کتاب : وفا کا تذکرہ

مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری

صفحا ت :160

قیمت : 350 روپے

مبصر : عابدہ رحمان

ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کی کتا ب ”وفا کا تذکرہ“ پڑھنا شروع کی ۔جوں جوں آگے پڑھتی گئی تو مجھ پر واضح ہوتا چلا گیا کہ انسانوں کی سوچ اور فکر میں مشترک ایسا کچھ ہوتا ہے کہ ان کی ایک دوسرے کے ساتھ وابستگی ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب اور ان تمام شخصیات میں محبت، انسان سے محبت ، انسانیت سے محبت،ظلم و استحصال کی مخالفت، فضول رسم و رواج اور آمریت کی مخالفت، سچ اور ایمانداری کے لیے لڑنا جیسی مشترک خصوصیات تھیں ۔تب ہی یہ سب شخصیات اور ان کی فکر ڈاکٹر صاحب کی ضبطِ تحریر میں آئے اور اس کتاب کی زینت بنے۔

ڈاکٹر صاحب جو وفا کا علَم اٹھائے مسلسل لکھتے جا رہے ہیں ، خوب صورت ، پُر معنی اور باوزن الفاظ کا ایک ایسا ذخیرہ رکھتے ہیں اپنے ذہن کی لائبریری میں کہ یوں لگتا ہے کہ اس نے الفاظ اس لائبریری کے شیلف میں سجائے رکھے ہیں اور کوئی بھی شاہکار لکھتے ہوئے ضرورت کے مطابق یہ الفاظ بڑ ے آرام سے بلا تردد چنتے رہتے ہیں اور اپنے شاہکار میں فِٹ کرتے چلے جاتے ہیں۔ ثبینہ رفعت: اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے قاری کو چرچ کے تعفن زدہ بند ماحول میں بسنے والی ایک ایسی آزاد روح سے متعارف کرایا کہ جسے پڑھ کر قاری نے بھی اپنی روح میں آزادی محسوس کی اور اس نے لمبی لمبی سانسیں کھینچیں۔

چرچ جس نے عورت کے معاملے میں وہی رویہ برقرار رکھا جو دنیا کے باقی عقائد میں پورے معاشرے میں رائج ہیں۔ وہی اصول ، وہی امتیازات محبت رکھنے والے دل کی مالکہ ثبینہ رفعت کے معاملے میں بھی برقرار رکھا لیکن روح کے ساتھ جبر کہاں ممکن ہے۔ تمھارے ماتھے پرروشنی کی لکیر ہےسنو لوگوں نے مجھے پیغمبرکہہ دیا ہے ان کوکیا معلوم کہ میں تم سے مل کر آئی ہوں ڈاکٹر صاحب نے ثبینہ کی شاعری کے بارے میں اتنا خوب صورت لکھا ہے کہ بس! ان کے الفاظ اور ثبینہ کی شاعری نے مل کر کوئٹہ کی برف باری اور کافی کا سا امتزاج پیدا کر لیا۔ گھونٹ گھونٹ بھرتی رہی اور مزہ لیتی رہی اس مضمون کا۔

ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے،”اس کی بہت ہی وسیع معنوں والی نظم ’سہار‘ تو محض چھ لفظوں کے کوزے میں بند ہے۔ ایسا اختصار کہ وصلِ یار کا دورانیہ لگے، گویا محبوبہ کے گال پر بوسے سے اپنا دستخط ثبت کر کے عاشق نے ساری زندگانی کے اسرار بیان کیے ہوں۔ بہت چھوٹی بات جس کی طوالت کے ادراک کے لیے اٹھارہ ہزار دو سو پچاس دن چاہئیں۔ وہ بات مشکل نہیں کرتی سادہ عام فہم اورہضم ہونے والی بات ہے۔“

بس یہی کہوںگی کہ آپ خود پڑھیں کہ ثبینہ کی شاعری کتنی خوب صورت ہے اورڈاکٹر صاحب نے ان کی شاعری کے بارے میں کتنا زبردست لکھا ہے۔ ایک چھوٹی سی کتاب کی دیوانی …. فہمیدہ ریاض: اس مضمون میں بابا نے ایک انقلابی، پُر امید ، معاشرے کے جبر و استحصال سے ٹکرا جانے والی مضبوط شاعرہ فہمیدہ ریاض کی شاعری اور شخصیت کا احاطہ بھرپور طریقے سے کیا ہے۔

ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کہتے ہیں کہ،”عورت صنفِ نازک ہے“ کی فہمیدہ نے نفی کر دی اور بتایا کہ عورت محنت مشقت کرنے والی، محبت سے آشنا، باشعوراور مکمل انسان ہے۔ غلط رسم ورواج ، ضیا دور میں عورت کوپردے میں لپیٹے رکھنے کی سوچ سے بھڑ جانے والی شاعرہ کے بارے میں مری صاحب لکھتے ہیں کہ:

[su_quote]اس نے اپنے قارئین کو عورت کی لمبی رانوں سے اوپر، پیچیدہ کوکھ سے بھی اوپر اور ابھرے پستانوں سے بھی اوپر عورت کا سر دکھایا۔ سر کے اندر دماغ، دماغ کا شعور، شعور کی بلندی دکھا دی۔ اس نے دکھایا کہ عورت کی روح لوہا ہے، اس کا نطق گویا ہے، اس کی انگلیوں میں صناعی ہے، اس کے ولولوں میں بے باکی ہے، وہ عشق آشنا، وصل شناسا، ایک مکمل انسان ہے[/su_quote]

ایک بہت ہی خوب صورت مضمون ہے ڈاکٹر صاحب کا۔ بے کل شہر میں شانت آتما…. فاطمہ حسن: فاطمہ حسن کے بارے میں مری صاحب نے اپنے مضمون میں ان کو ایک بڑا انسان، مہمان نواز، مدد کرنے والی اور دوست خاتون کہا۔ محبت ان کی شاعری کا اصل موضوع ہے اور محبت سے بڑھ کر اور کیا مضمون ہو سکتا ہے۔ محبت کے علاوہ ’عورت‘ ان کی شاعری کا موضوع ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے اس مضمون میں فاطمہ حسن کی شاعری سے زیادہ ان کی شخصیت پر بات کی ہے۔ ایک نظم کا مزہ لیجیے؛روتی ہوئی اک لڑکیاں اور چاروں جانب کتے دوڑ لگاتے، غراتے رالیں ٹپکاتے ٹوٹ پڑے اس لڑکی پرجس کو راتب کی مانند ڈال دیا تھا ان لوگوں نےجوخود کتے تھے بھیڑ پال بزدار…. اللہ بخش: ایک قبائلی نیم سیاسی، عشق و انقلاب کے اس شاعر کے بارے میں ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب نے بہت ہی خوب صورت اور ہلکے پھلکے انداز میں لکھا ہے۔ کسی اکتاہٹ اور بوریت کا احساس ہوئے بنا ہی مضمون ختم ہو جاتا ہے اور پتہ بھی نہیں چلتا۔

ان کی دو کتابوں” ہشکیں رک سوز بنت“ اور ” ہمیں عشق لکھیں“ کا حوالہ بھی دیا ہے لیکن نمونے کے طور پر کوئی ایک نظم یا غزل بھی مضمون کا حصہ نہیں بنی۔ کوکو، عالیہ اسما: کتاب کی ابتدا بابا نے دراصل اس شخصیت سے کی۔ عالیہ اسما جو عبدالعلی صاحب کی بیٹی تھیں اور کوکو کے نام سے انھیں پکارا جاتا تھا۔ ان کا تعلق خانوزئی سے تھا۔ بابا نے بتایا کہ دھنک رنگ کے عنوان سے وہ سنگت میں لکھتی بھی تھیں۔ ایک سادہ سا مضمون ہے ۔ نابغہ روزگار، مشتاق احمد یوسفی: ایک بہت ہی خوش گفتار شخصیت اور شگفتہ لکھنے والے کے بارے میں ایک شگفتہ سی تحریر، جن کے مزاح کے ہر لفظ کے پردے میں ایک بہت بڑی حقیقت بیان ہوتی ہے، جسے پڑھ کر سامع لوٹ پوٹ تو ہو ہی جاتا ہے لیکن ساتھ ایک سوچ بھی اس کے ذہن میں چھوڑ جاتا ہے۔ مضمون یوسفی صاحب کی کتابوں چراغ تلے، زرگزشت اور خاکم بدہن کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔

یک نفری فوج کا سپہ سالار، فخر زمان: یہ مضمون پڑھنے سے پہلے میں فخر زمان کے بارے میں کچھ خاص نہیں جانتی تھی لیکن یہ مضمون پڑھ کر پتہ چلا کہ کہ وہ نچلے طبقات کے بارے میں لکھتے ہیں۔ دو قومی نظریے سے ہٹ کر بات کرتے ہیں۔ اس لیے ان کی تحریریں ضبط ہو جاتی ہیں۔ بابا نے بتایا کہ وہ کمزوروں، غریبوں اور مجبوروں کی نجات کی بات کرتے ہیں۔ایک اور بات جو ان کے بارے میں مجھے اس مضمون سے پتہ چلی کہ وہ بڑے بڑے بزرگوں کو ان کی تعلیمات سمیت پیش کرتے ہیں، ان کی تعلیمات کا اصل مغز نکال کر صرف کھوکھلے نام ہی جپنے کی ترغیب نہیں دیتے۔ تیرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا…. فراز: ایک اور بہت اچھے شاعر احمد فراز کے بارے میں بابا کا ایک بہت اچھا مضمون۔

[su_quote]انھوں نے لکھا ہے کہ فراز عشق و محبت کا شاعر ہے اور خاص بات یہ کہ اس نے فرشتوں کی محبت کو بیان نہیں کیا۔ وہ انسان تھا اور اس زمیں پر رہتے ہوئے زمینی محبت ہی بیان کی، انسان سے انسان کی محبت۔ کوئی بھی سچا شاعر اور ادیب اپنے ارد گرد کے حالات سے بچ نہیں سکتا تو بس فراز بھی آمریت سے بچ نہیں سکا اور وہ احساس اور وہ درد ان کی شاعری میں نظر آیا اور تب ہی وطن بدری ان کے حصے میں بھی آئی۔ محاصرہ اور پیشہ ور قاتلو ان کی ایسی ہی شاعری کی مثالیں ہیں۔[/su_quote]

فطرت کے مقاصد کا نگہبان…. وحید زہیر: ایک شاندار لکھاری، بہت اچھے انسان کے بارے میں بابا کا ایک زبردست مضمون ہے۔ بابا کے بقول کہ وحید صاحب فیوڈل ازم سے بھڑ جانے والا باغی ہے، کیوں کہ وہ ایک سچاعاشق ہے، محبت کرنے والا ہے اور محبت ہی تو سب سے بڑی بغاوت ہے۔ مضمون میں ہے کہ وحید صاحب نے ایک عام غریب اور محنت کش کے گھر میں جنم لیا لہٰذا وہ عام انسان کے درد سے بخوبی واقف ہے۔ افغان انقلاب سے وجود میں آنے والے ادب سے متاثراور بھرپور فائدہ لینے والے اور بابا عبداللہ جان کی شاگردی میں رہنے والے اس انسان نے ترقی پسند ادب تخلیق کیا۔

عورتوں کی برابری، ترقی اور تعلیم اور ملازمت، عورتوں کا گھریلو تشدد اور سیاہ کاری ان کے افسانوں کا عنوان بنے۔ بابا کے لکھے گئے اس مضمون کے چند خوب صورت فقروں سے لطف لیجیے؛ ” عشق کے زہر کا کوئی تریاق نہیں ۔ عشق کی دوا اس کا بڑھتے جانا ہی ہے، پہلو پہلو بڑھتا جائے، لمحہ لمحہ مہلک ہوتا جائے۔ بنی آدم ہے تو دل ہے، دل ہے تو عشق ہے، عشق ہے تو زہیر ہے اور زہیر ہے تو وحید ہے…. اس لیے وحید کے دوستو! اس کے زہیر کو مشک مشک پلاتے رہو، سلنڈر سلنڈر آکسیجن سنگھاتے رہو…. وحید یونہی مست نغمے سناتا رہے گا۔“

ایک عالم شخص…. افتخار عارف: جنھیں میں صرف ٹی وی اینکر کے طور پر ہی جانتی تھی یا پھر کسوٹی پروگرام میں ہی دیکھا۔ لیکن با با نے اپنے مضمون میں بتایا کہ وہ ایک زبردست ادیب ہیں اور یہ کہ وہ بی بی سی سے بھی وابستہ رہے۔ فرقہ پرستی ان کی شخصیت میں بالکل نہیں۔ ’ نیا زمانہ نئے ابو ذر کا منتظر ہے‘، ایک امید کا استعارہ ہے۔ دانش سے معانقہ…. عطا شاد: ”یہ وطن یک رنگی و یکسانیت کے صحرا میں کبھی نہیں بھٹکے گا۔ اس پر قہر کا آسمان کبھی نہیں گرے گا کہ اسے شاعری کی صورت ولی اللہ بچائے رکھیں گے۔ اس کی پیٹھ تمھاری کرامت والی شاعری نے تھپکی ہے۔“ یہ خوب صورت الفاظ ہیں ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کے جو انھوں نے بلوچستان کا فخر، عطا شاد کے لیے لکھے ہیں جن کی خوب صورت شاعری کے سُر سدا وطن کی وادیوں میں گونجتے رہیں گے۔ اندھی تاریکی کے جگنو ، عطا شاد کے لیے اتنا خوب صورت مضمون ان کا حق ہے۔

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ،” کیا کیا الفاظ ہیں جو اس کی چاکری کرنے دستہ بستہ قطار اندر قطار ایستادہ ہیں۔ اس کی شاعری نند لال کی گوپیوں میں سب سے مہا گوپی ہے۔ حسین و جمیل گوپیاں، ہر ایک ادا دکھا دکھا کر، ناز کر کے، لچک لچک کر، معدہ جلے عطا کے بسترِ سخن پہ سجنے کو تیار۔“ بکریاں مجھے اچھی لگتی ہیں…. ڈاکٹر علی دوست: اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے ڈاکٹر علی دوست صاحب کے بارے میں مختصراً بتایا کہ وہ ایک بہت اچھے ڈرامہ نگار، کمپیئر اور کالم نگار ہیں ۔ ان کی اصل پہچان ان کے کالم سے ہی ہوئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے بلوچی شاعری بھی کی ہے۔ گدا …. بمقابلہ عزیز بگٹی: کتاب کا ایک اور خوبصورت مضمون ! ڈاکٹر صاحب نے عزیز بگٹی کے تعارف میں اس قدرمزے کا لکھا کہ وہ عزیز بگٹی کا کیا خود ڈاکٹر صاحب کا مضمون بن گیا۔ کہتے ہیں کہ عزیز بگٹی بہت اہم کتابوں جیسے، نوذورغام، تاریخِ بلوچستان،شخصیات کے آئینے میں، بلوچستان سیاسی کلچر اور قبائلی نظام، بلوچستان، ادب ، ثقافت اور سماج کے مصنف ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ ،”عزیز بگٹی گو کہ آدھا، مگر بڑی بہادری سے سچ کہتا ہے۔ بہت پاکیزگی اور حسن کے ساتھ، صاف و شفاف آسمان کی طرح….۔“ علامہ، عبدالعلی اخونزادہ: اپنے اس مختصر سے مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ۰۷۸۱ میں خانوزئی میں پیدا ہونے والے علامہ صاحب نے شاعری بھی کی اور طب کے شعبے میں بھی کام کیا۔ سامراج دشمن تھے اور ترقی پسند سوچ رکھتے تھے۔ جعلی پیر، غلط رسم و رواج کے خلاف تھے۔

ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ بلوچستان کی تعلیمی ترقی اور سڑکوں اور پٹڑیوں کا جال بچھانے کی سخت حمایت کی۔ کتاب کا مصنف، طاہر محمد خان: ڈاکٹر صاحب نے اس مضمون میں لکھا ہے کہ طاہر نے ایک کتاب لکھی،’بلوچستان قومی سیاست کا ارتقااور صوبائی خود مختاری‘ جس میں بلوچستان کے بارے میں سیاسی مضامین لکھے گئے ہیں ۔بقول ڈاکٹر صاحب کے کہ ،” طاہر محمد خان اپنی تحریروں میںدرست طور پر سرداری نظام کے احیائے نو کو انگریز کی کارستانی قرار دیتا ہے جس نے اپنے سامراجی مفادات کی خاطر نہ صرف پہلے سے موجود سرداری نظام کو اہمیت دی بلکہ وہ تو اس کے اختیارات میں اضافہ کرتا رہا۔ اس نے بتدریج سردار کو اتنا با اختیار بنا دیا کہ قبیلے کی نکیل اس کی ناک میں رہتی ہے اور کوئی بھی اس کی مرضی اور منشا کے بغیر حرکت نہیں کر سکتا۔“

ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب لکھتے ہیں کہ طاہر محمد خان ون یونٹ کے خلاف تھے اور بابا بزنجو کے اس نعرے میں ان کے ساتھ تھے کہ ”ون یونٹ توڑ دو، بلوچوں کے حقوق بحال کرو۔“ بحث کا عادی…. اکرام احمد: ان شخصیت سے تعارف میرے لیے بالکل نیا تھا۔ مری صاحب کہتے ہیں کہ اکرام بہت طویل بحثیں کیا کرتا تھا اور بے تکان وہ ایک موضوع پر گھنٹوں بول سکتا تھا۔وہ ایک انقلابی انسان تھا۔ متحرک ورکر…. سائن غلام قادر: یہ وہ شخص تھا جس کے ساتھ مل کر ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب ضیا الحق کے خوف ناک دور میں رنگ اور برش لے کردیواروں پر” مارشل لا مردہ باد“،”دنیا کے مزدورو ایک ہو جاﺅ“ لکھتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ اس نے بہت نظریاتی ساتھی بنائے۔ ہسپتالوں میں مرد و خواتین نرس کامریڈ، خاکروبوں کی یونین بنائی۔ مارکس کی فکر گفتگو کے ذریعے اور اخبارات پڑھ پڑھ کر اقلیتوں کو پہنچاتا رہا۔

سنجیدہ انقلابی…. ڈاکٹر سعید مستوئی: ڈاکٹر شاہ محمد مری لکھتے ہیں کہ ،” سنگت سعید ایک غیر معمولی انسان تھا۔ وہ اپنے عہد کا شورش تھا۔“ وہ ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ ،” ڈاکٹر سعید مستوئی لکھتا بھی تھا۔ کچھ کچھ ادبی چاشنی رکھنے والے ان مضامین نے ڈھلمل درمیانہ طبقے کو ہمیشہ استقامت کی راہ دکھائی تھی۔“ انھوں نے سندھی سے ترجمے بھی کیے اور شاعری بھی۔

زہر قطرہ قطرہ…. ڈاکٹر امیر الدین: ڈاکٹر مری نے ایک خوب صورت مضمون اپنے بہت قریبی دوست امیر الدین صاحب کے بارے میں لکھا ہے۔ ان کی تحریر سے ان کے لیے بے تحاشا محبت عیاں ہے۔ ” ڈاکٹر امیر الدین عالمگیر سچائی کے قیام کا بڑا کام کرتا تھا، مسیحی اقلیت کو بم مارنے والوں کے خلاف ڈٹ جانا، اغوائیوں کو اغوا گر قرار دینا، جیل میں پڑے بے گناہ کو چھڑوانا، انسانی شرف و حقوق کی بحالی، پروگریسو رائٹرز فورم کی مضبوطی، عومی انقلابی پارٹی کی تنظیم کرنا، جمہوریت کے احیا کا کام، انسان دوستی کے نظریہ کے فروغ کا کام….اس کی پوری زندگی انہی عظیم آدرشوں کی تکمیل میں مصروف گزری“۔

یہ ہے مری صاحب کے مضمون کا ایک ٹکڑا۔ امیرالدین صاحب ساری زندگی پڑھاتے رہے اور بلوچستان میں علم کی روشنی پھیلاتے رہے۔ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ،” ہیلپرز سکول کا بچہ اپنی مخصوص تربیت کے حوالے سے دور سے پہچانا جاتا تھا۔بہت پراعتماد، سرگرم اور گھل مل جانے والا۔ بہت وسیع النظر، روشن خیال اور لبرل۔ یہی تھی امیرالدین کی تربیت۔“ اس کتاب میں جتنی بھی شخصیات شامل ہیںجن میں پانچ تو شعراہیں لیکن باقی بھی سب کے سب کسی نہ کسی طور لکھنے سے وابستہ رہے یا وابستہ ہیں ۔ہاں مگر یہ طے ہے کہ یہ سب شخصیات انقلابی سوچ کی حامل ہیں، جنھوں نے انسانیت کی خدمت کی اور کر رہے ہیں اور ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب نے ان سب کو یاد رکھا اور بہت خوب صورت انداز میں ان پہ لکھا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*