نوائے جرس کی خاموشی!

جاتی سردیوں کی بارش۔۔۔شال تو نکھر گیا۔۔۔!۔
بارش؛ جو ہر پتے ، گُل، بوٹے کو نم کر کے فضا میں سبزے کی خوشبو ہر سُو بکھیر دیتی ہے۔۔۔ ایسے ہی وہ بہت سوں کے اندر کو بھی نم کر دیتی ہے۔ ٹِپ ٹِپ کرتی بارش کی وہ جھل تھل کہ کہیں پناہ نہ ملے۔۔۔ پیڑوں سے گرتے بارش کے موٹے موٹے قطرے۔۔۔ غریب کی چھت سے ژُوں کر کے مُہا بارش۔۔۔ جھونپڑی کی چھت کے نیچے کہیں بالٹی۔۔۔ تو کہیں دیگچی۔۔۔ ٹِپ ٹِپ کی آواز کے ساتھ برستی بارش ۔۔۔ سانسوں کی ہمواری میں ایک رکاوٹ۔۔۔!دل کی دھڑکن اپنی رفتار سے گھبرا کر ، ماحول سے خوف زدہ ہو کربے قابو ہو جائے اور ڈانواڈول ہو کرزمین کی طرف آ رہے۔۔۔!
پریشان ہو گئی۔۔۔ ایسا کیا ہوا ۔۔۔؟ یہ حالت کیوں ؟؟ بارش تو زندگی ہے۔۔۔آبادی ہے۔۔۔خوشی ہے۔ بے دلی کے ساتھ جو موبائیل اٹھایا تو میسج آیا تھا ؛ ’ محترمہ عاصمہ جہانگیر اب ہم میں نہ رہیں‘!۔
تو یہ وجہ تھی دل کی بے چینی کی۔۔۔!!۔
غریب کا، استحصال زدہ لوگوں کا، دکھی افراد کے گھر کا پر نالہ ٹوٹ گیا۔۔۔ استحصال زدہ لوگوں کی آواز، بے آواز ہوگئی۔۔۔ گونگوں کی آواز گھٹ کر رہ گئی۔۔۔!۔
ضیاء الحق کی آمریت کی شبِ دیجور ہو یا۔۔۔ مشرف کا ظلم کدہ ۔۔۔ حقوقِ اقلیت ہوں یا اسلام کے نام پر جاہلیت کی تمثیل کیخلاف آواز۔۔۔ عدالتوں کی بحالی ہو یا۔۔۔بھٹہ مزدوروں کے حقوق کے لئے آواز بلند ہو ۔۔۔بلوچستان کی سیاسی جدوجہد ہو یا پھر دوسرے محکوم اقوام کی جدوجہد، عاصمہ جہانگیر اپنی ضمیر کی آواز کے ساتھ ہم آواز ہو کر ان کی جدوجہد کا حصہ رہیں۔ قیدی بچوں کے حقوق پربھی کام انھوں نے کیا ۔۔۔عورتوں اور بچیوں پر جنسی مظالم پر قانونی کاروائی کر کے انھیں ظلم کے چُنگل سے آزاد کرنے والی بھی عاصمہ جہانگیر ہی تھیں ۔وہ تو کہتی تھیں کہ طالبان کو حقوق نہ ملیں تو میں اس کے لئے بھی کھڑی ہو جاؤنگی۔ وہ انسان کے لئے، انسانیت کے لئے لڑتی تھیں تو پھر اس میں منافقت نہیں کرتی تھیں۔
عورتوں کے حقوق کا علَم اٹھانے والی ، عاصمہ جہانگیر بہادری، ایمانداری، سچائی کا علَم دوسروں کو سونپ کر راہِ عدم کو چلیں۔۔۔!۔
ہم بلوچستانی تو ان کے قرض دار۔۔۔جو ہمارے دکھ میں ہماری ساتھی اور شریک تھیں۔۔۔جو کہتی تھیں کہ بلوچستان ہماری کالونی نہیں بلکہ۔۔۔ہمارے ساتھ ہے۔۔۔!جو کہتی تھیں کیوں بلوچستان نہ چیخے کہ گیس اور تیل تو ہم لیں لیکن رائیلٹی پنجاب اور سندھ سے کم دیں۔
ہم تو آپ کے قرض کے جال میں جکڑے رہ گئے عاصمہ جہانگیر۔۔۔!۔
وقت کی مُٹھی میں جمع کئے گئے چند جگنو، جو محکوموں ، مظلوموں کا کُل اثاثہ ہے، ایسے میں اک جگنو جو یوں اُڑ جائے تو ہم جیسے لوگ تو بے اماں ہی رہ جائیں۔۔۔!
میں یہ بتانا ضروری نہیں سمجھتی کہ وہ کتنی تعلیم یافتہ تھیں۔۔۔ یا وہ۔۔۔کہاں کہاں سے ڈگری یافتہ تھیں کہ ہمارے ارد گرد ان یافتوں کے لاؤ لشکر کی دوڑ تو نامعلوم منزل کی طرف رواں دواں ہے۔۔۔ عاصمہ جہانگیر تو نا معلوم منزل کی مسافر ہر گز نہ تھیں۔۔۔ وہ انسانیت کے قافلے کی، عورتوں کے قافلے کی ایک مضبوط مسافر تھیں۔۔۔ کہ ان کے قافلے کی نوائے جرس سے تومحکوم و مظلوم طبقہ سمت پاتا تھا۔۔۔بالکل ویسے۔۔۔کہ جس طرح گئے وقتوں میں گُم گشتہ سمتوں کا تعین ، مسافر، ستاروں کو دیکھ کر کیا کرتے تھے۔۔۔کہ ایسا ہی اک روشن ستارا تھیں عاصمہ جہانگیر۔۔۔ کمزور آواز کے ڈھانچے میں محبتوں کے گارے سے گُندھی، امید کی بنیادی اینٹ تھیں وہ۔۔۔ جو توازن دیئے ہوئے ہوتا ہے۔ قراۃالعین طاہرہ، گل بی بی کی جدو جہد کا تسلسل تھیں عاصمہ جہانگیر۔۔۔!۔
کیسے مان لوں کہ عاصمہ جہانگیر اب نہیں رہیں۔۔۔! سمو راج کے لیے تو وہ Source of inspiration تھیں ، ہیں اور رہیں گی۔۔۔! کہ جنھوں نے عورت کواس کی بلند اور مضبوط آواز کی پہچان کروائی۔
محبتوں بھرے ٹھنڈے آنسوؤں کی بارش قبول کریں عاصمہ جہانگیر۔۔۔ کہ ہمارے دلوں ک اتھاہ گہرایوں میں آپ ہمیشہ زندہ رہیں گی۔۔!

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*