امید

اُس کا ایک کلو میٹر لمبا پورا نام، نادیژدا کونسٹنٹی نوونا کرو پسکایا تھا۔اِس سارے لمبے چوڑے نام میں سے ”کروپسکایا“ اُس کا خاندانی نام تھا۔ یعنی یہ لفظ اُس خاندان کے ہر فرد کے نام کے آخرمیں موجود ہوتا تھا۔

اُس کا اپنااصل نام نادِژدا تھا۔ جس کے مطلب ہیں: امید (1)۔

’امید‘ 26فروری 1869کو سینٹ پیٹر سبرگ میں پیدا ہوئی۔
یہ کون تھی؟ اپنے سماج اور سوشل سائنسز میں اس کی خدمات اور اہمیت کیا تھی؟۔ اور اتنی بڑی انسان پہ کیوں زیادہ لکھا اور بولا نہ گیا؟۔ ایجوکیشن پر اُس کی تحریروں کی گیارہ جلدیں ہیں۔ اس کی یادداشتوں کی کتاب لاکھوں کی تعداد میں چھپی۔ وہ عوامی بہبود والی سیاسی سرگرمیوں کی بنا پر بادشاہ کے ہاتھوں سائبیریا جلا وطن ہوئی۔ اور بعد میں برسوں تک بیرون ملک جلا وطنی کی قہر نا کی میں انقلابی سیاست کرتی رہی۔اس کی ماں اس کے ساتھ جلاوطنی بھگتتی بھگتتی مرگئی اور اُس کی لاش تک وطن میں دفن نہیں ہوسکی۔ اورروسی اکتوبر انقلاب میں اس کا قائدانہ رول تھا۔
ہم آگے چل کر بھی دیکھیں گے کہ وہ خود بہت عظیم عورت تھی۔ مگر دنیا بھر میں انسان ابھی تک اس قدر بالغ نہیں ہوا کہ کسی بڑی عورت کے رول کو اُس کے شایانِ شان بیان کرسکے۔چنانچہ نادِژدا کا تعارف کرنے کے لیے میں وہ فقرہ استعمال کرنے پر مجبور ہو رہا ہوں جسے میں استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہتا ہوں: ”کروپسکایا لینن کی بیوی تھی“۔

دراصل صرف لینن کی بیوی کہنے سے اس کا اپنا رول چھپ جاتا ہے۔ اس کی قربانیاں، اس کی محنت، انقلابی ہنر مندی اور قائدانہ کردار ثانوی بن جاتے ہیں۔ ایک آدھ فقرے میں تاریخ کے اندر نادژدا کی اہمیت بتانی ہو تو وہ یہ ہے کہ اُس نے اپنے ساتھیوں اورپیروکاروں کو انقلابی سیاست کی چٹانوں اور دریاؤں میں سے گزارنے میں قیادت کی۔ اس نے اپنے دیگر رفقا سے مل کردوسرا کام یہ کیاکہ: تاریخ میں پہلی بار وسیع پیمانے پر ایک بڑے ملک روس میں مارکسزم کا اطلاق کیا،اور پھر اُس ملک اور اس کی تحریک کو مارکسسٹ لائن پر راہنمائی فراہم کیے۔

کروپسکایا کا خاندان بنیادی طور پربالائی طبقے سے تھا۔مگر بعدازاں بہت مفلس ہوا۔اس کے والدین چھوٹی اشرافیہ سے تھے۔نادِژدا ایک ریڈیکل شخص ”کونسٹنٹین اِگنتی وچ کروپسکی“اور ایک نجات یافتہ عورت ”الیز اویتا تسترووا“کی اکلوتی اولاد تھی۔

یہ بھی معلوم ہوا کہ کروپسکایا کا والد،چرنی شیوسکی اور ہرزن پڑھتا تھا اور بظاہر انقلابی تنظیم ”زمین اور آزادی“ سے وابستہ تھا (2)۔وہ مارکس کے انٹرنیشنل ورکنگ مینز ایسوسی ایشن کے ساتھ رابطے میں تھا۔ (3)۔

چنانچہ اگر نادژدا کی بعد کی زندگی لینن سے شادی کی بنا پر اُسے ”انقلاب کی دلہن“کا اعزاز دیتی ہے، تو بلاشبہ اس کی ایسے والدین کے ہاں پیدائش و پرورش اُسے ”انقلاب کی بیٹی“ کے ٹائٹل کا بھی حقدار قراردے گی۔ (4)۔

اس کا باپ ایک ملٹری افسر تھا۔ یوں وہ روسی سلطنت کا ایک معتبر آدمی تھا۔ اُسے جب پولینڈ میں ایک آرمی انتظامی پوسٹ پہ تعینات کیا گیا۔ تووہاں وہ کرپشن اور رشوت کے خلاف کام کرنے لگا۔ اور یہی بات اُس کی بدقسمتی ثابت ہوئی۔بھئی یہ کوئی بات ہوئی؟۔بادشاہت میں رشوت کی مخالفت کیسی؟۔ بادشاہت میں کرپشن کی مخالفت کیسی؟۔

چنانچہ اِس شریف اور انقلابی آدمی سے اُس کے ”بڑے“اور بادشاہ کے اہل کار خفا ہوگئے اور اس پر ”غیر روسی سرگرمیوں“ کا الزام لگایا گیا۔ پاکستان میں مارشل لائی سوچ کی طرح پولینڈ میں تعین اس افسر پر ایک الزام یہ تھا کہ وہ پولش زبان بولتا ہے، رقص کرتا ہے، چرچ نہیں جاتا۔۔۔اور زار بادشاہ کی سالگرہ ”دل“سے نہیں مناتا۔

اس کے خلاف رپورٹ بنا کر اوپر بھیجی گئی۔اور اس سے وضاحت طلب کیے بغیر اُسے افسری سے برطرف کیا گیا۔

نوکری سے برطرف کردہ یہ افسر اب کیا کرتا؟۔ بال بچوں کو روٹی روزی تو چاہیے تھی۔چنانچہ وہ اِدھر اُدھر کی فیکٹریوں میں نوکری کرنے لگا۔ کبھی یہاں، کبھی وہاں۔ کبھی اس فیکٹری کبھی اُس کار خانے۔اِس قدر غریب کہ نہ اُن کے پاس گھر تھانہ ذاتی جائیداد۔

یہ ہے کروپسکایا کے بچپن کا پس منظر۔ اور یہیں سے اُس کے مستقبل کی زندگی کی بنیادیں پڑنی شروع ہوئیں۔چنانچہ وہ بچپن ہی سے اپنے ارد گرد کی بدصورت زندگی کے خلاف ہوچکی تھی۔

اُس زمانے میں ”انقلابی سیاست“روسی زندگی میں بہت وضاحت کے ساتھ مقرر کردہ انتخاب اور آپشن بن چکا تھا۔ اور یہ آپشن عورتوں کے لیے بھی کھلا تھا۔ کروپسکایا نے اِس آپشن کو اختیار کیا۔

اُس کی زندگی کا مطالعہ کریں تو لگتا ہے کہ کروپسکایا دراصل پیدا ہی اس پیشہ کے لیے ہوئی تھی: انقلاب کا پیشہ۔ پیشہ ور انقلابی۔اور ایک بار جب اس نے یہ نظریہ اختیار کیا تو سختی کے ساتھ زندگی بھر اُس سے جڑی رہی۔

اسے پیٹر سبرگ کے ایک سیکنڈری سکول میں تعلیم پانے کا موقع ملا۔ اس سکول میں کچھ سابقہ انقلابی لوگ اساتذہ کے بطور کام کرتے تھے۔وہ 1882میں زبردست نمبر لے کر کامیاب ہوئی۔ اپنے مستقبل کے ہونے والے خاوند (لینن)کی طرح اس نے اپنی کلاس میں گولڈ میڈل لیا، جو کہ ایک زبردست عالمانہ ایوارڈ تھا۔

اس دوران اس کا باپ دربہ درکی ٹھوکریں کھاتا رہا۔ اس کی تحقیقات کو بلاوجہ طول دیا گیا۔ یوں دس سال تک اس کے گھرانے کو فاقہ زدہ رکھ کر اُس کے کیس کا فیصلہ ہوا۔اور موت سے ذرا پہلے اُسے بے گناہ قرار دیا گیا۔

اس کا باپ 1883میں فوت ہوگیا۔ اس طرح اب اُس کی بے گناہی خاندان کے کسی کام نہ آئی۔ اُس وقت کروپسکایا 14برس کی تھی۔یوں بیوہ ماں اور یتیم بیٹی روٹی کمانے گھروں میں گورنیس کا کام کرنے لگیں۔ (5)۔نادِژدا روٹی کمانے کے لیے امیروں کے بچوں کو پڑھانے لگی۔ اسی دوران وہ سینٹ پیٹرزبرگ کے ایک چھوٹے سے ویمن کالج سے گریجوئیٹ کرنے کے قابل ہوئی۔

وہ جب گریجوئیٹ ہوگئی تو اس نے سکول ٹیچر بننے کی ناکام کوشش کی۔

چونکہ اُس کا باپ جلدی فوت ہوگیا تھا، اس لیے کروپسکایا کی زندگی پہ اُس کے بہت کم اثرات ہیں۔ مگر نادِژدا کی ماں کا تذکرہ اُس کی زندگی میں زیادہ ہے۔ اِس لیے کہ اُس کی ماں بہت دیر تک زندہ رہی۔ اور کیونکہ خاوند مرگیا تھا اور اولاد یہی ایک تھی لہذا وہ اپنی بقیہ ساری زندگی بیٹی کے ساتھ ہی رہی۔ اسی وجہ سے اُس کی زندگی میں ماں کا حصہ زیادہ ہے۔ اُس کی پرورش میں،جلاوطنیوں کے سفر و حضر میں، حتیٰ کہ اُس کی سیاست میں بھی ماں ایک بھر پور حصہ دار کے بطور زندگی کی آخری سانس تک شریک رہی۔

اُس کی ماں کا نام تھا: الیزا ویتا تستر ووا (پیدائش 1841)۔ وہ ایک ریٹائرڈ فوجی میجر کی بیٹی تھی۔ وہ ستم زدہ عورت خود بھی ایک یتیم کے بطور بڑی ہوگئی تھی اس لیے کہ اُس کی ماں بچپن میں ہی مرگئی تھی (6)۔وہ ایک بے زمین روسی اشرافیہ کی بیٹی تھی۔چنانچہ وہ یتیم بچی،سکالر شپ پہ تعلیم حاصل کرتی رہی اور جب ادارہ سے چھٹی ہوجاتی تو فوراً ہی وہاں جاتی جہاں وہ گورننس کی نوکری کرتی تھی۔

اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ والدین کی اس غربت اور دربدری کا اِس بچی پر کیا اثر پڑا ہوگا۔

اُس زمانے میں چرنی شیوسکی کا ناول ”کیا کیا جائے؟“ روس میں ایک ضروری کتاب تصور ہوتی تھی۔کروپسکایا نے بھی یہ کتاب بچپن میں پڑھ لی۔ اور وہ شایداِس کتاب سے لینن سے بھی قبل واقف ہوگئی تھی۔ (7)۔

مگر اُس نے تودراصل ٹالسٹائی کو خوب پڑھا۔ اوریہ تو معلوم بات ہے کہ ٹالسٹائی کے نظریات پُرامن اورقانون کی پاسداری کرنے والے تھے۔کروپسکایا پر ٹالسٹائی کی تعلیمات کا زبردست اثر ہوا۔ٹالسٹائی نے گریجوئیٹ طلباسے اپیل کر رکھی تھی کہ وہ کسان خاندانوں کے لیے آسان زبان میں کتابوں کو دوبارہ لکھیں۔ کروپسکایا نے اسی اپیل پر عمل کیا۔

وہ ٹالسٹائی کی تعلیمات کے بہت زیادہ زیر اثر رہی۔ بالخصوص ٹالسٹائی کے مضمون ”luxuries And Labor“ نے تو اس پہ بہت اثر ڈالا۔ چنانچہ سکول چھوڑتے وقت اسے ٹالسٹائی کی تیرہ جلدوں والی تصانیف گریجوئیشن گفٹ کے بطور ملیں۔

انہی تعلیمات کے سبب اسے فیشن والے لباس سے کبھی رغبت نہ رہی ۔زندگی بھر وہ آرا م دِہ اور عیاش طرز زندگی کو نا پسند کرتی رہی۔اور اُس کی یہ سادگی زندگی بھر جاری رہی۔

وہ خاموش، لمبے قد کی لڑکی الگ تھلگ والی دنیاکی مخلوق رہی۔کمر تک لمبے ہوا بال والی کروپسکایا زندگی بھر سادہ رہی۔ لباس میں، آسائش میں۔

حتٰی کہ وہ اُسی کی تعلیمات کے زیر اثر دیہات بھی گئی اور عام کسان عورتوں میں کام کرنے لگی۔ مگر بہت جلد اُسے اندازہ ہوا کہ نا انصافیاں توذاتی اخلاق اور انفرادی اچھائی سے ختم نہیں ہوتیں۔ لیکن دیہات میں جاکر عام عورتوں میں کام کرنے کے اس عمل سے اُسے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ اسے دیہی زندگی کے بارے میں زبردست معلومات حاصل ہوئیں۔

اُسے شروع سے ایجوکیشن کا شعبہ پسند تھا۔ اور پھر اُس نے پوری زندگی ایجوکیشن ہی کی خدمت کی۔ ایجوکیشن میں بھی اسے ٹالسٹائی کے نظریات اچھے لگتے تھے جوکہ سٹرکچرڈ نہیں تھے۔بلکہ ٹالسٹائی تو شانت کرتا ہے، سکون دیتا ہے۔ اس کے نظریات طبقاتی مسلح مدبھیڑ سے بچا نے کے لیے بہت اکسیر ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں۔ کہ جوانی کی ذہنی شعوری اتھل پتھل کے زمانے میں اُسے Tolstoyanبن کر کچھ پناہ ملی۔

عمر کے ساتھ ساتھ البتہ اس کے ٹالسٹائی والی فکر کو ارتقا نصیب ہونا تھا۔ اس نے ٹالسٹائی سے آگے جانا تھا۔ ہر نوجوان کی طرح وہ بھی سماج سے متعلق مزید کچھ جاننے اور کچھ کرنے کی تلاش میں تھی۔تلاش والوں کو استحصال سے پاک معاشرے کے لیے مارکسزم کا فلسفہ ہی ملے گا۔ چنانچہ مستقبل میں اُس کے نظریات زبردست انداز میں مارکسی اور انقلابی ہوئے۔

مگر ٹالسٹائی ازم نہ تو اُس سے یک دم ختم ہوا، اور نہ اور یکسر دُھل گیا۔ ٹالسٹائی بہر حال زندہ رہا اُس کے اندر۔ٹالسٹائی بہر حال زندہ رہتا ہے قاری کی روح میں۔

کروپسکایا 1889کے اواخر میں پیٹرزبرگ میں عورتوں کی یونیورسٹی سطح کے ایک تعلیمی ادارے میں داخل ہوئی۔ مگر اُسے جلد اندازہ ہوا کہ اس کے ذہن میں مسلسل کھلبلی کرنے والے سوال ”کیا کیا جائے؟“ کا جواب وہاں بھی نہ تھا۔ ایسے سوالات کے براہِ راست جوابات یونیورسٹی میں نہیں ملتے۔ وہاں تو لگے بندھے نصابی کلیے فارمولے ہوتے ہیں۔ ایک فیوڈل معاشرے کی یونیورسٹیاں کبھی بھی فلسفے کی بنیادی باتوں کو نہیں چھیڑتیں۔ وہاں توبادشاہت ذرا زیادہ نفیس الفاظ میں پڑھائی جاتی تھی۔

زندگی کے بارے میں بنیادی باتوں، سوالوں کے جوابات اُن زیرِ زمین سرکلوں (کروژکی) میں ملتے تھے جو اُس زمانے میں اِس شہر میں موجود تھے۔ اُن سرکلوں کے اندر دانشوروں کا ایک گروپ باقاعدگی سے ملتا تھا اور ایسے پیاسے سوالات کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتا۔

۔ 1881میں الیگزینڈر دوئم کے قتل کے بعد پولیس نے کسی بھی طرح کے دانشوروں کے اکٹھ کی طرف سخت رویہ رکھنا شروع کیا اور یو ں سرکل عارضی طور پر زوال کی طرف گئے۔

مگر پھر1890کی دہائی کے اوائل میں ریڈیکل اور، زیر زمین بحث کے گروپ تیزی سے نمودار ہوئے۔ کروپسکایا کی طرح کے نوجوان لڑکے لڑکیوں پر مشتمل،یہ ایسے سرکل ہوا کرتے تھے جوکہ سیاسی نقطہ ِ نظر رکھتے تھے۔چنانچہ اُس زمانے میں دانشوروں، انقلابیوں اور سیاسی ورکروں کے کئی سرکل کام کر رہے تھے۔ جن میں بحثیں، لیکچرز،مطالعہ اور غورو فکر ہوتا تھا۔

اسی زمانے میں دو قسم کے سوشلزم ظاہر ہونا شروع ہوئے: کچھ خود کو نرودنک سمجھتے تھے (کسانوں کے طرفدار) اور دوسرے مارکسسٹ کہلانے والے (یعنی کپٹلزم آئے،مرجائے، پھر صنعتی مزدور اقتدار سنبھالیں)۔

کروپسکایا 1890کے بہار میں دیہات گئی جہاں وہ آخری بار ٹالسٹائی والی روح کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنے لگی۔

۔1880کی دہائی کے اواخر اور نوے کی دھائی کے اوائلی برسوں کے دوران وہ ”مزدوروں کے سنڈے سکول“ میں جغرافیہ پڑھانے لگی۔کروپسکایا محتاط سرکلوں میں احیائے نومیں غوطہ زن ہوتی رہی۔ گوکہ اُسے کہیں بھی اطمینان نہیں ہورہا تھا۔ اِن سرکلوں میں سے ایک گروہ تو ٹالسٹائی دالوں کا تھا جہاں مزاحمت کی بات نہ تھی۔ ایک اور میں اٹلی اور آئرلینڈ میں زرعی صورتحال پہ بحث جاری تھی۔ ایک اور ادبی تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔

اُس وقت تک وہ21برس کی ہوچکی تھی۔ کروپسکایاکی سکول کی دوست اولگانے اسے ایک بحث کے گروپ سے متعارف کرایا۔یہ ایک مارکسسٹ سرکل تھا۔ مارکس اور اینگلز کے نام بھی سرکل میں لیے جاتے تھے۔ کروپسکایا اُن کے متعلق مزید مطالعہ کرنے کی طرف مائل ہوئی۔ گروپ نے لاوروف کے ”تاریخی خطوط“ کے مطالعے کی ذمہ داری اُسے دی۔

اُس زمانے میں مارکس اور اینگلز کی تصانیف آسانی سے نہیں ملتی تھیں۔مارکس کی کتابوں پر پابندی لگی ہوئی تھی۔ چنانچہ ایسی کتابیں انقلابی لوگ خفیہ طورپر ایک دوسرے کو دیتے رہتے تھے۔ حتی کہ چھوٹی سی کتاب،کمیونسٹ مینی فیسٹو بھی حاصل نہیں کی جاسکتی تھی۔ کپٹل جلد نمبرایک تو بہت مشکل سے دستیاب ہوسکتی تھی۔ کروپسکایا نے کسی نہ کسی طرح سے اُسے حاصل کیا۔ اور وہ اِس کو پڑھنے میں جُت گئی۔کپٹل کا تیسرا باب تو اسے بہت اچھا لگا۔ اس نے کہا تھا:”میرا دل اِس زور سے دھڑک رہا تھا کہ اس کی آواز تک سنائی دیتی تھی“۔ (8)۔

یوں وہ آہستہ آہستہ مارکسی انقلابی نظریا ت تک پہنچ گئی۔اس نے بعد میں 1932میں لکھا: ”مارکسزم نے مجھے وہ عظیم ترین مسرت بخش دی جس کی ایک انسان خواہش کر سکتا ہے۔ راستے کے انتخاب کا علم، اور جس مقصد کے لیے کسی نے خود کو وقف کر رکھا ہو اُس کے آخری نتیجے پہ اعتماد۔ راستہ ہمیشہ آسان نہ تھا مگر راستہ کے درست ہونے پر کبھی شک نہ ہوا“۔ چنانچہ اُس نے ایک انقلابی کے بطور خود کو وقف کردیا۔ وہ اورگہرائی سے مارکسزم کا مطالعہ کرنے لگی۔

یہاں اس نے مشہور زمانہ کتاب کپٹل کی پہلی جلد کاریویو بھی کیا اور ”خاندان ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز“ نامی اینگلز کی کتاب کا ہاتھ سے لکھا نسخہ پڑھا۔

اُس نے شہر کے مضافات میں مزدوروں کے لیے پیٹرسبرگ سنڈے ایوننگ سکول میں ٹیچنگ کا کام شروع کیا۔ یہاں ہزار سے زیادہ مزدور پڑھنے آتے۔

نادژدا پانچ سال تک (1891۔ 1896)اِس ”ایوننگ سنڈے سکول”سے جڑ گئی۔سنڈے ایوننگ سکول کے اساتذہ بغیر تنخواہ کے پڑھاتے تھے۔ یہ بہت کمال لوگ تھے۔ بے لوث ایجوکیٹرز کی پوری جھرمٹ تھی یہ۔یہ مفت سکول فیکٹری مزدوروں کو تعلیمِ بالغاں دیتا تھا۔ اتواروں اور ہفتہ کی دوراتیں کروپسکایا مزدوروں کو پڑھاتی تھی۔ وہ انھیں ہسٹری اور روسی ادب پڑھاتی تھی۔

یہاں اس نے مزدوروں کی زندگی قریب سے دیکھی۔ وہ اُن کے گھر جاتی تھی۔ اور انہیں فیکٹری میں ٹریڈ یونین، لکھائی پڑھائی،اور پمفلٹ پوسٹر تیاری میں مدد کرتی تھی۔

سنڈے کو سکول میں شاعری اور نثر پڑھی جاتی تھی۔ کروپسکایا کی تجویز پر کبھی کبھی شاعری اور نثر کے بجائے دوسرے ممالک اور اُن کے عوام کے بارے میں کہانیاں سنائی جانے لگیں۔ مزدوروں میں یہ کہانیاں بہت مقبول ہوئیں۔ (9)۔

چنانچہ لینن سے ملنے سے پہلے ہی وہ ایک بھر پور مارکسسٹ اور انقلابی بن چکی تھی۔ اس کے زیرِ زمین تعلقات مزدوروں، اورانقلابی دانشوروں میں قائم تھے۔

اس طرح وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ وہ 1890میں انقلابی تحریک میں شامل ہوگئی۔

ایک دو سالوں کے اندر کئی مارکسسٹ ٹیچر،اس سکول کے سٹاف میں شامل ہوئے۔ سٹاف میں مارکسسٹوں کے مرکز ے کی موجودگی سے سکول کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوششوں میں اضافہ ہونے لگا۔ ان لوگوں نے اپنی سرگرمیوں کو مربوط کرنے کے لیے ایک خفیہ سرکل بنالیا۔ ان کی سرگرمیوں میں مزدوروں کو مارکسسٹ گروپوں میں بھرتی کرنا شامل تھا۔اور وہ لوگ اُن مزدوروں میں 1895، 96 والے قریبی فیکٹریوں میں منظم شدہ ہڑتالوں سے متعلق پروپیگنڈہ مواد پھیلاتے تھے۔

۔1892میں وہ جس سرکل میں تھی اس میں تعلیم بالغاں والے سکول کی چارلڑکیاں شامل ہوئیں۔ اورکمال بات یہ ہوئی کہ ایک مختصر وقت میں سب نے سرکل کے مرد ممبروں سے شادیاں کیں۔ یہ گویا وہاں کے سارے سرکلوں میں اُس سرکل کی ایک ریکارڈ بات تھی۔

حوالہ جات

۔1۔ مِک نیل،ایچ رابرٹ۔ برائیڈآف دی ریوولیوشن۔ 1972۔ یونیورسٹی آف مشی گن پریس۔ صفحہ 6 ۔

۔2۔دیمتری وولکوگونوف۔ لینن، لائف اینڈ لیگے سی۔ ہار پر کولنز پبلشرز۔1994

۔3۔ مِک نیل۔۔۔صفحہ 8 ۔

۔4۔ ایضا۔ صفحہ 5۔

۔5۔ ایضا۔ صفحہ 17۔

۔6۔ ایضا۔ صفحہ11۔

۔7۔ ایضا۔ صفحہ 18۔

۔10۔ایضا۔ صفحہ 29 ۔

۔8۔لود میلا کونیسکایا، کلارا ماشتا کووا۔ اے لائیف ڈیو ٹِڈ ٹو سٹرگل۔ناووسٹی پریس ایجنسی۔ماسکو۔ سال نہ دار د۔ صفحہ 10

۔9۔مِک نیل۔۔۔۔ صفحہ 33۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*