولے کھاتے رہتے ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ گھر بھر کی تمام ذمہ داری زنیرہ کے کندھوں پر اَن پڑیں تھیں۔ تقریباً تمام ضر ر ویا ت زندگی بلاک کی مارکیٹ سے ہی دستیاب تھیں۔ پہلے پہل تو اماں کیساتھ جاتی۔۔ مگر اب اماں کی نقا ہت بھری کمزور چال سے زچ ہو کر اکیلی ہی چلی جاتی۔ مارکیٹ سے۔۔۔گھر سے نکلتی سڑک پار کرتے بہت دنوں بعد شیر زمان نظر آیا۔ ویسا ہی سجیلا۔گھنگھر یا لے بالوں والا، چاک دیو بند ، کھتئی آنکھوں والا۔ جب کالج جاتی تھی۔ تو دونوں ایک ہی بس میں سفر کرتے تھے۔ بس سے اترتے ہی دونوں کے گھروں کو جاتے راستے مخالف ہو جاتے۔ بار بار مڑ کر دیکھنے سے دونوں کا ہی ایک دوسرے سے دور سے ٹکراؤ ہو جاتا نتیجتاً خوشگوار سی مسکراہٹ ہونٹوں پہ مچلتی رہتی۔ شیر زمان تو بس سے اترتے ہی بالکل سامنے سڑک کنارے فلیٹس کی قطار میں پہلے پورشن میں گھس جاتا۔ صبح روانگی کے وقت بس میں مسا فت میسر رہتی۔ مگر واپسی پہ شازو نازر ہی ملنا نصیب ہوتا۔ مانوس اجنبی تھے۔ ایک دوسرے کی آواز سے بھی نا آشنا شیر زمان کے نام کی مخبر ی۔۔۔۔ ٹکٹ کی وصولی یا بقیہ رقم کی واپسی کے لیے کنڈیکٹر شیر زمان کے نام کی بانگ لگاتا۔ تو ہنسی کاجلتر نگ آنکھوں میں اتر آنے سے زنیرہ کا حسن دو با لا ہو جاتا۔ شیر زمان بھی اس دلفریب مسکان کے سحر میں چھلتا بار بار اپنی سیٹ پر پہلو بدلتا۔ شیر زمان ایک سائیکلیٹ تھا۔ایک د ن تیز رنگوں کے ٹریک سوٹ میں ہاتھ میں وکڑی کپ تھا۔ خوشی سے دمک رہا تھا۔

کالج چھوٹا۔ راستہ بھی چھوٹ گیا۔ لیکن دھیان طاری رہا۔ چلتے چلتے الٹے قدموں کی چاپ سے پیچھے مڑ کے دیکھا۔ شیر زمان طلبگار نگاہوں سے کچھ کہنے کے لیے بے قرار۔ شیر زمان بے تابی سے الفاظ کی ادائیگی میں کوشاں محض اسے محبت محبت میر ی محبت سے ہی مخاطب کر سکا۔ دونوں اپنی اپنی راہ پر پلٹ گئے۔ سردیوں کی سرمئی شا میں اورگھمبیر راتیں۔ ابا کی آہ و کراہ اور امی کے متوسط سے خراٹے۔ نیم روشن کمرے میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کے کسی ساکت منظر سے منجمند دکھائی دے رہے تھے۔ ذنیرہ اپنے کمرے میں خاموشی میں گھر ے خوابوں کو طمانچے مارتی رہے گی۔ ر ات جلے میں محبت محبت میر ی محبت کی گونج سنائی دے رہی تھی۔ سردی اندھیرا خاموشی۔۔۔۔ سوچتی۔۔ میں ایک ممی ہوں۔ ذات پات کے نا بوت میں قید۔۔۔۔ میں حویلی کی وہ دن بدن بو سیدہ ہوتی عمارت کا حصہ ہوں جسکے گرد آ ہنی باڑھ لگا دی گئی ہے یہ برا د ری سسٹم آ ہنی تو ہے اپنی باڑہی تولے۔۔۔ جس کے نوکیلے کانٹے دور سے ہی سرزنش کر رہے ہوں۔۔۔۔ خواب دیکھتی۔۔۔۔ قوس و قزح کے سارے رنگوں سے گھلا ملا لباس زیب تن کیے سنہری آنچل لہراتی۔۔۔ پھول چُنتی۔۔۔ تتلیوں سے ٹھکیلیاں کرتی۔۔۔۔ محو پر واز ہے۔ یکا یک رنگ لرزنے لگ جاتے اور محسوس کرتی کہ جھولے کی ڈوریاں ٹوٹنے لگی ہیں۔ طارق بھائی کی طرف سے تواتر سے آنے والی ماہانہ اخراجات کی رقم کو ان کی موجودگی سے ہی تعبیر کیا جانے لگا تھا۔ ذنیرہ کو گمان گزرتا۔ امی ابو کے بڑھاپے نے میرے وجود کے سہارے سے سمجھوتہ سا کر لیا ہے۔

دروازے کی کھٹکھٹاہٹ سے دروازہ کھلا تو شیر زمان اپنی ہو بہو مشابہ بہن کیسا تھ کھڑا تھا۔ماں چونک گئی۔ جوان مرد کی ہمراہی میں چادر میں لپٹی شاہانہ حسن و رعب اوڑھے شیر زمان کی بہن مسکراتی خوشدلی سے گھر میں داخل ہوئی۔ کمرے اور دالان کا مشترکہ دروازہ ابا کے خوف سے بند کر دیا گیا۔ زنیرہ نے سلگتی آگ پہ ابلتی چائے بناتے سمے ماں کا پتھریلا انکار سن لیا ”برادری سے باہر رشتہ کوئی گنجائش نہیں“۔

آج معمول سے ہٹ کر ایک شام تھی۔ اماں ابا کی دوائی کی خوراک میں نیند کی گولی کی مقدار قدرے اضافے کے ساتھ شامل ہو چکی تھی۔ کمرے میں گھپ خاموشی چھا چکی تھی۔ اپنی الماری کے اوپری خانے سے تہہ لگی چادر اٹھا کر اوڑھی اور گھر کا دروازہ دھیرے سے بند کیا۔ اپنی گلی کا نکڑ کا موڑ مڑتے ہی درمیانی پارک پار کرتے سمے دور سے ہی شیر زمان کے کمرے کی روشنی دکھائی دی۔ دروازے کے کواٹر مخالف سمت میں جڑے روشنی کی دیوار سی ایستا دہ کر رہے تھے۔ اطراف کی دکانوں میں اِکا دُکا اندھیرے کے خاکے کے جیسے دو تین آدم زاد متحرک تھے۔ دور سے کسی گانے کی دھیمی آواز رات کی ہمراز سہیلی لگ رہی تھی۔ اندھیرا۔ خاموشی اور موسم کی سرد آہٹیں۔ مونگیہ رنگ کے گھنے درختوں سے چاندنی چھن چھن پتوں کو آلودہ کر رہی تھی۔ جیسے کسی متوقع چھنا کے سے پتوں کی نیند انگڑائیوں میں ڈھل رہی ہو۔ کانٹوں بھری ابھرتی روئیدگی مخملی سی ہو رہی تھی۔ اپنے قدموں کی چاپ سے دل کی دھڑکن کا تانتا بند ھ گیا تھا۔ کانوں کی روئیں کی تپش چادر کے کناروں سے اُلجھ رہی تھی۔ دروازے کی چررر۔۔۔چررر۔۔۔ اور ذنیرہ کے قدم کی تیز آہٹ سے دروازہ کھلا۔

راز بستہ آنکھیں آنسوؤں کے غازے سے لت پت چہرہ اسے سحر زدہ کر گیا۔ وہ چہرہ وہ آنکھیں۔۔۔۔ پھوار کی طرح شیر زمان کے ہاتھوں پہ گرتے آنسوؤں کی نمی بے خود کر رہی تھی۔ اسکے ہاتھوں پہ گرفت مضبوط کرتے ہوئے بولا۔۔۔ ذنیرہ ہم ذات پات کے بت کو پاش پاش کر کے شادی کر لیں گے۔ آؤ میں تمہیں گھر چھوڑ آؤں۔ تڑپ کو بولی ”میرے ماں سے زیادہ سیانے مت بنو“دھیرے سے پکارا۔۔۔ محبت۔۔۔۔محبت۔۔۔میری محبت۔

نہیں محبت نہیں۔۔۔۔۔نہیں محبت نہیں۔۔۔شیر زمان میں محبت فروش ہوں۔۔۔۔۔۔ میں محبت فروش ہوں۔۔۔۔

آنسوؤں کی نئی آبشار اُسے جل تھل کرتی چلی گئی۔ اور دروازے کے کواڑ اپنے فطری انداز میں مقفل ہو چکے تھے۔

 

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*