حسد

”تمہیں کس چیز کی کمی ہے جو تم نے ایسا قدم اٹھایا۔ہماری شادی تیار ہے ماں باپ نے تمہیں ہر چیز دی ۔کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی ۔کیا ضرورت تھی جو گھر والوں نے پوری نہیں کی۔پیار خیال توجہ سب ملا تمہیں۔آج یہ دن دیکھایا تم نے؟“۔
اکرم نے زور دار طماچے کے ساتھ ہی منگنی کی انگوٹھی رابعہ کے منہ پر دے ماری۔وہ حیرت. میں ڈوبی صرف اتنا بول سکی ”کیا ہوا؟کیا کیا میں نے؟“۔
”رابعہ ملک شاموں کو لوگوں کے ہاں ٹھہرنے سے بہتر ہے گھر میں کوٹھا کھول لو“۔
”کیا بول رہے ہو؟ کیا کہہ رہے ہو؟ خدا کا خوف کھاﺅ تمہیںکس نے حق دیا ایسا گندا گھٹیا الزام لگانے کا۔نہ کرو شادی پر ایسا ظلم نہ ڈھاﺅ“۔
”رابعہ میرا دل چاہ رہا ہے تمہیں آگ لگا دوں“۔
”ہاں ہاں لگا دو آگ۔ جھوٹی محبت جو کرتے ہو۔ اب کوئی اور پسند آگیا تو مجھے ایسا الزام لگا کر رد کرنے سے بہتر ہے آگ ہی لگا دو“۔
”بس بس زیادہ فلمی ڈائیلاگ نہ بولو ۔بھاڑ میں جاﺅتم اور تمہاری محبت ۔“ اکرم دروازہ دھڑام سے مارتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا
رابعہ اس کے پیچھے بھاگی ”اکرم پلیز رکو۔“ پیچ صحن میں وہ اس کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔
دوسرے کمرے سے اماں ابا رابعہ کے چیخنے کی آواز سن کر باہر آ گئے
اماں قریب آئیں۔”کیا ہوا میری چندا؟۔کیوں چیخ رہی ہو؟“۔
”اماں اکرم کو روکیں پہلے ۔اماںاکرم کو روکیں پہلے۔“
دروازے سے باہر نکلتے اکرم کواماں آوازدےکر ”میرے لال ادھر آو“
اکرم کے چلتے قد م رک گئے۔اماں ہاتھ کے اشارے سے بلانے لگیں تو چار و نا چار پیچھے آنا پڑا۔
اکرم کو واپس مڑتے دیکھ را بعہ خود اٹھ کھڑی ہوئی۔
”کیاہوا؟“۔اماں پیار سے بولیں۔؟اباچپ چاپ یہ سب دیکھتے رہے۔
”اماں اسی سے پوچھیں؟۔ہماری ساری عزت خاک میں ملادی ۔پگڑی پاﺅں میں اچھال دی اس کم ظرف گھٹیا لڑ کی نے“۔
”اکرم! “ابا رعب سے بولے۔”جو منہ میں آ رہاہے بکے جارہے ہو ۔مجھ سفید سر والے بوڑھے کا تو لحاظ کر لو۔ یہ میری بیٹی ہے“۔
”بیٹی کہلانے کے لائق ہی نہیں ہے یہ“۔ ابا دو قدم آگے ہاتھ بڑھاتے ہوئے مارنے کے لیے آگے بڑھے تو اماں بیچ میں آگئیں۔”خداکے لیے اندر چلو آرام سے بیٹھ کر بات کرو“۔
سب خاموش سر جھکائے بیٹھے رہے۔
آخر اماں بولیں ”ہاں پتر بول“۔
”اماں کیابولوں ؟ اپنی لاڈلی سے پوچھیں“۔
اباسخت لہجے میں رابعہ کی طرف دیکھ کر بولے ”ہاں
ادھر دیکھو ،مجرم ہو جو سر جھکا رکھاہے؟“۔”ابا جو الزام لگایا ہے وہ مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی زندہ درگور کر رہا ہے“۔
”ہاے اللہ میری بچی کیا الزام؟“ ۔اماں سینے پہ ہاتھ مارتے ہوے دھاڑیں۔
”بولو اکرم۔ پنچایت لگ چکی ہے تم اپنا فیصلہ سناﺅ۔ میرے جرم گنواﺅ“۔
”مجرم کون ہے یہ فیصلہ اکرم کیسے کر سکتاہے ۔سنو تم میرا خون ہو۔ تمہارے پاکیزہ اور غیرت مند ہونے کے لیے مجھے کسی کی سند نہیں چاہیے“۔ ابا رعب دارآواز میں بولے۔
”سنو لڑکے ۔جرم سزا مجرم گناہ یہ چھوڑو سیدھی بات کرو“
اکرم کو ابا نے ایک ناگوار نگاہ سے دیکھا۔
”یہ راتوں کو شاموں کو مردوں کے ساتھ گزارتی ہے پیسہ لیتی ہے ان سے“۔
”بکواس بند کرو “۔ابا شدید غصے میں ایک دم اٹھے
”نکل جاﺅ میرے گھرسے دفعہ ہو جاﺅ“
اماں چلائیں ”ہاے میں مرگئی ۔کس نے کہا؟ ۔کون بولا۔تم نے دیکھا ؟“ایک سانس میں اماںبولیں۔
”میرا دوست عادل تین بار اسے لے گیا ہے۔ اسی نے بتایا پیسے بھی لیتی ہے یہ بھی بتایا“۔
”اچھا روز آتے ہو ہمارے گھر کب میںشام کو باہر گئی“ ۔رابعہ بولی۔
”مجھے کیا پتہ۔ جاتی ہو یہ معلوم ہے بس“ ۔
”الزام مت لگاﺅاپنی آنکھوں سے دیکھا ہے تو بتاﺅ“۔
”فون لگاﺅ اپنے دوست کو“۔ابا بولے۔
عادل نے کال رسیو کی سلام دعا کے بعد پوچھا تو وہی کہاجو اکرم پہلے سب کو بتا چکا تھا۔” پھر کب آئے گی؟“۔
”آج شام آ رہی ہے“۔
”اچھا میرا ٹائم بھی لے دے یار“۔
”ہاں ہاں فکر نہ کرو“۔
”بیٹھے رہو رات تک“۔
”جی ابا“۔
رات کو عادل کو کال کی تو آگے سے عادل بولا ”اتنا بے صبرا نہ بن۔ تیری بات کر لی ہے“۔
”کیا آئی ہوئی ہے“۔
”ہاں ہاں“۔
”دیکھ لیا؟ اب میں تمہارے سامنے ہوں ۔ وہاں بھی میں ہوں ؟“۔ اکرم چپ رہا۔
عادل کی کال آئی کل 7 بجے کا وقت طے ہوا۔ آ جانا اب عادل کے گھر روانہ ہوئے پر وہ لڑکی نہ آئی۔
”آج سے برقعہ نہیں پہنو گی اور ہاں اکرم۔عادل سے بات کرو۔ وہ اسے بلائے کسی بھی طرح ۔ہم نے اسے پکڑنا ہے جو میری بیٹی کا نام استعمال کر رہی ہے اور خود رنگ رلیاں منا رہی ہے۔ خدا غارت کرے ایسی عورت کو“ ۔اماں فٹ کوسنے دینے شروع ہو گئی۔
عادل سے بات ہوئی تمام صورت حال پر غور و فکر کے بعد اس لڑکی کو گھر سے باہر ملنے کے لیے بلانے پر اتفاق ہوا اور معاملات طے پا گئے ۔دو دن بعد مقررہ وقت پر سب اس پارک میں پہنچے جہاں عادل نے اُسے بلایا تھا ۔کچھ دیر میں چمک دھمک سے چیسٹر میںلپٹی ایک دبلی پتلی لڑکی عادل کے ساتھ آ بیٹھی۔
پانچ منٹ سب نے اس کے تسلی سے بیٹھنے کا انتظار کیا اور رابعہ سے مزید صبر نہ ہوا۔ سب سے آگے وہ بھاگ پڑی ۔پیچھے اماں ابا اکرم ۔اس کے سر پر پہنچتے ہی اس کے منہ کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہی اس کا نقاب کھینچا ۔اس لڑکی کو رابعہ کی اس آمد اور اچانک حملے کی نہ توقع تھی نہ اطلاع۔ اک دم نیچے گر پڑی اور اس کے بال رابعہ کے ہاتھ میں ۔جیسے اس نے منہ سیدھا کیا سب اک دم شششد رہ گئے۔یہ کیا ؟یہ تو رابعہ کی چچا زاد بہن تھی۔
ابا میاں نے آگے بڑھ کر ایک زور دار تھپر اس کے منہ پر دے مارا۔
”حرام خور“
ساتھ ہی رابعہ اسے دیوانوں کی طرح مارنے لگی۔ عادل اکرم اماں بیچ میں” گھر چلو یہاں یہ سب مناسب نہیں“۔
”کیوں مناسب نہیں ؟“اس نے کیا کیا تم نہیں جانتے؟ ۔اس کی بڑی پرواہ ہے تمہیں!“۔
سلمی رابعہ کی چچا زاد بہن مار کھا کر بھی ہنسنے لگی۔
”رابعہ ۔میں چاہتی تھی کہ اکرم میرا نہیں تو تمہارا بھی نہ بن سکے “۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*