انالحق

"زایان اور حمزہ کے نام”

میں جو کہنا چاہتا ہوں
تو جب میں کہ نہیں پاتا
میرا ذہن مچلتا ہے
میری گویائی سسکتی ہے
مگر لفظوں کا اک بھنور میرے ننھے سے ذہن میں
نہ جانے کتنے مخملیں قوس و قزح کے جالے بنتا ہے

کیا رنگ جگاتا ہے
وہاں مکڑی نہیں کوئی، جگنو دمکتے ہیں
جو میرے ہاتھ کی پوروں پہ گردش پھر کرتے ہیں
میں انکو پکڑتا ہوں اچھلتا ہوں کبھی بے ربط سی آوازیں
میرے جزبات کی میرے الفاظ کی
ترجمان بنتی ہیں
جو گر سمجھو ہمیں جانو تو ناطق،کے دیوانو
گر تم سا تو دکھتا،ہوں مگر تم سا نہیں ہوں میں
میری گویائی،ہے محدود چند سادے جملوں تک
جو دہراتا جاتا ہوں پھر الجھابھی جاتا،ہوں
مجھے آٹسٹک تم کہتے ہو کبھی سپیشل بلاتے ہو
میں تم سا نہیں ہرگز میرا رتبہ ہی اعلی ہے
میں سب جانتا پہچانتا،محسوس،کرتا،ہوں
تمہاری مانند گھروندے دلوں کے روندا نہیں کرتا
نہ میں پامال کرتا،ہوں کبھی لفظوں کی حرمت کو
چھپائے راز،افلاکی اپنی چاند آنکھوں میں
کبھی ہنستا،ہوں،روتا ہوں پھر چپ سادھ لیتا ، ہو ں
مجھے مانو ، مجھے جانو مجھے سمجھو اور اپناو ¿

کہ تم تو بول کے دل توڑ دیتے ہو
مگر
میں توبس تکتا ہی جاتا،ہوں
گھڑی دو گھڑی کی نیند کبھی مجھ کو غنیمت ہے
کبھی بس جاگتا،ہوں سوچتا ہوں گھبرا سا،جاتا ہوں
میں تم سے برتر ہوں اے نان سپیشل دو پایو
کہ تم جو گرج برس،کے اکڑ کے اطوار بدلتے ہو
میری خامشی،بیدار راتیں، وہ مستقیم عادات
,منصور تھا کم ظرف،کہ گویا کیا خود،کو حق
میری ہر ادا،میری جستجو میری بےقرار مچلتی روح
ہر لمحہ و ہر گھڑی "انا الحق” اناالحق، "انالحق”

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*