تماشا گاہ دنیا میں

اڑیں
مہکی ہوئی زلفیں
جھکیں بے باک سی نظریں
بہکنے کو چلیں سانسیں
الجھنے کو کہیں باہیں
مگر
دل میں دبے یہ کاغذی جزبے
ضرورت سے بندھے بے نام دھوکے ہیں
نہ صبحیں سورجوں کے رنگ پہنے ہیں
نہ راتوں کے لئے چندا کے گہنے ہیں
نگاہوں نے گھڑی کی ٹکٹکی پر
بے محابہ رنگ کے انبار دیکھے ہیں
ہزاروں طرز کے بے ذائقہ ادوار چکھے ہیں
تماشا گاہ دنیا میں
نہ تم، تم ہو
نہ میں، میں ہوں
فقط مقروض بوسے،
آنکھ کے زخمی پپوٹے ہیں
نئے ادوار کے انساں
دکھانے کو تو قد آور
مگر اندر سے چھوٹے ہیں!

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*