ویتنام نے سپر پاور امریکہ کے مقابلہ میں کرونا وبا کی جنگ کیسے جیتی؟

ویسے تو میری کیا مجال کہ میں ایک عظیم سپر پاور امریکہ کا مقابلہ ویتنام جیسے معمولی ملک سے کروں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آج یعنی اٹھایس اپریل کی رپورٹ کے مطابق کم ترقی یافتہ اور کم وسائل والے ملک ویٹنام میں کرونا وبا سے مرنے والوں کی تعداد صفر ہے۔ اسکے 270 متاثرین تھے جن میں سے 225 صحتمند ہوکے گھر جا چکے ہیں۔اور اب ملک لاک ڈان کی حالت سے بتدریج نکل رہا ہے۔
اسکے مقابل میں دنیا کے امیر اور ترقی یافتہ ترین ملک امریکہ میں مرنے والوں کی تعداد 56,803 ہے جبکہ کرونا سے متاثرین کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔اسطرح اسوقت امریکہ اعداد و شمار کے اعتبار سے پوری دنیا میں سر فہرست ہے۔
یہ تو خیر حا ل کی بات ہے مگر تاریخ سے ذرا سی بھی دلچسپی رکھنے والا امریکہ اور ویتنام کے درمیان لڑی جانے والی لمبی ،مہنگی(1954-1975) اور غیر ضروری جنگ کو بھلا کیسے بھول سکتا ہے کہ جو امریکہ نے اپنی طاقت کے زعم اور اپنے مفاد کی غرض سے، دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت کرتے ہوے ویتنام کی زمین پہ لڑی اور بلآخیر پسپای کا سامنا کرتے ہوے منہ کی کھائ۔ اس طویل جنگ کے نتیجہ میں تیس لاکھ افراد کی اموات ہویئں۔ جن میں آدھی تعداد شہریوں کی تھی تو 58000 تعداد ان امریکی فوجیوں کی بھی تھی کہ جن میں سے اکثر اپنی مرضی سے نہیں بلکہ حکومتی جبر کا شکار ہوکر فوج میں شامل ہوۓ تھے۔
اسی جبری بھرتی کے خلاف مشہور ہیوی ویٹ چمپین محمد علی کلے نے آج سے ٹھیک تریپن سال قبل (28 اپریل1967)امریکی فوج میں شمولیت سے انکار کیا۔ باوجود عدالتی کڑی سزا کے اسکے ضمیر نے ایک طاقتور ملک امریکہ کے مفاد کے لیے ویتنامی قوم کے غریب اور بے گناہ افراد کو مارنا گوارہ نہ کیا۔ “وہ کیوں چاہتے ہیں کہ میں وردی پہن کر گھر سے 10,000میل دور جاؤں اور ویتنام کے ان گندمی رنگت والوں پہ بم اور گولیاں برساؤں ؟ سزاکے دو سال بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں اپنے دلی خیالات کا اظہاراس نے ان الفاظ میں کیا”انہوں نے مجھے” نیگر” نہیں پکارا، دار پہ نہیں چڑھایا، مجھ پہ کتے نہیں چھوڑے اور میری قومیت کو نہیں چھینا، میری ماں اور باپ کا زنا اور قتل نہیں کیا میں انکو (ویتنامیوں) کیوں ماروں ؟ میں غریب لوگوں کو کیوں ماروں؟ لے جاؤ مجھے جیل”۔

امریکہ اور ویتنام کی طویل جنگ کا خاتمہ تو پینتالیس سال قبل 1975میں ہو گیا مگر کرونا وائرس کی وبا سے دنیا کی قوموں کا مقابلہ ابھی چار ماہ ہی کی بات ہے۔اس عرصے میں ہونے والی اموات اور زمیں بوس ہوتی معیشت نے جہاں اچھے اچھے ترقی یافتہ ممالک کو ابھی سے نڈھال کر دیا ہے۔ وہاں ایک کم ترقی یافتہ ملک ویتنام کی اس وباء کے خلاف حکمت عملی نے بھی دنیا کو حیران کردیا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ویتنام جو کیئ سال حالت جنگ میں رہا اور نسبتا غریب ملک ہے ۔جسکی سرحدیں چین سے ملتی ہیں، آبادی ستانوے ملین ہے اور وسائل بھی قدرے کم ہیں، کا اس وبا کو قابو کرنا کیونکر ممکن ہوا؟ اس بات کا تجزیہ دوسرے ممالک بلخصوص امریکہ کے لیے بہت اہم ہے۔
اس وبا کی ابتدا سے ہی ویٹنام کی حکومت نے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھاۓ۔
۱۔فوری عمل: پہلی فروری سے چین جانے والی ساری فلائٹس کو روک دیا۔ اسکول بند کردیے اور چین سے آنے والے ورکرز کو تین ہفتوں کے لیۓ قرنطینہ میں بھیج دیا گیا۔اسکے علاوہ اگر کسی کو ۳۸ ڈگری بخار ہوتا تو اسکا کرونا کا ٹسٹ لازمی تھا۔ غلط بیانی پہ فرد جرم عائد ہوجاتی۔
۲۔تمام تجارتیں بشمول ریسٹورنٹس اور اپارٹمنٹ کامپلکس میں ٹسٹنگ لازمی قرار دی گیئُ ۔ اسکے لئے ہر شہر میں شہریوں کے لیے ٹسٹنگ اسٹیشن قائم کیے گیے۔اور جہاں کہیں بھی مثبت کیس آتا اس کے نزدیک میں رہنے والوں کے ٹسٹ ہوتے ۔ویتنام نے جو ٹسٹنگ کٹس بنائیں اسکو WHOنے پانچ دفعہ کی جانچ کے بعد منظور کیا جسکی قیمت 25ڈالرز سے کم تھی اور 90منٹ سے کم میں نتیجہ آجاتا ہے۔
۳۔قرنطینہ فروری کی ابتداءً سے لاگو ہوا۔ ملک میں آنے اور جانے والے افراد کے لیے ٹسٹنگ اور قرنطینہ لازم تھا اور مارچ میں تمام شہروں میں لاک ڈاؤن اور شہروں کے درمیان سفر ممنوع قرار دیا گیا۔
۴۔مستقل رابطہ: جنوری کی ابتداءً ہی سے حکومت نے شہریوں سے رابطہ رکھتے ہوے وائرس کی سنگینی سے آگاہ کیا۔ وزیر اعظم ، ہیلتھ منسٹری اور رابطہ کے ادارے عوام کو موبائل فون پہ اطلاع دیتے رہے۔اس سلسلے میں پروپیگنڈہ آرٹ کی مدد لی گیئ ۔ اور نئے اسٹمپس نکالے گیے تاکہ عوامی صحت کے پیغام کو پھیلایا جاے۔
۵۔منظم فوج اور سیکیورٹی سروسز کی مدد سے فیصلوں پہ فوری عمل کیا گیا ۔ اور یہ بھی کہ اگر پڑوسی کو بھی پتا چل جاے کہ کوئ غلط کام یا کرونا کے متعلق جھوٹی خبریں پھیل رہی ہیں تو وہ شکایت کرسکتا ہے جس کی بنیاد پہ ان پر جرمانہ عائد ہوتا۔

ویتنام کی انتظامیہ کی حکمت عملی سے یقیناآپکے ذہن میں غیر ذمہ دار اور نرگسیت کے مار ے صدر ٹرمپ کے کیئ بیان آرہے ہونگے ۔جنہوں نے جنوری میں ہی اس وباء پہ قابو کا اعلان کردیا تھا۔ پھر عوام کو یقین بھی دلایا کہ جب اپریل کا مہینہ ہوگا تو گرمی سے کرونا وائرس پہ منفی اثر پڑے گا۔حتی کہ مرض کی صورت میں جراثیم کش کیمیکل کا انسانی استعمال کا مشورہ بھی صدر صاحب کے ذہن کی اختراع تھی جو بارہا عوام کو یقین دلاتے رہے ہیں کہ “ پریشان نہ ہوں ہم نے بہت اچھا کام کیا ہے”۔ انہوں نے کہا” وبا معجزہ سے چلی جاے گی”۔انکا مفاد جلد ازجلد معیشت کی بحالی تھا کیونکہ انہیں انسانی جانوں سے زیادہ اس دولت کی فکر رہی ہے جو امریکہ کو امیر تر اور سپر طاقتور بناۓ۔
گو ویٹنام کے کرونا وبا سے نپٹنے کے اقدام حالیہ ہیں مگرشعور ، آگہی اور ترقی کی اس منزل تک پہنچنے کے لیے حکومت نے سالہا سال عوام کی فلاح اور بہبودی کے لیے جو کیا ہے اسکا ذکر ضروری ہے۔جو دوسرے ممالک بشمول امریکہ کے لیے ایک مثال اور امید کی کرن ہے۔

بحثیت مجموعی ویٹنام کی حکومت نے اپنی عوام کے لیے کیا کیا جو امریکہ نے نہیں کیا؟

اقوام متحدہ کی پچھلے سال کی رپورٹ کے مطابق ویٹنام نے مسلسل معاشی اور سماجی بہبود کے ترقیاتی پروگراموں پہ عمل کرکے گزشتہ تیس سالوں سے اپنی ترقی کا معیار برقرار رکھا ہوا ہے۔جسکی وجہ سے اگر 1980 میں فی کس آمدنی 100 ڈالرز تھی تو2019 میں 2,300 ڈالرز ہے۔اسی طرح جی ڈی پی 17 فی صد سے 39 فی صد ہوگیا۔حکومت نے انسانی حقوق خاصکر تعلیم اور صحت عامہ اور غریبوں کی حالت بہتر کرنے کے لیے بہت سے پروگراموں کو نافذ کیا جن میں اقلیتوں کی حالت بہتر بنانے ، غربت اور بھوک کے خاتمے ، سڑکوں ، اسکول ہیلتھ کلینکز، بجلی، صاف پانی اور لیٹرینز اور عوام کی بنیادی سماجی اداروں تک رسائ کو ممکن بنایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت کم عرصے میں غربت کا تناسب پچاس فیصد سےگر کر 6 فیصد رہ گیا ہے۔ اور یوں اب اسکا شمار درمیانی آمدنی والے ملک میں ہوتا ہے۔ جبکہ آج اسکے مقابلے میں امریکہ میں غربت کا تناسب 11.8 فی صد ہے اور صحت عامہ کے لیے حکومتی سطح پہ کوئ واضح منصوبہ بندی آج کی تاریخ تک میں تو نہیں۔ امریکہ میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور عوام کی محرومیوں کا سلسلہ طویل ہے۔ اور یہ موضوع ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے
آج 28 اپریل ہے ۔ کرونا وائرس سے جنگ لڑتے ہوے دنیا کے 210,000 سے ذیادہ افراد موت کو گلے لگا چکے ہیں جبکہ تیس لاکھ سے ذیادہ متاثر ہیں۔یہ سلسلہ کب ٹوٹے گا کچھ پتہ نہیں مگر بے یقینی کی اس رات میں یہ بات یقینی ہے کہ چمکیلی صبح کی نوید تمام انسانیت کے یکساں حقوق اور انصاف کی بحالی کے بغیر ممکن نہیں۔

Vietnam Has Reported No Coronavirus Deaths – How?

‏ https://www.vietnam-briefing.com/news/vietnam-business-operations-and-the-coronavirus-updates.html/

‏ https://www.un.org/development/desa/dspd/wp-content/uploads/sites/22/2019/03/Reducing-rural-poverty-in-Vietnam-Issues-Policies-Challenges.pdf

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*