باباکے خواب کا سفر حاصل پہ رک گیا

سیاست کرنے کی نہیں،سمجھنے، سمجھانے،اپنوں کے ساتھ نبھانے،دکھ درد بانٹنے،،امن کے ترانے گانے،زندگی کو زندگی کی طرح گزارنے، مشکلات کی کوکھ سے آسانیاں پیدا کرنے، عوام کی جانب ہاتھ بڑھانے،ظالموں سے پیچھا چھڑانے، درویشی میں محبت کے گیت گنگنانے،علم، تجربہ، مشاہدہ کے پیچھے چلنے، اوربے غرض ہو کر انسانیت کے لیے خدمات سرانجام دینے کا نام ہے۔اس میں نظریاتی چاشنی ڈالنا اس کا دوسرا خوبصورت حوالہ ہے۔ بلوچستان سوتی دھاگوں سے دیا گیا مختلف رنگوں پر مشتمل ایک گرہ ہے۔ کوئی اسے پیچیدگی کی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ کوئی اس میں اپنی دھڑکنیں محسوس کرتا ہے اور کوئی اسے محض سونا اگلنے والی سرزمین خیال کرتا ہے۔ جبکہ صوفیاء اس کے رنگوں کی الگ الگ پہچان رکھتے ہیں۔ انہیں اس معصومیت کا رنگ دکھتا ہے۔ ظلم اور محرومیاں نظر آتی ہیں۔ وہ مایوسی کا رنگ بھی محسوس کرتے ہیں جبکہ جلال و کمال کا رنگ بھی انہیں نظر آتا ہے۔مست توکلی،میر یوسف عزیز مگسی،میر غوث بخش بزنجو، گل خان نصیر،ماما عبداللہ جان جمالدینی،اوربابو عبدالرحمٰن کرد، عالمانہ مزاج رکھنے کی وجہ سے اس گرہ کے رنگوں کی تشریح وتفہیم پر خاصی قدرت رکھتے تھے۔ مخالف ان رنگوں پر مبنی گرہ کو کاٹ کر،دانتوں سے، اوزاروں سے اور انہیں جلا کر کھولناچاہتے ہیں۔انہیں اس حرکت سے باز رکھنے پر حاصل بزنجو اور اس کے اسلاف سزا کے مرتکب ٹھہرتے آئے۔ میر حاصل خان بزنجو اپنے بابا کی طرح سیاست کی یہ گتھیاں سلجھاتے سلجھاتے راہیِ ملک ِعدم ہوئے۔وہ اپنے باپ کی طرح بولتا تھا۔ بغیر احساس جتائے عوامی خدمت کے بدلے مظالم سہتا تھا۔اپنے انداز میں حقوق کی بات کرتا تھا۔سیاسی معاملات میں پنوں جیسی دیوانگی اس کا مقدر بن چکا تھا۔ اسے سسی کی چاہت کا بھرپور اندازہ تھا مگر جہالت کی ہتھکڑیوں میں بندھا اس شخص کے زندہ مورخ کو اس کا احساس کب ہوا حالانکہ وہ ظالموں، نا سمجھوں اور محبت کے مخالفیں میں پھنس کر رہ گیاتھا۔حاصل خان کو مظالم سہنے کی جرات ورثہ میں مل چکی تھی۔اس کے با وجود اپنے بابا کی طرح وہ حقوق کی کوکھ سے امن کا متلاشی تھا۔ یہاں ہر ناسور ناانصافی کے بیج سے پھلتا پھولتا ہے۔ بلوچستان کے ساتھ ناانصافیوں کا بیج حاصل کے بدن میں بھی ناسور کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ ایک بے بس انسان، ظلم کے ہاتھوں دبا ہوا شخص بھلا کسی ناسور کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے۔ اس کے باوجود وہ اندر سے صاف ہو کر بولتا تھا کہ شاید اس بابا جی کے قصے کی طرح کوئی اس کی بات سمجھنے والا پیدا ہو۔ باباجی بندوق لے کر تیزی سے جا رہے تھے۔ لوگوں نے اس کے ہاتھ میں ہتھیار دیکھ کر پوچھا۔ بابا جی خیر ہے کسی انسان کو مارنے جا رہے ہو۔بابا جی مڑ کر بولا بیٹا انسان تو باتوں سے مر جاتے ہیں۔ بندوق توخونخوار جانوروں کو مارنے کے لیے ہوتا ہے۔بابا بزنجو اور حاصل بزنجو ہمیشہ انسانوں سے مخاطب رہنے کی سعی کرتے رہے۔ وہ سب کے لیے آزاد فضا میں سانس لینے کے حامی تھے۔ بدقسمتی سے بلوچستانی اس وقت سیاست کی تیز رفتار ٹرین میں بیٹھے ہیں۔ اس لیے سب کی نظریں جندم لائن پر جمی ہوئی ہیں۔ایسا تب تک رہے گا جب تک نشئی انجن ڈرائیورتبدیل نہیں ہوگا۔یا پھر ملک میں نااہل سیاست دانوں کے لیے جمہوریت کے پبلک سروس کمیشن سے مقابلے کا امتحان پاس کرنا لازمی نہیں ہوگا۔ حاصل بزنجو سیاست کے داؤ پیچ سے بخوبی واقف تھا۔ مگر سیاست کے آسمان پر موجود گدھ اسے اپنا پتنگ اڑانے میں رکاوٹ تھے۔حاصل ایک تجربہ کار سیاستدان تھا۔ اس کاریگر کی طرح جو نٹ بولٹ کے غلط چوڑی چڑھنے سے واقف ہوتا ہے۔ سیاست دان ماں باپ کی طرح شفیق ہوتے ہیں۔اپنے عوام کے لیے تکبر و غرور کا ڈنگ نہیں رکھتے۔ وہ خود پہلے انصاف کے بہشتی دروازے سے گزرتے ہیں۔ پھر اپنے عوام کو آسانی سے گزارتے ہیں۔ بقول حاصل بزنجو حادثاتی طور پر سیاست میں آنے والے اپنا ڈنگ ساتھ لے کر آتے ہیں۔ اس لیے عوام ان کے اعمال سے ڈستے جاتے ہیں۔ حاصل ایک روز کہہ رہا تھا اس ملک کو دھویں سے بھرے کمرے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ہر شخص کا یہاں دم گھٹا جارہا ہے۔ہم جیسے لوگ اس کی کھڑکیاں اور بنددر وازے کھولنے کی جتن کر رہے ہیں۔ یہاں محبت کے ہاتھ بڑھانے والے حکمران کم ہیں۔ جمہوریت کے وجود پر تیزاب پھینکنے والے زیادہ ہیں۔ سگریٹ کا کش لیتے ہوئے ہیں مزید گویا ہوا یار یہ جو دوسروں کو کمتر اور ان پڑھ خیال کرتے ہیں کیا وہ پڑھے لکھے اور مخلص لوگوں کا امتحان نہیں لے رہے ہوتے۔ یہی ہمیں صبر و تحمل کی تلقین بھی کرتے ہیں۔ذرا ان سے پوچھو کہ اگر کوئی اناڑی آپ کے گھر کا فریج یا آپ کی قیمتی گاڑی کا حلیہ بگاڑ لے تو کیا آپ اس کو دعائیں دیں گے۔اس قسم کے لوگ استحصالی نیت لے کر ہمارے اردگرد بیٹھے ہوئے ہیں۔بھئی سنا ہے شادی شدہ جوڑوں کا فیصلہ آسمان پر ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ناانصافی پر مبنی یہ جوڑے زیادہ دیر تک شادی کے بندھن میں بندھے نہیں رہتے۔ بھلا جھوٹ پر رشتہ قائم رہ سکتے ہیں۔حاصل خان سے جب بھی ہماری ملاقات ہوئی سیاست ہی اس کا محور رہا۔ عوام کے دکھ درد سے شروع ہونے والی ہماری گفتگو رونے دھونے پر ختم ہوئی۔ آپ سوچیں جن کے سینے میں اپنوں کا درد ہو کیا وہ کسی قسم کے سیاسی اتار چڑھاؤ سے غافل رہ سکتے ہیں۔ جو امن کے لیے تڑپتے ہوں ان کو بھلا سکون نصیب ہو سکتا ہے۔ جو لوگ چور ڈاکوؤں کے بیچ رہتے ہوں انہیں اپنا تحفظ تودرکار رہتا ہے۔حاصل بزنجو جیسے جمہوریت پسند اور ترقی پسند وں کا یہی المیہ رہا ہے کہ وہ گمان اور بدگمانی کا شکار رہے ہیں یا پھر ان پر گمان اور بدگمانی مسلط کی جاتی رہی ہے۔ وہ جاہلوں میں خیر سگالی کی باتیں کرتے رہے ہیں۔حاصل خان بلوچستان اور اس ملک میں بیرونی مداخلت سے بھی بخوبی واقف تھا۔کیونکہ اس کے باباکاوژن اسے ورثے میں ملا تھا۔ ایک مرتبہ توحاصل بہت جذباتی ہواجب کسی نے عوام کو ووٹ کا صحیح استعمال نہ کرنے پر طعنہ دیا۔حاصل نے کہا کہ یہاں ووٹ نہیں نوٹ اور طاقت سے لوگ اقتدار میں آتے ہیں۔ووٹ والے یا تو سڑکوں پر گھوم رہے ہوتے ہیں یا پھر محفوظ مستقل اقدار ان کا مقدر نہیں ٹہرتا۔

بہرحال بابا بزنجو کی طرح حاصل بزنجو بھی اور تو کچھ حاصل نہیں کرسکاماسوائے اپنوں سے محبت اور عقیدے کے۔۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ۔ نومبر2020

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*