بلوچستان …… زندگی کی رَحَمِ مادر

فاسل(fossil) اُن جانداروں کے ڈھانچوں کو کہاجاتاہے جو مرنے کے بعد اپنی جگہ پر پڑے رہنے پر مختلف قسم کی چیزوں سے ڈھک جاتے ہیں۔ مثلاً مٹی کے ذرات، پودوں کے باقیات وغیرہ سے۔ پھر وہ اِن ہی چیزوں کے نیچے دبتے جاتے ہیں۔ آہستہ آہستہ پھر وہ اسی زمین کا حصہ بن جاتے ہیں جبکہ اُن کے اوپر کی گرد اپنے ہی وزن سے سخت ہوتی جاتی ہے۔ اس طرح وہ کئی سال تک وہاں محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اُن کی ہڈیاں چونکہ اپنی ساخت برقرار رکھتی ہیں اس لیے تہہ درتہہ کھدائی کرکے ان ڈھانچوں کی ہڈیوں کے ذریعے تحقیق کی جاسکتی ہے۔

۔1۔چار کروڑ ستر لاکھ سال قبل کا بلوچستان

جدید دور کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آ گئی ہے کہ بلوچستان کا علاقہ قدیم دور میں خشک اور بنجر نہ تھا۔ بلکہ یہاں کثرت سے بارشیں ہوا کرتی تھیں اور بلوچستان کے پہاڑ اور میدان جنگلات سے بھرے ہوتے تھے جن میں مختلف قسم کے جانوروں کی بہتات تھی (1)۔اس دور کو”Wet era“ (گیلا دور) کہا جاتا ہے۔ جیالوجیکل اور آرکیالوجیکل شواہد بتاتے ہیں کہ یہ بارانی عہد ابھی حال میں آٹھ دس ہزار سال قبل ختم ہو گیا۔ اور اس کے بعد ”خشک دور“ شروع ہوا۔

گذشتہ نصف صدی سے جو نئی نئی سائنسی دریافتیں بلوچستان میں ہوئی ہیں انہوں نے علوم کی سمتیں ہی بدل ڈالی ہیں۔بلوچستان حیوانی زندگی کے ارتقاء کا میدان رہا ہے۔ گو کہ ابھی تک اس ارتقاء کے کچھ گم شدہ مراحل کو دریافت کرنا باقی ہے مگر اب تک تو یہی لگتا ہے کہ یہیں پہ ہے سب کچھ۔ اب بلوچ اور بلوچستان کی تاریخ پر لکھنے والے قلمکار کو صرف بلوچ کی تاریخ لکھنی نہیں پڑے گی کہ فلاں قبیلہ اصلی ہے فلاں نام نہاد کم اصل۔ فلاں فرقہ لوکل ہے فلاں نان لوکل۔ بلکہ اب اُسے پوری کائناتی حیات (ایک سیل والے ادنی جاندار سے لے کر انسان تک) کی تاریخ بلوچستان ہی میں بیان کرنی پڑے گی۔ یہیں وہ پیدا ہوئے اور ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے اکیسویں صدی کے انسان تک آن پہنچے۔ بلوچستان ارضِ حیات ہے،آبِ حیات‘ اورمقامِ حیات ہے۔ ساری زندہ مخلوق یہیں کی ہے۔

پونے پانچ کروڑ سال قبل کی بارکھان کی وھیل مچھلی

(روڈھوسی ٹَس بلوچستانی سِس)

میں بارکھان میں قدیم فاسلز،بلوچی تھیریم اور مہر گڑھ کے زمانے کے درمیان کے عرصے والے بلوچستان کے بارے میں بہت کھوج لگا رہا تھا۔ دانشوروں کے تو میں نے کان کھالیے تھے۔ اور اسی پرا سیس میں ڈاکٹر غلام محمد کھیترانڑ سے بھی پر جوش انداز میں بات ہوئی۔ اس نے بہت ٹھنڈے دل سے وہ بات کہہ دی جو میرے لیے بہت غیر متوقع تھی۔ اس نے کہا کہ میرے علاقے(بارکھان) میں ایک حاملہ وہیل مچھلی کے فاسلز دریافت ہوئے ہیں جو پانچ کروڑ سال پرانے ہیں۔ اس نے بتایا کہ جس امریکی سائنس دان نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے اُس سے اُس کی دوستی ہے، ای میل سے رابطہ ہے۔ اور جس بین الاقوامی طور پر مستند سائنسی جریدے میں اُس کا آرٹیکل چھپا ہے۔ اس کی فوٹو کاپی بھی اس کے دوست نے اسے بھیج رکھی ہے۔

سبق:سائنسی کام کرتے وقت بہت سارے لوگوں سے اِس کا ذکر کرنا چاہیے۔

کیا پتہ کون کس وقت کار آمد مدد دے؟۔

جس تحقیقی انٹرنیشنل جریدے میں وہ مضمون شائع ہوا تھا اس کا نام ”سائنس“ ہے۔ میں نے انٹرنیٹ پہ اسے ڈھونڈا تو وہ رسالہ مجھے مل گیا۔ 2001 کے 21ستمبر کے شمارے میں اُس دریافت کی تفصیل بیان تھی۔ یہ تحقیق یونیورسٹی آف مشی گن کے پروفیسر فلپ گِنجرِخ(Philip Gingich)، اُس کے ایک ساتھی لیاد زلماؤٹ،جیالوجیکل سروے آف پاکستان کے محققوں اور نیو ہیمپشائر یونیورسٹی کے سکالروں نے مل کر کی۔ رسالے کے سرورق پہ مشی گن یونیورسٹی کے ایک آرٹسٹ کی اس مچھلی کی بنائی پینٹنگ چھپی ہوئی ہے جس میں یہ نیلگوں سمندر سے خشکی کی طرف قدم رنجہ فرما رہی ہے۔ میں نے چارلس ڈارون کی روح کو اُس کی تحقیق کے نتائج کی تصدیق والا یہ سارا مضمون زور زور سے سنایا۔۔۔اور میں نے تصور میں اس کے سر کو فخر سے بلند ہوتے دیکھا۔

حیران کن بات یہ تھی کہ یہ وہیل مچھلی پانی کے بجائے خشکی میں رہتی تھی۔ لہذا یہ پیروں پر چلتی تھی۔یہ خشکی کا میمل جانور تھا۔ اس کا خشکی سے سمندر میں جا بسنے کا سارا ارتقائی زمانہ ہمیں اِس دریافت نے بتادیا ہے۔

یہ ابتدا میں چار ٹانگوں والا جانور تھا جوکہیں جاکر پانچ کروڑ سال قبل مکمل طور پر سمندری جانور بن گیا۔ اور پھر رفتہ رفتہ سمندر ہی میں رہ رہ کر اس نے ٹانگوں سے نجات حاصل کر لی۔ جو فاسلز بارکھان میں ملے اُن میں سے اُس کی ٹانگیں باقاعدہ طور پر موجود ہیں۔پاؤں کی انگلیاں چار تھیں۔ اس کے webbedپیر تھے جو تیراکی کے کام آتے تھے۔ وگرنہ انگوٹھے hoof shapedتھے۔ اگلا دونوں بازو نسبتاً مختصر تھے۔

حیرانگی تو ہوتی ہے۔ اس لیے کہ جس وھیل مچھلی سے آج کی نسل واقف ہے، اس کے نہ پیر ہیں اور نہ بال۔ ان ٹانگوں کو وہ سمندر سے نکل کر خشکی میں زندگی گزارنے میں بروئے کار لاتا تھا۔اُس کی باقاعدہ انگلیاں تھیں، انگوٹھے تھے۔ اب سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ وھیل مچھلی دراصل بھیڑ، گائے، سور، اونٹ، ہرن اور دریائی گھوڑا کے خاندان سے ہیں۔(2)

سائنس میں اس مچھلی کا نام روڈھو سی ٹس بلوچستانی سس(Rodhocetus Balochistanesis) ہے۔ اب آپ انگلش زبان کے رعب میں مت آئیے ۔یہ جو لفظ ہے ناں،Rodhocetus۔ تو یہ انگلش کا لفظ نہیں ہے۔ یہ گریک لفظ ہے۔Rodhoیعنی وھیل۔ پورا لفظ پڑھا جائے گا: روڈ ہوئی سی ٹس۔

ا س کی لمبائی دس فٹ یعنی تین گز سے زیادہ ہے۔ یعنی دو انسان اوپر نیچے کھڑے ہوں تو ایک روڈ ہوئی سی ٹس جتنا بنتے ہیں۔ اس کا وزن ایک ہزار پاؤنڈ ہے۔

؎ فاسل شدہ وہیل کے یہ ڈھانچے ابھی تک دریافت کردہ وہیل میں قدیم ترین ہیں۔47ملین سال قبل کے یہ جانور مشرقی بلوچستان میں بارکھان ضلع کے علاقے رکھنی میں لاکھا کچ لوھما میں ”کِن وت“ کے مقام پر ملے ہیں۔(3)

اس دریافت کے بڑے سائنس دان نے بتایا کہ سب سے پہلے ہمیں چھوٹے دانت نظر آئے۔ ہمارا خیال تھا کہ شاید یہ ایک چھوٹا بالغ وھیل ہے مگر پھر ہم نے کھدائی جاری رکھی اور ہمیں پسلیاں ملیں جو ان دانتوں کی نسبت بڑے جانور کی تھیں۔ دن کے آخر میں اندازہ ہوا کہ ہم نے ایک مادہ حاملہ وھیل اور اس کے پیٹ میں بچہ دیکھا ہے۔جی، بارکھان میں جو وھیل مچھلی ملی وہ صنف میں مادہ تھی۔ ہماری یہ مادہ وھیل مچھلی حاملہ تھی ۔ وہ اس طرح کہ اس حاملہ ماں کے پیٹ میں جو بچہ پڑا ہوا تھا۔ اُس کی پوزیشن یہ تھی کہ پیدائش کے وقت اس کے سر نے پہلے باہر آنا تھا۔جو کہ زمینی ممالیوں کی خصوصیت ہوتی ہے۔ جبکہ ہمارا سمندری جدید وھیل اس سے الٹ پوزیشن میں پیدا ہوتا ہے۔

مذکورہ وہیل نے جب چاہا سمندر میں پیراکی فرمائی۔ اور جب چاہا خشکی پہ آ کر بچے دیئے۔خشکی جہاں ننھے بچوں کو نہ ڈوبنے کا خطرہ ہوتا نہ دیگر جانوروں بالخصوص شارک مچھلیوں کی خوراک بننے کا ڈر۔یہ وھیل خشکی پر بہت لمبا فاصلہ طے نہیں کر سکتا تھا۔ یہ گویا ساحل کے ساتھ ہی بندھے تھے۔ یعنی یہ خشکی اور سمندر کے سنگم پہ رہتے تھے اور آگے پیچھے جاتے تھے۔ خشکی میں سمندر کی لہروں سے آئی مردہ مچھلیاں اس کی خوراک تھیں۔ جی ہاں، وہیل مردار خور جانور ہوا کرتا تھا (Scavenger)۔بلوچستان کے اس وھیل کی دریافت نے سائنس کا بڑا مسئلہ حل کر دیا کہ کس طرح یہ خشکی کا جانور بالآخر سمندری بن گیا۔

ایک ویب سائٹ نے ذکر کیا کہ جب یہ فاسل دریافت ہوا تو مشی گن یونیورسٹی کے ماہر فلپ گنجیرخ ایک بالغ اورایک بچے کی ہڈیوں کے گڈ مڈ سے ہکا بکارہ گیا۔واضح رہے کہ اس پورے پراجیکٹ کی فنڈنگ بہت ہی معتبر ادارے نیشنل جیو گرافک سوسائٹی نے کی تھی۔

وہیل سمندری میمل جانور ہیں۔جبکہ زیادہ تر میمل خشکی پر رہتے ہیں اور ابتدائی میملوں کا فاسل ریکارڈ زمینی باشندگی کاہے۔ لہٰذا بہت عرصے سے یہ اخذ کیا گیا کہ وہیلوں کی ابتدا میں زمین سے سمندر کی طرف ارتقائی ڈھلنا شامل ہے۔ بارکھان نے ہمیں وھیل کی ”فرام لینڈ ٹو واٹر ٹڑانزیشن“ کے بارے میں بتایا۔ یہ بہت زیادہ علم بھری تبدیلیوں میں سے ایک ہے۔

ریفرنسز

شیخ، نوید اسلم۔ پاکستان کے آثارِ قدیمہ۔2008۔ بک ہوم لاہور۔ صفحہ63

بران، ڈیوڈ۔Ancient walking whales shed light on Ancestry of Ocean Giants

http://news national geographic.com /news /pf/ 37243652.html

گنگرِخ، فلپ اور دیگر۔Origin of Whales from early artiodactyls

ماہنامہ ”سائنس“۔ جلد 293۔ ستمبر 2001۔ صفحہ 2239-2242

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*