ہفت روزہ عوامی جمہوریت

چھ مئی 1972کا عوامی جمہوریت سرا سر جشن و تہوار کے موڈ میں تھا۔ بھر پور مسرت اور جذبے میں۔اور اُس کی وجہ بھی خود ہی اپنے اوپننگ فقرے میں بتائی:”پاکستان میں گذشتہ 25برسوں سے مزدور ہر سال یوم مئی مناتے ہیں۔ لیکن اس سال حکومت نے یکم مئی کو تعطیل کا دن قرار دے دیا۔ اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے اسے سرکاری طور پر بھی منایا“۔

یہ تھی بھی جشن کی بات۔ پہلی بار ہمارے رجعتی اور مارشل لا زدہ وطن میں سرکاری طور پر محنت کشوں کے عالمی دن کو منانے کی اَنہونی بات ہورہی تھی۔ یہ بات تو صرف اُن لوگوں کی سمجھ میں آسکتی ہے جو ایسے ضیازدہ معاشروں میں رہتے ہوں۔ یہ واقعی مسرت وانبساط کی بات تھی۔مگر اخبار نے بہت ہمت اور وضاحت کے ساتھ سرکار سے ایک طرح کا فاصلہ بھی رکھا:”لاہور میں بیشتر ٹریڈ یونین لیڈروں اور سرکاری سوشلسٹوں نے حکومت کے ساتھ مل کر اِس دن کو منایا اور اس طرح مزدور طبقے کے طبقاتی شعور کو کُند کیا اور انہیں سرمایہ دار طبقے کی جھولی میں ڈالنے کا کام کیا“۔

کبھی کبھی واقعی انقلابیوں کی حرکتوں پہ حیرت ہوتی ہے۔ عوامی جمہوریت کے اس شمارے میں بتایا گیا کہ ”سرکار نے گورنر پنجاب مصطفے کھر کی قیادت میں جلوس نکالا جس میں لیبر لیڈر بشیر بختیار، مرزا ابراہیم، مزدور کسان پارٹی، پاکستان ورکرز پارٹی،این ایس او اور این ایس ایف بھی شامل تھے“۔۔۔۔ لاحول والا قوت۔

اخبار میں آج سے پچاس برس قبل اس یومِ مئی کے جلوسوں جلسوں میں مزدوروں اور ان کی تنظیموں اور اُن کی سیاسی پارٹی کے لگائے جانے والے نعرے بھی چھاپے۔مجھے دلچسپی پیدا ہوئی کہ اپنے قارئین کو بھی بتایا جائے کہ پچاس سال میں کیا کچھ تبدیل ہوا۔

۔* چھین لو چھین لو،جاگیریں چھین لو

۔* امریکی سامراج مردہ باد

۔* لیبر پالیسی تبدیل کرو

۔* ہڑتال کا غیر مشروطِ حق تسلیم کرو

۔* کار خانے مزدوروں کی تحویل میں دو

۔* امریکیو! ویٹ نام سے نکل جاؤ

۔* ویٹ نامی عوام زندہ باد

۔* امریکیو! ایشیا سے نکل جاؤ

۔* مزدور کسان اتحاد زندہ باد

۔* دنیا کے محنت کشو ایک ہوجاؤ

۔* شکا گو کے شہید زندہ باد

۔* پاکستان کے مزدور و ایک ہوجاؤ

۔* امریکی سرمایہ ضبط کرو

۔* اجارہ دار صنعتیں قومی ملکیت میں لو۔

اس کے علاوہ اس شمارے میں لینن پہ ایک جامع مضمون موجود ہے۔ ایک اچھا معلوماتی مضمون ”ایران میں انقلابی جدوجہد“کے عنوان سے شامل ہے۔ ایک مضمون پیپلزپارٹی کی طرف سے مارشل لا کے قائم رکھنے کے خلاف لکھاگیا ہے۔ علم المعیشت کی 17ویں قسط بھی شمارے میں ہے۔

”عوام دشمنی کا مظاہرہ“ 20مئی 1972کے شمارے کا عنوان ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ بھٹو حکومت نے پاکستانی کرنسی کی قیمت گھٹا دی۔ سرکارکی جانب سے اس اقدام کے حق میں وہی گھسے پٹے دلائل دیے گئے تھے جو آج پچاس برس بعد کی حکومت دے رہی ہے۔ جہازی سائز کے پورے دو صفحے اس مضحکہ خیز حرکت کے خلاف وقف کیے گئے۔میں یہاں وہ دلائل نہیں دو ہراؤں گا، اس لیے کہ بعد میں ہر حکومت، جی ہاں ہر حکومت روپے کی قیمت گھٹاتی رہی اور وہی بیکار دلائل دوہراتی رہی۔

اِس شمارے کا اداریہ بھٹو حکومت کی لیبر پالیسی کو مزدور دشمن پالیسی قرار دے کر لکھا گیا۔ ایک فکری مضمون“ لینن اور طلبا“ کے عنوان سے دیا گیا۔ جس میں طلبا کو سیاسی طور پرباشعور بنانے اور انہیں سیاسی پارٹی کی تنظیم میں پرونے کی بات کی گئی۔

حسبِ سابق پولٹیکل اکانومی کی اگلی قسط اِس شمارے میں بھی موجود ہے۔

27مئی1972کا بڑا مضمون تو ”جدید نوآبادیاتی نظام کا مرقع“ کے عنوان سے ہے۔ یہ مضمون انڈونیشیا کی معیشت وسیاست پر ہے۔وہاں حکومت نے کمیونسٹوں کا قتل عام کیا تھا۔ اور اس کے بعد ورلڈ بنک نے اُسے جدید نوآبادیاتی نظام کا اہم حصہ بنا کر رکھ دیا۔ قرضوں میں جکڑا جانا ایسی پالیسی کا لازمی مقدر ہوتا ہے۔ وہ دن اور آج کا دن انڈونیشیا نے حقیقی خود مختاری پھر نہ دیکھی۔

مگر مجھے جارجی دیمتروف کے 90ویں یوم پیدائش کی یاد منانا زیادہ اچھا لگا۔ یہ شمار27مئی کا تھا اور دیمتروف کی سالگرہ 18جون کو آنی تھی۔ مضمون کا عنوان ہے: جارجی دیمتروف اور مزدور تحریک۔

دیمتروف نے اپنی زندگی کی شروعات پر نٹنگ پریس میں بطور مزدور کام کرنے سے کی تھی۔ وہاں ٹریڈ یونین تحریک میں شامل ہوکر وہ آگے بڑھتا رہا۔ یہ مضمون گویا ٹریڈ یونین کی عالمی تحریک کا ایک جمالی جائزہ ہے۔اُس نے صحافت کے شعبے میں اور اُس شعبے پہ بہت کام کیا۔ دیمتروف فاشزم کا سب سے بڑا دشمن تھا۔اس کی تحریک اور اس کی تحریریں فاشزم کی چیرہ دستیوں اور ظلم و جبر کے خلاف رہیں۔

اس شمارے میں پاکستان سوشلسٹ پارٹی اور اُس کی عوامی تنظیموں کی خبریں بھی شامل ہیں۔

3جون کا شمارہ ایک لحاظ سے بھٹو، اس کی حکومت اور اس کی طرزِ حکمرانی پہ تازیانوں کا شمارہ ہے۔ بالخصوص بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے،انڈیا سے تعلقات کی نوعیت پہ کھل کر اظہار کیا۔ پارٹی کے ترجمان اِس اخبار نے بہت جذباتی ماحول کے باوجود کامن سینس کی اپنی بات نہ چھوڑی اور برملا کہا کہ بنگلہ دیش کو فی الفور تسلیم کیا جائے اور ہندوستان سے تعلقات نارمل کیے جائیں۔

پیپلز پارٹی نے ایک اور لطیفہ یہ گھڑا تھا کہ وہ گویا ایک سوشلسٹ پارٹی ہے۔ اُس کے اندر بدقسمت ”ترقی پسند“ لوگ بالخصوص اس فریب میں مبتلا تھے۔ اخبار عوامی جمہوریت کے اِس شمارے نے ”خو دفریبی کے طلسم سے نجات حاصل کیجیے“ کے عنوان سے پیپلز پارٹی کی سیاسی معاشی اور سماجی پالیسیوں کا اپریشن کرڈالا۔

تحریروں کا ڈکشن ہی آپ کو بتادے گا کہ یہ سارے مضامین سی آر اسلم کے لکھے ہوئے ہیں.

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*