تعریف کا خراج فہمیدہ ریاض کو

تاریخ کی خونی گلی تھی،
اور فہمیدہ ریاض
ٹارچر سیلوں میں تھے کڑیل جوان
گمشدہ جن کی جوانی گمشدہ
تاریخ کی خونی گلی تھی
اور فہمہدہ ریاض
عورتیں سنگسار تھیں
اورُگناہگارُمحبت آدمی
اورانکاری جبیں انسان کی
وقت کے سارے
خدائوں کے قہر کے سامنے سینہ سپر
ایک فہمیدہ ریا ض۔
تاریخ کی خونی گلی تھی
اور فہمہدہ ریاض
بنگالُ تھا
یاُسندہ کی تھی سرزمین
لانگ بوٹوں میں بلوچستان تھا
لاٹھی گولی میں کراچی
خون میں لاہور تھا لتھڑا ہوا
یا تھے کہ پنڈی پشاور
وہ ان سب کی کامریڈ
غمگسار و نغمہ زن نوحہ گر
ہر یزید وقت کی دربار میں
بس قلم ُکا وہ علم اونچا کئےیہ کراچی شام کا بازار تھی
کوفیوں کے سامنے
صوفی صفاتی کامریڈ
یہ کہ اسکا تھا بدن اسکا وطن
اسکاُ وطن اسکا بدن
شاعری اسکا چمن
ایک فہمیدہ ریاض
وہ بھٹائی مارکس رومی کے چمن
کی عندلیب
خیام غالب اور ایاز
شام میخانہ میں اسکے
ہمنفس و ھم مشرب ہم کلام
تاریخ کی خونی گلی تھی اور فہمیدہ ریاؐض
دریدہ اک بدن کی شاعرہ
اور دریدہ اس وطن کی شاعر
دیس پتھر کی زبان
شہر پتھر کی زبان
تاریخ کی خونی گلی تھی
اور فہمہد ریاؐض
من تھا جسکا کبیر
(بھولا بھولا پھرے جگت میں
کیسا ناتا رے)
تاریخ کی خونی گلی تھی
اورُفہمیدہ ریاض

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*