محبت کی ثلاثی. ..

محبت کی اس ثلا ثی کو جب جب لکھا جائے گا,وقت کی آنکھوں میں آنسو لہو بنکر رلائیں گے. ..ساحر کیلیے امرتا نے کہا کہ خواب بننے والا جولاہا ہی رہا کسی کا خواب نہ. بن سکا. . انکے جانے کے بعد انکے بچے سگریٹ کے ٹکڑوں سے قرب کشید کرنا . وصل کو تخیل کی اڑان میں پورا کرنا ….دل و قلم ساحر ساحر خالی صفحے پر لکھتے جاتے تھے. یہ تکرار. مجنوں کی لیلی والی تکرار تھی. ..خیالوں میں محبوب کو بت بناکر تراش لینا اور بچہ کے سچ. کا سامنا سچ سے کرنا. کیا میں ساحر انکل کا بیٹا,ہوں . .کے جواب میں. نہیں. ..کہکر. سچ. کی تسلیم سکھانا ….اس تکون میں نقصان تو سب کا ہی ہوا لیکن متاع درد جو ہاتھ آئ. سو. انمول .. ..لیکن. امروز کا کردار بہت مضبوط بے لوث بے ریا .ثابت ہوا ..امرتا کے گھر میں. اپنے اشعار سے کیلی گرافی کرنا .ہر زینہ ہر روشندان پر. ہر دیوار. گوشہ.کو امرتا کی تصاویر. اور انکے اشعار سے سجادینا. اک سر پھرا جنونی. مستقل مزاج. عاشق ہی کرسکتا تھا. .جس نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ. تیاگ دیا . ساری دنیا سے کٹ کر. اس امرت کا ہورہا. جو خود کسی اور کی مجسم ہوچکی تھی .. .عشق. عموما طرفین کی رضا طلب کرتا ہے لیکن ایسا عشق جس میں محبوب کسی اور تخیل سے اپنے خانہ دل کو آباد کرچکا ہو .. .دراصل حسن و,عشق. کی لاگ یا میل فطری یا نارمل جذبہ ہے. . لیکن جب حسن شعلہ و آتش نہ رہے. جب حسن ماند پڑ کر, بیماری عمر. سے کمہلاجائے. جب امرتا محض ہڈیوں کا پنجر بن گئ تھی. جب وہ پلنگ کے کونے پر چھوٹی سی گٹھری کی طرح نظر آتی تھی نحیف. لاغر. . .جب وہ محبت کے نام پر کچھ دینے کے
قابل نہ تھی. اس وقت. امروز نے بے ریا بے غرض محبت عشق کی جو مثال قائم کی. میری نظر میں دنیا کا مثالی رشتہ. . اور اسکے بعد وہ کڑا وقت جب امرتا کی ارتھی کو. راکھ بننا تھا. امروز رواج کے تحت اسے آگ بھی نہ دے سکا ..دور اک درخت کے نیچے موجود یہ سب رسومات دیکھتا رہا …سب کچھ جھیل کر بھی جو کوئ حق نہ جتاسکا ظالم دنیا کی رسومات کڑی. ..بالآخر. تہی داماں کس طرف نکل گیا دیوانہ بڑا کچھ جل کر بھی کچھ جلنے سے بچ رہا. ..ایک نقطہ نے خقد کو کھینچ کر کائنات جتنا بڑا کرکے اسے اوڑھ لیا ……..امرت نے کہا ..نیک ساعت ہوتی ہے ملن کی جب دو دل کہیں ایک ڈائ مینشن میں ایک فلو میں بہتے ہیں باقی بے مثل ڈائ مینشنز کا راگ مدہم پڑ جاتا ہے ..قوی اک ڈائمینشن کا,وجود دو فریقین کیلیے بیک وقت دوام اور خود کے غائب ہونے کا احساس دیتا ہے. …,,,,….زنجیر نہ کڑی پڑیو دیوانے کا پاؤں درمیاں ہے ……اس محبت کی ثلاثی میں ہر ایک نے بیک وقت محرومی .اداسی کسک چبھن کے ساتھ رحانی طور پر یکجائ کا سکھ بھوگا. ..اور شاید دیوانوں کی اس نگر کے باسیوں کی یہی دیوانگی فرزانگی کہلاتی ہے. .. ہم آپ تخیل کی اس سطح پر جاکر شاید سوچ بھی نہی سکتے جتنی بہادری سے ان سب نے دنیا کا سامنا. اپنے سچ. کے ساتھ کیا ا
ور سر اٹھا کر کس شان سے رخصت,ہوئے. ..جن میں سے,ایک,کردار ابھی زندہ ہے. محبت کی یادوں کے شبستاں میں کہیں روشنی کیئے …منتظر ہوگا ان لمحات کا جب وہ ابدی ملاقات تک اپنے عشق کو امر کردے ………سب کی کہانی ریل کی اس پٹری کی طرح پے جو ساتھ ساتھ تو چلتی رہی لیکن علیحدہ وجود کیساتھ ……ہر اک کا دکھ. اسکا سکھ باہم بھی یکجا بھی ….جز میں کل. او کل سے جز. بنتے توڑتے میں نے اس مثلث کو دیکھا. ….من تو شدم تو من شدی. …..امرتا واحد نقطہ تھیں جس پر سب زاویئے. آکر ملتے تھے. ہنستے تھے روتے,تھے. ساتھ رہتے بچھڑ جاتے ……عشق کی کلاسیکل داستانوں میں اک ٹرائکا ان کا بھی ہونا چاہییے …ہم ہوئت تم ہوئے کہ میر ہوئے. اسکی ثزلفوں کے سب اسیر ہوئے. ..اور ہم لوگ تو اس شہر دل کے باسی ہیں. جہاں اپنا ایماں تو وہی لوٹ سکے ہے جو بھی قد و گیسو لب و رخسار تمہارے رکھے. …….سو سارے موسم ان پیاروں کے نام. جن سے ہم نے پیار سیکھا. جنوں کی وحشت بھی. درد کا درماں بھی. ………..ثلاثی محبت کی ………محبت بھی وہ جو بقول کسے اک حادثہ جو رسیدی ٹکٹ کی پشت پر آجائے. …لیکن وہی رسیدی ٹکٹ کی پشت. بڑھکر کائنات کے دکھوں کو خود میں سمو کر. کچی رسید. کو. پکی رسید کر گئ. . …..

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*