میر حاصل بزنجو کی یاد میں

اگست کا مہینہ ہے۔ گیارہ اگست بابا بزنجو کی برسی کا دن اور میں بابا بزنجو کے حوالے سے کچھ دنوں سے مختلف کتب کا مشاہدہ کرنے میں مصروف تھا۔ بابا بزنجو، جنہیں کینسر کے مرض نے ہم سے جْدا کر دیا۔ میں بابا بزنجو پر مارشل لا کے دور میں کیے گئے مظالم پر اپنا مضمون مکمل کرنے کی کوشش کر رہا تھاکہ اتنے میں خبر آئی کہ میر حاصل خان کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی ہے جو چند ماہ سے پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا تھے۔ ایک گھنٹہ پہلے وہ کسی آن لائن پروگرام میں شرکت کی تیاری کر رہے تھے کہ اچانک طبیعت بگڑنے کے باعث انہیں فوراً ہسپتال لے جانا پڑا۔ وہ کینسر جیسے موذی مرض کے خلاف مضبوطی کے ساتھ اپنی جنگ لڑ رہے تھے۔ وفات سے دس دن پہلے وہ بابا بزنجو کی برسی کے موقع پر بھی مختلف تقاریب سے خطاب کرتے رہے اور کہتے رہے، ” مجھے اپنے والد کی سیاست پر فخر ہے”۔

زندگی ایک ایسا سٹیج ہے جہاں ہر انسان آکر اپنا کردار ادا کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ اسی طرح بابا بزنجو نے کہا تھا کہ میں نے اپنے اہلِ وطن سے عشق کیا ہے۔ ہم سب کچھ تاریخ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اگست کا مہینہ بھی تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔ جس نے ہم سے بہت ہی معتبر رہنما چھین لیے ہیں۔ حالیہ دنوں میں میر حاصل بزنجو کی رحلت بائیں بازو کی سیاست پر ایک کاری ضرب ہے۔ جد و جہد رکتی نہیں، چلتی رہتی ہے۔ لوگ آتے رہتے ہیں اور کارواں بنتا چلا جاتا ہے۔ ہماری ایسی آوازیں جو حکمرانوں کے ایوانوں میں گونجتی رہی ہوں۔ ان کا جانا ہمارے لیے کسی المیے سے کم نہیں اور جمہوریت کے لیے نقصان کا باعث ہے۔

میر حاصل بزنجو طالب علمی کے زمانے سے سیاست کے میدان کے سر گرم رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں طلبا کو متحد کرنے میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا اور اس تسلسل کو جاری رکھا۔آپ نے میر غوث بخش بزنجو کے نام کا سہارا کبھی نہیں لیا اور نہ ہی اس بات کا پرچار کیا اور نہ ہی انہوں نے وراثتی سیاست کو اپنا حصہ بنایا۔ میر حاصل بزنجو نے اپنی شناخت خود بنائی۔ قومی اسمبلی سے لے کرسینیٹ تک ان کی آواز گونجتی رہی۔ حکمرانوں کے بارہا کہنے اور ان کے پاس جانے کے باوجود بھی وہ اپنے موقف پر کھڑے رہے۔ دھونس، دھمکیوں اورمقدموں کو بالائے طاق رکھ کر وہ ڈٹے رہے۔

میر حاصل خان پر جھوٹے من گھڑت الزامات لگائے گئے اسی طرح وہ مشرف کے دور میں بھی پابندِ سلاسل رہے۔ اگست ہی میں نواب بگٹی کی شہادت پر سب سے پہلی پریس کانفرنس میر حاصل بزنجو نے کی تھی۔ ان کے تجزئیے آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔ اٹھارویں ترمیم میر حاصل بزنجو اور رضا ربانی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ اٹھارویں ترمیم حکمرانوں پربم بن کر گر پڑی۔اب تک وہ اس تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں کہ اس کا خاتمہ کیسے کیا جائے۔ اگست کا مہینہ ہی نذیر عباسی، ارشاد مستوئی اور حیات بلوچ، جنہیں جس بیدردی سے ظلم و زیادتی کا شکار بنایا گیا ان کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ جن کے قاتلوں کا اب تک کوئی اتا پتا نہیں۔ تقریب خواہ جام ساقی کی ہو، نذیر عباسی کی ہو، حسن ناصر کی ہو،یا دیگر شہدا کی، بائیں بازو کی جد و جہد میں میر حاصل بزنجو ان تقاریب میں بطور ورکر اور مہمانِ خصوصی موجود رہتے تھے۔ میر حاصل بزنجو نے ملک کے اندر ترقی پسند قوتوں، سوشلسٹ، کمیونسٹ، وہ قوتیں جو بابا بزنجو کی زندگی کے بعد منتشر ہو گئی تھیں یا سویت یونین ٹوٹنے کے بعدگوشہ نشیں تھیں۔ان کو یک جاکرنے کے لیے آپ نے پورے ملک کا دورہ کیا۔ آخر تک یہ خواہش رہی کہ جس طرح بابا بزنجو نے بائیں بازو کی تمام قوتوں کو جوڑے رکھا آئندہ بھی اس سلسلے اور جد و جہد کو برقرار رکھا جائے۔ میر حاصل بزنجو نے کینسر جیسے موذی مرض کو بالائے طاق رکھ کر اپنے سیاسی کام کو جاری رکھا۔ زندگی کے آخری ایام تک و ہ سیاسی جدو جہد میں مصروف رہے۔ سیاسی جماعتوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہم ایک خاموش مارشل لا میں رہ رہے ہیں۔ ہمیں سیاسی فیصلے کرنے ہوں گے۔اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔ اس پر بہاولپور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد میں مختلف کیسز درج ہوئے مگر اس کی آواز کو دبایا نہیں جا سکا وہ متواتر اپنی بات کرتے رہے۔ اس نے کہا کہ ہمارے معاشرے کو بنے بنائے سیاستدانوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حقیقی اور جمہوریت پسند قوتوں کو اپنے ساتھ جوڑتے ہوئے آگے بڑھیں۔ورنہ بنے بنائے سیاستدان کہلانے والوں کے ہاتھوں جمہوریت کا قتل ہوتا رہے گا۔ جس کے نتائج حالیہ دلوں میں چئیر میں سینیٹ کے الیکشن کے دوران سامنے آئے۔

میر حاصل بزنجو قوم پرست، جمہوریت پسندسیاسی رہنما تھے۔ وہ ایک زیرک سیاستدان تھے۔ جمہوریت کی بحالی، جمہوری اور عوامی قوتوں کو مضبوط و مستحکم کرنے کے لیے آپ نے بخوبی اپنا کردار نبھایا۔ ان کی رحلت بلوچستان اور جمہوری قوتوں کے لیے نا قابلِ تلافی نقصان ہے۔

میر حاصل بزنجو اپنے والد غوث بخش بزنجو کی طرح سخت سے سخت تنقید کو برداشت کرتے تھے۔ جواب میں مسکراہٹیں بکھیر دیتے تھے۔ میر حاصل بزنجو نے کھٹن اور مشکل حالات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔ حالات کتنے ہی سنگین رہے ہوں وہ گھبرانے کی بجائے دلائل کے ساتھ مذاکرات اور ان کے حل کے لیے بے خوف و خطر کھڑے رہنے والے سیاسی رہنما تھے۔

یقیناً ایسے رہنماؤں کی رحلت سے خلا پیدا ہو گا۔ لیکن ہم تو بابا بزنجو کے سیاسی فلسفے کے پیروکار ہیں۔ مایوس نہیں ہیں، جدوجہد کا سفر جاری رہیگا۔

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے ظلم

اور نکلیں گے عشاق کے قافلے

***

جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں

ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے

ماہنامہ سنگت کویٹہ نومبر2020

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*