کاکیشین حکایات اور رسول حمزہ توف

الاوٗ کے پاس بیٹھے ابو طالب نے قصہ شروع کیا ؛
کاکیشیا کی ایک ریاست میں شاعروں کی بہتات تھی ۔ یہ بستی بستی گھومتے اور اپنے گیت سناتے ، کسی کے ہاتھ میں ‘ پاندور ‘ ہوتا ، کسی کے ہاتھ میں ‘ طنبورہ ‘ ، کسی کے پاس ‘ چونگر ‘ ہوتا جبکہ کوئی اور ‘ زورنا ‘ بجاتا شعر پڑھتا جاتا ۔ ریاست کا والی بھی جب کبھی فارغ ہوتا تو وہ بھی ان کے نغمے سن کر خوش ہوتا ۔
ایک دن اس نے ایک گلوکار سے ایک ایسا گیت سنا جس میں اس کے زور و جبر ، ظلم وستم ، نا انصافیوں اور لالچی ہونے کی بات کی گئی تھی ۔ اسے سن کر والی ریاست کا تن بدن سلگ گیا ۔ اس نے حکم دیا کہ اس باغیانہ گیت لکھنے والے شاعر کو گرفتار کرکے اس کے دربار میں پیش کیا جائے ۔ اس کی کھوجیوں نے ریاست کا چپہ چپہ چھان مارا لیکن ہجو لکھنے والا یہ شاعر نہ مل سکا ۔ اس پر اس نے اپنے وزیروں اور خادموں کو حکم دیا کہ ریاست بھر میں جتنے بھی شاعر ہیں ان سب کو بندی بنا کر اس کے حضور پیش کیا جائے ۔ والی کے آدمی دیہاتوں ، پگڈنڈیوں، پہاڑی راستوں اور گھاٹیوں میں پھیل گئے اور انہوں نے ہر شاعر کو پکڑا اور ان سب کو لا کر زندان میں ڈال دیا ۔ والی ریاست ان گرفتار شاعروں کے پاس آیا اور حکم دیا؛
” تم سب مجھے باری باری اپنا ایک ایک گیت سناوٗ ۔ ”
سبھی شاعروں نے یکے بعد دیگرے اپنے گیت سنا ڈالے ۔ سبھی گیتوں میں والیِ ریاست ، اس کی وجاہت و حاضر دماغی ، نرم دلی اور اس کی عظمت وثروت کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے ۔ اس کی خوبصورت ازدواج و کنیزوں کی تعریف کی اور یہ تک کہا کہ روئے زمین پر اس جیسا عظیم اور منصف مزاج حاکم پیدا نہیں ہوا ۔ تین کے سوا باقی سارے گرفتار شاعر والی کی تعریف کرتے اور رہا کئے جاتے رہے۔ یہ تین وہ تھے جنہوں نے سلطان کی شان میں قصیدہ پڑھنے سے انکار کیا تھا ۔ انہیں کال کوٹھڑی میں ڈال دیا گیا اور وہ والی ریاست کے ذہن سے محو ہو گئے ۔
مہینوں بعد سلطان کو ان کا دوبارہ خیال آیا ۔ اس نے انہیں دربار میں بلایا اور بولا ؛
” مجھے یقین ہے کہ اب تم میں سے ہر ایک مجھے اپنی شاعری سنائے گا ۔ ”
یہ سنتے ہی ان میں سے ایک نے نواب کی شان میں قصیدہ پڑھنا شروع کردیا ۔ اس شاعر کو آزاد کردیا گیا لیکن باقی دونوں شاعروں کو ، جنہوں نے والی کی مداح سرائی نہ کی تھی ایک چوراہے پر لے جایا گیا جہاں دو دہکتے الاﺅ پہلے سے ہی ان کے منتظر تھے ۔
” تمہیں زندہ جلا دیا جائے گا ۔ ” ، نواب نے غصے میں کہا ، ” میں آخری بار میں تمہیں حکم دے رہا ہوں کہ مجھے اپنی شاعری کا ایک ایک ٹکڑا سنا دو ۔“
یہ سن کر ایک اور شاعر زندہ جلائے جانے سے خوفزدہ ہو گیا اور نواب کی مداح سرائی کرنے لگا ۔ اسے بھی چھوڑ دیا گیا ۔
” اسے کھمبے سے باندھ کر آگ لگا دو ۔ ” والی نے آخری شاعر کے بارے میں حکم دیا ۔
یہ حکم سنتے ہی آگ کے الاوٗ پر بالے سے بندھے اس شاعر نے والیِ ریاست کے ظلم وستم ، بے انصافی اور لالچ کی داستان والا وہی گیت شروع کردیا جو وہ پہلے بھی لوگوں کو سنا چکا تھا ۔
” اسے آگ سے فوراً باہر نکالو اور رہا کر دو ۔” ، نواب نے چیخ کر حکم دیا ، ” میں ایک ایسے شاعرسے محروم ہونا نہیں چاہتا جو میری سلطنت میں واحد سچی بات کرنے والا شخص ہے ۔ ”
ابوطالب نے یہ قصہ سنا کر ہنستے ہوئے یہ لقمہ بھی دیا ؛
” مجھے اس بات کا قطعاً یقین نہیں کہ کسی زمانے میں کوئی ایسا عقلمند اور نیک دل والی ریاست گزرا ہو گا ۔ ”
۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
‘ پاندور ‘ ، ‘ طنبورہ ‘ ، ‘ چونگر ‘ ، ‘ زورنا ‘ = کاکیشین مقامی ساز جو سارنگی اور وائلن سے ملتے جُلتے ہیں ۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*