آذربائیجان اور آرمینیا کی جنگ

آذربائیجان اور آرمینیا مشہور کوہِ قاف یا قفقاز کے پہاڑی سلسلے سے متصل علاقے ہیں۔ ان علاقوں کو ماورائے قفقاز یا جنوبی قفقاز بھی کہا جاتا ہے۔ کوہ قاف کا پہاڑی سلسلہ یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع ہے۔ جو دو سمندروں یعنی بحرِ اسود (بلیک سی) اور بحرِ خزریا (کیسپیئن سی)(Black And Caspians Sea) کے درمیان واقع ہے۔

بحرِ اسود خود بحرِ روم کا ایک ذیلی سمندر ہے جو مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کے درمیان ہے۔ اسی طرح بحرِ خزریا کیسپیئن خود ایک سمندر نہیں بل کہ دنیا کی سب سے بڑی جھیل ہے۔ جو یورپ اور ایشیا کے درمیان واقع ہے۔ یہ اذربائیجان کے مشرقی ساحل پر واقع ہے، جب کہ اس کے مشرق میں وسطی ایشیا اور جنوب میں ایران ہے۔

اگر کوہِ قاف یا قفقاز کی بات کی جائے تو اس علاقے میں اذربائیجان اور آرمینیا کے علاوہ گروزیا یا جورجیا کے آزاد ممالک آباد ہیں جو 1991ء تک سوویت یونین کے صوبے کہلاتے تھے۔ کوہِ قاف کے شمال سے روس کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔

تاریخی طور پر یہاں زرتشت کے ماننے والے آباد تھے پھر یہاں مسیحی آبادیاں قائم ہوئیں اور آرمینیا اور جیورجیا اب بھی مسیحی ہیں جب کہ آذربائیجان میں اکثریت مسلمانوں کو ترکی النسل سمجھی جاتی ہیں اور ان کی زبانیں بھی ترکی زبان سے بہت ملتی جلتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اناطولیہ جس کے بڑے حصے پر اب ترکی قائم ہے وہاں کی ترک آبادی دراصل صدیوں پہلے وسطی ایشیا اور اذربائیجان کے علاقوں سے جا کر اناطولیہ میں آباد ہوئی تھی۔اسی لے وسطی ایشیا کی ریاستوں کو ترکستان بھی کہا جاتا تھا اور چین میں آباد مسلمان ایغور بھی خود کو ترکستانی کہتے ہیں۔

اس علاقے کو آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمانوں نے فتح کیا تھا اور اس کے بعد ، یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور بحرِ خزر کی مناسبت سے یہاں کے رہنے والوں کو خوارزم بھی کہا جاتا تھا بغیر خزر ایک قدیم قبیلے کا نام تھا جس کی جمع تھی، خوارزم جیسے خارج سے خوارج برصغیر سے اذربائیجان کے تعلق کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں کے ایک شہر شیروان کے بہت سے لوگ یہاں رہتے ہیں اور اپنے نام کے ساتھ شیروانی لگاتے ہیں۔

کسی زمانے میں آذربائیجان کا وسیع علاقہ ایران کے قاچار خاندان کے زیر تسلط تھا لیکن انیسویں صدی میں جب روسی سلطنت اس خطے میں اپنا اثر پھیلا رہی تھی تو کئی جنگوں میں شکست کے بعد قاچار شہنشاہ اس بات پر راضی ہو گئے تھے کہ شمالی اذربائیجان کا علاقہ روس کے حوالے کر دیا جائے، جب کہ جنوبی آذربائیجان ایران کے پاس رہا۔اس ایرانی آذربائیجان کے مشہور شہروں میں تبریز اور اردبیل قابل ذکر ہیں ۔

آذربائیجان اور آرمینیا کی جنگ
جن علاقوں پر اب آزاد اذربائیجان جمہوریہ قائم ہےوہاں 1917ء کے سوویت انقلاب تک روس کی سلطنت کا قبضہ تھا۔ جس کے بعد روسی شہنشاہیت ختم ہوئی تو روسی کمیونسٹ پارٹی کے زیر اثر مقامی کمیونسٹوں نے دارالحکومت باکو پر قبضہ کر لیا ، جب مغربی اذربائیجان کے بڑے شہر گنجہ پر ایک آذربائیجان جمہوری ری پبلک قائم کی گئی۔

یاد رہے کہ گنجہ وہی شہر ہے جہاں کے مشہور شاعر نظامی گنجوی ہیں جنہوں نے بارہویں صدی عیسوی میں بہت فارسی شاعری کی ان میں خمسہ ِ نظامی یا پنج گنج میں مخزن الاسرار، خسرو و شیریں، لیلیٰ مجنوں، اسکندر نامہ اور ہفت پیکر شامل ہیں۔ ان کے علاوہ اذربائیجان کے کے بڑے ناموں پر خاقان یا خاقانی بھی شامل ہیں۔

یاد رہے کہ انیسویں صدی میں روسی سلطنت نے آذربائیجان ، آرمینیا اور جارجیا کو ملا کر ایک صوبہ بنایا تھا۔ روس میں بادشاہت کے خاتمے کے بعد 1918ء میں ماورائے قفقاز جمہوری وفاقی ری پبلک بنائی گئی جو صرف ایک سال چلی اور سب سےپہلےجارجیا اور پھر آرمینیا اور آذربائیجان نے آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔ اسی دوران بالشویک کمیونسٹوں نے ماورائے قفقاز کمسیاری قائم کی، جو بعد میں سوویت سوشلسٹ ری پبلک بنا دی گئی جو 1922ء میں سوویت یونین تشکیل دینے والی چار ریاستوں میں سے ایک تھی، جب کہ دیگر تین سوویت روس، یوکرائن اور بیلا روس تھیں۔

اب ہم آتے ہیں آرمینیا کی طرف ۔مسیحی مذہب سے پہلے آرمینیا کے لوگ بھی زرتشت کے ماننے والے یا پارسی تھے لیکن301ء میں ایک مسیحی مبلغ گریگوری نے یہاں کے مقامی حکم ران کو مسیحی مذہب قبول کرنے پر راضی کر لیا۔ جس کے بعد آرمینیا دُنیا کا پہلا ملک یا ریاست بن گئی، جہاں سرکاری مذہب مسیحی قرار پایا۔ یاد رہے کہ ابھی روم میں بھی سرکاری مذاہب مسیحی نہیں تھا۔ جو تیس سال بعد رومی بادشاہ نے قائم کیا، اس کے تقریباً تین سو سال بعد غریبوں نے آرمینیا کو فتح کر لیا ،مگر آبادی کو جبراً مسلمان نہیں بنایا۔

آذربائیجان اور آرمینیا کی جنگ
پھر آرمینیا کھبر آزاد اور کھبر ایرانی اور ترکی قبضے میںآیا، جب تک کہ یہاں روسی بالادستی انیسویں صدی میں قائم ہوئی۔ مشرقی آرمینیا تین سو سال ایرانی صفوی خاندان کے زیر تسلط رہا اور پھر روس کے قبضے میں آگیا، جس نے 1830ء تک ایرانی یہاں سے نکال دیئے تھے۔ لیکن پھر آرمینیا کے دارالحکومت یروان میں بیسویں صدی کے شروع تک تقریباً آدھے مسلمان تھے، جو زیادہ تر آذری تھے۔

مغربی آرمینیا کے بڑے علاقے پر عثمانی ترکوں کا قبضہ تھا۔ مشرقی آرمینیا پر روسی قبضہ ہونے کے بعد بڑی تعداد میں مغربی آرمینیا کے مسیحی سلطنت عثمانیہ کے قبضے سے نکل کر روسی آرمینیا ہجرت کرنے لگے۔ اس طرح آرمینیا میں دوبارہ مسیحی اکثریت میںہو گئے۔ پہلی جنگ ِ عظیم کے دوران روس نے عثمانی ترکوں سے لڑتے ہوئے مغربی آرمینیا کے ترک علاقے میں مداخلت کی تو آرمینیا کے لوگ عثمانیہ ترکوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے جس کے جواب میں عثمانی ترکوں نے بڑی کارروائی کی جس کو آرمینیا کے لوگ قتل ِ عام قرار دیتے ہیں۔

مغربی آرمینیائی لوگوں پر ترکوں کا یہ تسلط سلطنت ِ عثمانیہ کے خاتمے تک جاری رہا، پھر سوویت یونین کے قیام کے بعد 1636ء تک آذربائی جان، آرمینیا اور جورجیا ایک صوبے کا حصہ رہے۔ 1936ء میں استالن نے نیا آئین بنایا تو یہ سب الگ ہوگئےاور سوویت یونین کے تین صوبے بن گئے۔

آذربائیجان میں سوویت اقتدار قائم کرنے میں کامریڈ کیروف کا اہم کردار تھا جو صرف پینتیس سال کی عمر میں 1921ء میں سوویت آذربائیجان کا سربراہ بنا اور پانچ سال اس عہدے پر فائز رہنے کے بعد استالن نے اسے لینن گراد کی کمیونسٹ پارٹی کا سربراہ بنا دیا تھا جہاں اسے 1934ء میں قتل کر دیا گیا جس کے بعد استالن نے پرانے پارٹی رہ نمائوں کا صفایا شروع کیا، جن پر کیروف کے قتل کا الزام لگایا گیا تھا۔

کیروف کے بعد آذربائیجان میں سوویت اقتدار مضبوط کرنے کا سہرا ایک اور کامریڈ جعفر باقروف کے سر ہے۔ جس نے1933ء سے 1953ء تک بیس سال سوویت آذربائیجان پر حکومت کی۔

جعفر باقروف استالن کا قریبی دوست اور وفادار تھا۔ استالن کی موت کے بعد خروشیف نے استالن کے ساتھ اس پر بھی ظلم و ستم کے الزام لگا کر مقدمہ چلایا اور اسے 1956ء میں موت کی سزا دی گئی۔ اس کے بعد اگلا بڑا نام ولی آخندوف کا ہے جو 1959ء سے 1969ء تک دس سال سوویت آذربائیجان کا سربراہ رہا، جس کے بعد حیدر علیوف کو سوویت آذربائیجان کا سربراہ بنایا گیا جو 1982ء تک تیرہ سال اس عہدے پر رہا۔

حیدر علیوف کا نام آذربائیجان کی پچھلی سو سالہ تاریخ میں اس لئے سب سے اہم ہے کہ وہ نہ صرف تیرہ سال سوویت آذربائیجان کا سربراہ رہا بلکہ سوویت رہنما بریژنیف کے بعد نئے رہ نما آندروپوف نے اسے مرکزی سوویت پولٹ بیورو میں حیدر علیوف کو مکمل رکن بنایا ۔ وہ پانچ سال 1982ء سے 1987ء تک سوویت یونین کے اوّل نائب وزیراعظم بھی رہے۔

آذربائیجان اور آرمینیا کی جنگ
حیدر علیوف کے ماسکو جانے کے بعد کامران باقروف سوویت آذربائیجان کے سربراہ بنے جو 1988ء تک اس عہدے پر رہے، اسی دوران آرمینیا کے ساتھ ناگورنو کاراباخ تنازع اُبھر کر سامنے آیا، جس پر نئے سوویت رہ نما گورباچوف نے 1988ء میں انہیں برطرف کرکے عبدالرحمان وزیروف کو سوویت آذربائیجان کا سربراہ بنایا۔ پاک سوویت تعلقات پر نظر رکھنے والوں کو یاد ہو گا کہ 1980ء کے عشرے میں وزیروف پاکستان میں سوویت یونین کے سفیر،دو سال سوویت آذربائیجان کے سربراہ رہے۔

اب ہم دوبارہ آتے ہیں آرمینیا کی طرف پچھلی سو سالہ تاریخ میں غالباً سب سے مشہور رہ نما تھے میکوبان جو نہ صرف اپنے علاقے میں سوویت اقتدار قائم کرنے میں آذربائیجان میں کیروف کی طرف صف ِ اوّل کے رہ نما تھے اور پھر مرکز یعنی ماسکو میں استالن کے قریبی ساتھی بھی تھے اور 1946ء کے بعد استالن کے نائب وزیراعظم بھی رہے۔

استالن کی موت کے بعد وہ مالینکوف کی حکومت میں مرکزی سوویت وزیر تجارت بھی رہے اور پھر خروشیف کے اوّل نائب وزیراعظم بھی۔ جب 1964ء میں خروشیف کو ہٹایا گیا تو اس وقت سوویت سربراہ مملکت یا سپریم سوویت کے سربراہ بریژنیف تھے اور خروشیف وزیراعظم اور پارٹی سیکرٹری جن کے خلاف بغاوت کرنے والے گروہ میں میکوبان بھی شامل تھے۔اس طرح 1964ء میں آرمینیا کے کامریڈ میکوبان پورے سوویت یونین کے نئے سربراہ ِ مملکت بن گئے اور بریژنیف پارٹی سیکرٹری اور کوسی گِن وزیراعظم، اس وقت میکوبان ستر سال کے تھے اور خروشیف کے ہم عمر تھے شاید اسی لئے صرف ایک سال بعد انہیں سوویت یونین کے سربراہ مملکت کے عہدے سے ہٹاکر پدگورنی کو نیا سربراہ بنا دیا گیا، اس طرح اب سوویت قیادت سیکرٹری بریژنیف، وزیراعظم کوسی گِن اور سربراہ مملکت پدگورنی کے ہاتھ میں آگئی جو سب خروشیف اور میکوبان سے آٹھ دس برس چھوٹے تھے اور بیسویں صدی کی پیداوار تھے۔ جس طرح سوویت سیاست میں یوکرائن کا سب سے بڑا نام پدگورنی، بیلا روس کا سب سے بڑا نام گرومیگو اور آذربائیجان کا سب سے بڑا نام حیدر علیوف تھا۔ اسی طرح آرمینیا کا سب سے بڑا نامیکوبان کا تھامگر ان کی سیاست 1960ء کے عشرے کے بعد ختم ہو گئی گوکہ 1978ء میں تراسی سال کی عمر میں مرے۔

آذربائیجان اور آرمینیا کی جنگ
ان کےبعد آرمینیا کی سیاست کا بڑا نام دیمیر چیان کا تھا، جو 1974ء سے 1988ء تک چودہ سال سوویت آرمینیا کے سربراہ رہے۔ ان ہی کے آخری دور میں ناگورنوکارا باخ کا مسئلہ شدت سے سامنے آیا اور سوویت آذربائیجان سے کشیدگی پہلے تو ناگورنو کاراباخ کا مطلب سمجھتے ہیں۔ روسی زبان میں کور کہتے ہیں ’‘پہاڑ‘‘ کو اور ناگورنو کا مطلب ہے ’’پہاڑ پر‘‘ کارا باخ ترکی زبان سے نکلا ہے ،جس میںکارا کا مطلب ہے ’’کالا‘‘ جیسے قراقرم میں قرا کا مطلب ہے کالا اور قرم کا مطلب ہے پہاڑ۔

اس ناگورنو کاراباخ یا قارا باغ کا مطلب ہے ’’پہاڑ پر کالا باغ‘‘ جس طرح پاکستان میں کالا باغ مختلف تنازعوں کا شکار رہا اسی طرح ناگورنو کاراباخ بھی مختلف مسائل کو جنم دیتا رہا ہے۔

اس مسئلے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ علاقہ آذربائیجان کے اندر ہے، مگر اس میں آرمینیائی لوگوں کی اکثریت ہے۔ سوویت آذربائیجان میں اس کو علاقائی خودمختاری حاصل تھی، مگر سوویت یونین کے آخری برسوں میں جب سوویت اقتدار کم زور ہونا شروع ہوا تو اس علاقے میں لسانی اور نسلی فساد ہونے لگے۔

ہوا یہ تھا کہ جب 1986ء کے بعد نئے سوویت رہ نما گورباچوف نے پورے سوویت یونین میں سیاسی اور اظہار رائے کی آزاد باتیں شروع کیں تو نئی تحریکیں جنم لینے لگیں۔ ان میں ایک تحریک کاراباخ کی تھی جس کے ذریعے آرمینیائی لوگوں نے مطالبہ کیا کہ ان کے علاقے کو پچانوے فی صد آرمینیائی آبادی پر مشتمل ہونے کے باوجود سوویت آذربائیجان کوالگ کرکے سوویت آرمینیا کے ساتھ شامل کیا جائے۔

اس سلسلے میں پہلے بڑے مظاہرے آرمینیا کے دارالحکومت یروان (Yerewan) اور خود ناگورنو کاراباخ کے علاقے میں ہوئے۔ اس کے ردّعمل میں آذربائیجان کے مختلف علاقوں میں موجود آرمینیائی لوگوں پر حملے شروع ہو گئے۔ فروری اور مارچ 1988ء میں سوویت آذربائیجان کے کئی شہروں میں فسادات ہوئے خاص طور پر ایک شہر سُم گائت(Sumgait) میں جہاں درجنوں آرمینیائی گھر جلائے گئے اور لوگ قتل ہوئے۔

اس کے بعد بڑی تعداد میں آرمینیائی لوگ آذربائیجان چھوٹ کر آرمینیا منتقل ہونے لگے اور یہ ایک بڑا انخلاء تھا، جس میں کچھ لوگوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ حیدر علیوف جس کو گورباچوف نے ماسکو میں سوویت پولٹ بیورو سے نکال دیا تھا اس کے کچھ لوگوں نے یہ فسادات شروع کرائے۔اسی دوران آذربائیجان میں ایک پاپولر فرنٹ یا عوامی محاذ قائم ہو گیا، جس کے رہ نما عربی کے ایک عالم ابوالفیض ایلچی تھے۔ اب سوویت حکومت نے ناگورنو کاراباخ کو مرکزی عملداری میں لے لیا۔ 1989ء میں آرمینیا کی سپریم سوویت نے ناگورنو کاراباخ سے الحاق کا اعلان کیا۔

اس وقت ناگورنو کاراباخ کی آبادی بمشکل 2 لاکھ تھی جس میں ڈیڑھ لاکھ آرمینیا بولنے والے تھے، جب کہ باقی پچاس ہزار آذری، روسی اور کرد وغیرہ تھے۔ 1990ء کے آغاز میں سوویت آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں آرمینیا کے لوگوں پر بڑےحملے ہوئے جو ایک ہفتہ جاری رہے جس میں سیکڑوں آرمینیائی ہلاک و زخمی ہوئے۔ اب آرمینیا سے ہزاروں آذری اور آذربائیجان سے ہزاروں آرمینیائی بھاگنے لگے۔

شروع میں آذری قومی محاذ یا پاپولر فرنٹ سوویت دشمن نہیں تھا، مگر جلد ہی اس نے سوویت یونین سے آزادی کے مطالبے شروع کر دیئے۔ جب فسادات بڑھے تو گورباچوف اور سوویت وزیر دفاع یازوف نے سوویت آذربائیجان میں ہنگامی حالات کے نفاذ کا اعلان کیا اور پچیس ہزار سے زیادہ سوویت فوجیوں نے کارروائی کا آغاز کیا تاکہ پاپولر فرنٹ کو کچلا جا سکے۔ اب خود آذربائیجان کو کمیونسٹ پارٹی کے لوگ بھی پاپولر فرنٹ میں شامل ہونے لگے۔

وقتی طور پر تو حالات قابو میں کر لئے گئے، مگر اب سوویت ریاستیں آزادی کے مطالبے کرنے لگی تھیں۔ گورباچوف نے مارچ 1991ء میں ایک ریفرنڈم کرایا۔ جس کے ذریعے پورے سوویت یونین میں عوام سے رائے طلب کی گئی کہ کیا وہ سوویت یونین کو ایک ڈھیلی ڈھالی کنفیڈریشن میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ 75 فیصد سے زیادہ لوگوں نے سوویت یونین کو قائم رکھتے ہوئے اسے خودمختار ریاستوں کی کنفیڈریشن بنانے کے حق میں رائے دی۔ گورباچوف اس نئے معاہدے کا مسودہ تیار کرنے کی کوشش ہی کر رہے تھے کہ اگست 1991ء میں ماسکو میں ایک ناکام بغاوت ہو گئی۔

ہوا یہ کہ ماسکو میں سوویت کمیونسٹ پارٹی کے رہ نما جن میں سوویت یونین کے نائب صدر یانائیف، وزیر دفاع یازوف، وزیر داخلہ پُوگا، وزیراعظم پاولوف اور کے جی بی کے سربراہ کریوچکوف شامل تھے ،سمجھتے تھے کہ گورباچوف کا نیا معاہدہ عملی طور پر سوویت یونین کو ختم کر دے گا۔ اس لئے سوویت یونین کو بچانے کیلئے گورباچوف کو ہٹا کر پرانے سوویت یونین کی بحالی اور کمیونسٹ پارٹی کی بالادستی ضروری ہے۔

یہ بغاوت ناکام ہو گئی، مگر اس کے نتیجے میں تمام سوویت ریاستوں یا صوبوں نے آزادی کے اعلان شروع کر دیئے۔ اس دوران ریاستی کمیونسٹ پارٹیاں بھی اُتھل پتھل کا شکار رہیں۔ مثلاً چودہ سال سوویت آرمینیا کے سربراہ رہنے والے کامریڈ دیمیر چیان کو جب 1988ء میں گورباچوف نے برطرف کیا ۔ ان کے بعد تین سال میں چار سربراہ، تبدیل ہوئے۔ مثلاً سوویت آرمینیا کے آخری سربراہ جنہیں مئی 1991ء میں مقرر کیا گیا تھا صرف چار ماہ اپنے عہدے پر رہ سکے ،کیوںکہ انہوں نے خود آرمینیا کی کمیونسٹ پارٹی کو تحلیل کیا اور جمہوری پارٹی کی بنیاد رکھ کر خود اس کے سربراہ بن گئے تھے۔

اس طرح پورے سوویت یونین کی ریاستی کمیونسٹ پارٹیاں ایک ایک کرکے ختم ہوتی گئیں یا انہوں نے نئے نام رکھ لئے کیوں کہ خود روس میں نئے صدر یلتس نے کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی تھی۔ اس طرح ریاستی حکومتوں نے اپنی اپنی ریاستی افواج بھی تشکیل دیں، جو زیادہ تر پرانے مقامی فوجیوں پر مشتمل تھیں۔ چنانچہ آرمینیا اور آذربائیجان بھی دسمبر1991ء میں سوویت یونین کو تحلیل کے بعد آزاد ہو گئے۔

سوویت یونین کی رسمی تحلیل سے قبل ہی اکتوبر 1991ء میں آرمینیا میں پہلے آزاد صدارتی انتخابات منعقد ہوئے۔پیتروسیان صدر منتخب ہوئے جو 1988ء سے کاراباخ کمیٹی کے رہ نما چلے آرہے تھے۔ انہوں نے ہی ناگورنو کاراباخ کی پہلی جنگ کی قیادت کی جو 1994ء تک چلی تھی۔ اس دوران فروری1992ء میں ناگورنو کاراباخ کے اندر آباد آذری آبادی کا قتل عام کیا گیا جس میں خوجالی کے مقام پر سینکڑوں آذری لوگ جو نہتے اور عام شہری تھے، آرمینیا کے مسلح جنگجوئوں کے ہاتھوں مارے گئے۔

سوویت کے خاتمے کے صرف دو ماہ بعد یہ قتل عام ہوا تھا، جس کی قیادت خود آرمینیا کے صدر پیتروسیان کو تھی۔ 1993ء تک آرمینیا کی افواج نے آذربائیجان میں گھس کر ناگورنو کاراباخ کے اردگرد کے علاقے پر بھی قبضے کر لئے۔ 1994ء میں پہلی جنگ کے خاتمے تک آرمینیا نے ناگورنو کاراباخ پر قبضہ کرکے آرمینیا کے ساتھ اس کا زمینی راستہ کھول دیا تھا۔

اس طرح آذربائیجان کا تقریباً دس فی صد علاقہ آرمینیا کے قبضے میں آگیا اور لاکھوں آذری لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ یاد رہے کہ اس دوران سوویت دور کے آخری آذری سربراہ ایاز مطلّوب کو استعفیٰ دینا پڑا تھا اور آذربائیجان میں پاپولر فرنٹ کے ابوالفیض برسراقتدار آگئے تھے، مگر بالآخر 1993ء میں پرانے کمیونسٹ حیدر علیوف صدر منتخب ہو گئے تھے اور اُن ہی کے دور میں آذربائیجان ناگورنو کاراباخ سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا اور وہ کچھ نہیں کر سکے تھے۔ اس طرح 1994ء کے بعد سے یہ علاقہ آرمینیا کے پاس رہا۔

اس وقت آذربائیجان کے شکست کی ایک وجہ یہ تھی کہ 1992ء میں صدر منتخب ہونے والے ابوالفیض ایلچی بے نے تمام سوویت افواج کو آذربائیجان سے نکال دیا تھا۔ اس طرح بالٹک ریاستوں کے بعد آذربائیجان پہلی سابق سوویت ریاست تھی جہاں سے تمام سوویت افواج کا انخلاء کر دیا گیا، جب کہ آرمینیا بھی سابق سوویت افواج موجود تھیں۔ جنہوں نے آرمینیا کی مدد کی تھی دراصل وہ سوویت افواج اب روسی افواج تھیں جو آرمینیا کی مدد کر رہی تھیں۔

حیدر علیوف 1993ء سے 2003ء تک آذربائیجان کے صدر رہے ، اس دوران وہ آرمینیا سے مطالبہ کرتے رہے کہ وہ ناگورنو کاراباخ کا علاقہ کر دے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ 2003ء میں ان کی موت کے بعد ان کے صاحب زادے ایہام علیوف صدر بنے جو پچھلے سترہ برس سے آذربائیجان کے صدر ہیں۔ اس دوران وہ 2003ء ،2008،2013 اور 2018ء کے صدارتی انتخاب میں خود کو جتوا چکے ہیں۔ آخری انتخاب میں انہوں نے بھی80فیصد سے زائد ووٹ لینے کا اعلان کیا۔

اب 2020ءمیں یعنی ناگورنو کارا باخ پر آرمینیا کے قبضے کے 25 سال مکمل ہونے کے بعد ایک بار پھر لڑائی شروع ہوئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ روس آرمینیا کے ساتھ فوجی اتحاد کا حصہ ہے اور اس کا ایک فوجی اڈہ بھی آرمینیا میں ہے، جب کہ ترکی آذربائیجان کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس سے قبل 2016ء میں بھی جھڑپیں ہو چکی ہیں ۔

اب یہ کہنا مشکل ہے کہ حالیہ جنگ کس نے شروع کی، کیوں کہ دونوں ممالک ایک دوسرے پر حملوں کے آغاز کا الزام لگاتے رہے ہیں۔

یاد رہے کہ 1991ء میں جب آذربائیجان سوویت یونین سے آزاد ہوا تھا تو ترکی پہلا اور پاکستان دوسرا ملک تھا۔ جس نے اسے تسلیم کیا تھا۔

آذربائیجان کی آبادی تقریباً ایک کروڑ ہے۔ جن میں اکثریت مسلمان ہیں ، مگر ریاست سیکولر ہے یعنی اس کا ریاستی مذہب کوئی نہیں ہے۔ آذربائیجان تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔ اس کے مقابلے میں آرمینیا کی آبادی صرف تیس لاکھ ہے اور یہاں اکثریت مسیحی ہے۔

پچھلے تیس سال میں اس تنازع میں ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ اب تک ترکی کے آرمینیا کےساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔پچھلے تیس سال میں اتنا ضروری ہوا ہے کہ تیل سے آنے والی آمدنی کو استعمال کر کے آذربائیجان معاشی اور فوجی طور پر مضبوط ہوا ہے اور اب یہ وہ ملک نہیں ہے۔ جسے 1994ء تک آرمینیا نے بری طرح شکست دے دی تھی۔ اس وقت تک ناگورنو کاراباخ کے علاوہ اردگرد کے سات دیگر علاقے بھی آرمینیا کے قبضے میں ہیں ۔

اب صورت حال یہ ہےکہ اگر روس آرمینیا کی مدد نہ کرے تو آذربائیجان اپنے علاقے آزاد کرا سکتا ہے لیکن روس ایسا نہیں ہونے دے گا اور اگر ترکی نے آذربائیجان کی کھل کر فوجی مدد کی تو روس بھی کھل کر میدان میں اُتر آئے گا۔ جس سے یہ علاقہ مزید تباہی کا شکار ہو گا۔

اس وقت ناگورنو کاراباخ کا علاقہ آذربائیجان کے مجموعی رقبے کا دس فی صد ہے۔ لیکن اس کے علاوہ 20 فیصد مزید آذری علاقہ بھی آرمینیا کے قبضے میں ہے جو متنازع ہے اور جسے بین الاقوامی طور پر آرمینیا کا علاقہ تسلیم نہیں کیا جاتا مگر اس غیر قانونی قبضے کو ختم کرانے کے لئے بین الاقوامی برادری کچھ نہیں کر رہی۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*