میرے انکل جولز

ایک سفید داڑھی والے بوڑھے شخص نے ہم سے خیرات مانگی ۔میرے دوست جوزف ڈاورینچ نے اسے پانچ فرانکس دیے ۔ مجھے حیران ہوتے دیکھ کر اس نے کہا ،”اس بوڑھے غریب کو دیکھ کر مجھے ایک کہانی یاد آگئی ، جسے میں کبھی نہیں بھول سکتا ۔ تمھیں میں وہ کہانی سناتا ہوں ۔”
“میرے والدین کا تعلق لی ہاروو(Le Havre) سے تھا ۔ہم کوئی خاص خوش حال نہ تھے۔بمشکل گزارہ کرتے تھے ۔میرا باپ زندہ رہنے کے لیےکام کرتا ، دفتر سے بہت دیر سے گھر آتا ،پھر بھی آمدن بہت تھوڑی ہوتی ۔میری دو بہنیں تھیں۔
حالات کی تلخی سے سب سے زیادہ والدہ متاثر ہوتیں ، اور وہ عموماً خاوند سے بد کلامی کر جاتیں ۔غریب خاوند کا رد عمل ایسا ہوتا کہ میرا دل ٹوٹ جاتا ۔وہ کھلی ہتھیلی سے ما تھے کا وہ پسینہ پونچھنے کی کوشش کرتا جو ہوتا ہی نہیں تھا ۔لیکن منہ سے کچھ نہ بولتا ۔میں اسے بے بسی سے یہ اذیت برداشت کرتے دیکھتا ۔ہم کفایت شعاری سے خرچ کرتے ، کسی کے گھر کھانے پر نہ جاتے تا کہ ہمیں کسی کو اپنے گھر کھانے پر نہ بلانا پڑے ۔ہم خریداری کے وقت بچی کھچی اشیاء سستے داموں خریدتے ۔میری بہنیں اپنے لباس خود سیتیں ۔سستے ترین جوڑے کی قیمت پر بھی لمبی لمبی بحثیں کرتیں ۔ہمارا کھانا عموم”بیف ہر قسم کی چٹنی کے ساتھ اور گوشت کے شوربے پر مشتمل ہوتا ۔’اسے وہ اچھا کھانا قرار دیتے ۔لیکن میری خواہش ہوتی اس میں وقتاً فوقتاً تبدیلی آتی رہے ۔میری ماں جب کبھی کوئی بٹن ٹوٹ جاتا یا پاجامہ پھٹ جاتا تو خوب ہنگامہ کرتیں ۔
لیکن ہم ہر اتوار اپنے بہترین لباس پہن کر گودی تک ٹہلنے ضرور جاتے ۔میرے والد فراک کوٹ ،اونچی ٹوپی اور دستانے پہنتے ، میری سجی سنوری والدہ کے بازو میں بازو ڈالتے ، میری بہنیں جو پہلے ہی تیار کھڑی ہوتیں ، اور روانگی کے اشارے کی منتظر ہوتیں، لیکن آخری لمحے میں کوئی نہ کوئی والد کے کوٹ پر موجود دھبہ دیکھ لیتا ،اسے اسی وقت بینزین میں ڈوبے کپڑے سے صاف کیا جاتا ۔والد قمیض اور ٹوپی پہنے صفائی کے اس عمل کے ختم ہونے کا انتظار کرتے ۔میری والدہ عینکیں پہنتی،دستانے اتارتی تا کہ وہ خراب نہ ہو جائیں جلدی جلدی صفائی کا کام سرانجام دیتی ۔
پھر ہم سب پُرتکلف انداز میں روانہ ہوتے ۔میری بہنیں با نہوں میں بانہیں ڈالے سب سے آگے ہوتیں ۔وہ شادی کی عمر کو پہنچ چکی تھیں ، اس لیے انہیں گاؤں کے لوگوں کو دکھانا بھی مقصود ہوتا ۔میں والدہ کے بائیں طرف اور والد دائیں طرف ہوتے ۔ مجھے اپنے والدین کا شاہانہ رویہ ابھی تک یاد ہے جو وہ اتوار کی ان چہل قدمیوں میں اپناتے ۔چہرے پر سخت تاثرات سجا لیتے ، بدن بالکل سیدھے رکھتے ، ٹانگیں اکڑی ہوتیں ۔چال میں متانت ہوتی ، شاید کوئی اہم معاملہ ان کی ظاہری چال ڈھال پر منحصر ہو۔
ہر اتوار بڑے بڑے جہازوں کو دیکھ کر جو دور دراز اجنبی ممالک سے آتے میرے والد ایک ہی فقرہ دہراتے ۔”کتنی حیرانی کی بات ہو گی اگر جولز اسی جہاز پ پر ہو۔”
میرے باپ کا بھائی انکل جولز ہمارے خاندان کی تباہ حالی کے بعد آخری امید تھا ۔میں نے بچپن ہی سے ان کے بارے میں سُن رکھا تھا ۔ان کے بارے میں سوچ سوچ کے ایسے لگتا تھا کہ جونہی میں انہیں دیکھوں گا پہچان لوں گا ۔میں ان کے امریکہ جانے تک کی زندگی کی ہر تفصیل سے واقف تھا ۔اگرچہ وہ تفاصیل سرگوشیوں میں بیان کی جاتی تھیں ۔
یوں لگتا تھا جیسے انہوں نے بری زندگی گزاری یا یوں کہیں کہ انہوں نے رقم برباد کی جو ایک غریب خاندان کے حوالے سے بدترین جرم ہے ۔امیروں میں جو مست زندگی گزارے اسے لوگ مسکرا کر خوشحال کتا پکارتے ہیں ،نجو کرنی سو بھرنی لیکن غریبوں میں اس نوجوان کو جو والدین کو بلاوجہ اپنا سرمایہ برباد کرنے پر مجبور کرتا ہے بدمعاش ، نکما اور لفنگا کہتے ہیں ۔یہ تفریق بالکل درست ہے اگرچہ انسانی رویہ دونوں حالتوں میں ایک جیسا ہے ۔لیکن اچھے برے کا تعین نتائج سے کیا جاتا ہے ۔
الغرض جولز نے وہ وراثتی سرمایہ جس پر میرے والد انحصار کر رہے تھے اپنے حصے کی آخری دمڑی تک خرچ کر کے بہت کم کر دیا تھا ۔
اس وقت کے رواج کے مطابق وہ لی ہاروو سے امریکہ بھیج دیے گئے ۔وہاں پہنچ کر اس نے کوئی کاروبار شروع کردیا اور ہمیں لکھا کہ وہ کچھ رقم کمانے لگے ہیں اور بہت جلد جو نقصان میرے والد کو پہنچا ہے اس کا ازالہ کر دیں گے ۔اس خط سے سارا گھر خوش ہو گیا ۔اور انکل جولز جس کی کوئی وقعت نہیں تھی یکدم معزز ہوگیا ۔ایک ایسا شخص جسے معلوم ہے کہ اسے کیا کرنا ہے ایک اصلی ڈاورینچ ،قابل اعتماد اور امانت دار ۔
ایک جہاز کے کپتان نے ہمیں بتایا کہ اس نے کافی بڑی دوکان کرائے پر لے لی ہے اور اچھا کاروبار کر رہا ہے ۔دو سال بعد انکل کی طرف سے دوسرا خط موصول ہوا ، جس میں لکھا تھا ،”میرے پیارے فلپ ! میں یہ بتانے کے لئے یہ خط لکھ رہا ہو ں کہ میری صحت اچھی ہے کاروبار بھی بہت اچھا ہے میں کل جنوبی امریکہ ایک لمبے عرصے کے لیے روانہ ہو رہا ہوں ۔ہو سکتا ہے کئی سالوں تک آپ کو اپنے بارے میں مطلع نہ کر سکوں ، اگر میں نہ لکھ سکوں تو پریشان نہ ہونا ۔ایک دفعہ میں قسمت آزمائی میں کامیاب ہو جاؤن تو میں لی ہارووواپس آ جاؤں گا ۔مجھے امید ہے زیادہ دیر نہیں لگے گی ، اور ہم سب مل کر خوش رہیں گے ۔۔۔۔۔۔۔”
یہ خط خاندان کے لیے ناقابل تردید سچائی بن گیا۔ چھوٹے سے چھوٹے اشتعال پر اس کا حوالہ دیا جاتا ۔اور ہر خاص و عام کو دکھایا جاتا ۔
اگلے دس سال تک انکل جولز کی طرف سے کوئی خبر نہ آئی، لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا میرے والد کی امیدیں بڑھتی گئیں ۔ میری والدہ بھی یہ دہراتی سنائی دیتیں ،”جب جولز گھر آۓ گا تو ہمارے حالات مختلف ہوں گے ۔کوئی تو ہے جسے معلوم ہے کہ زندگی میں کیسے آگے بڑھتے ہیں ۔”
ہر اتوار کو جب کالے دخانی جہاز ہوا میں دھواں پھیلاتے افق پر نمودار ہوتے میرے والد اپنا پسندیدہ فقرہ دہراتے ،”کتنی حیرانی کی بات ہو گی اگر جولز اس جہاز پر ہو ۔”
اور ہم سب اسے رومال ہلاتے ،”او۔۔۔ادھر فلپ “ چلاتے ہوئے دیکھنے کی توقع کرنے لگتے ۔
اس کی یقینی واپسی کی بنیاد پر سینکڑوں ارادے باندھے گئے ۔انکل کی رقم سے گاؤں میں جگہ خرید کر انگوول کے قریب گھر بنانے کا فیصلہ بھی ہو گیا ۔میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ میرے والد نے جائیداد کی خریداری کی بات چیت بھی شروع کر دی ہو گی ۔
میری بڑی بہن اس وقت اٹھائیس سال کی تھی ، دوسری چھبیس سال کی ۔دونوں کی ابھی تک شادی نہیں ہو سکی تھی ۔یہ بات سب کی پریشانی کا باعث تھی ۔
آخر کار چھوٹی کے لئے ایک کلرک رشتہ آیا ۔وہ کوئی خاص خوشحال نہیں تھا لیکن مناسب تھا ۔مجھے پختہ یقین ہے کہ انکل کا خط اسے دکھا یا گیا ہو گا ۔جس سے اس نوجوان کی ہچکچاہٹ ختم ہو گئی اور اس نے ارادہ کرلیا ۔رشتہ طے ہوا اور فیصلہ ہوا کہ شادی کے بعد سارا خاندان سیرو تفریح کے لئے جرسی جائے گا ۔جرسی غرباء کے لئیے سستی تفریحی جگہ تھی ۔زیادہ دور نہیں تھی ۔بس چھوٹا سا بحری سفر اس غیر ملکی جگہ کے لئے ضروری تھا ۔یہ جزیرہ انگلینڈ کی عملداری میں تھا ۔کچھ گھنٹے کے سمندری سفر کے بعد ایک فرانسیسی غیر ملکی لوگوں کو جاننے ،ان کے رسم و رواج دیکھنے کا دعویدار ہو سکتا تھا ۔
جرسی کا یہ سفر ہم سب کی سوچوں ، توقعات اور خوابوں کا محور بن گیا ۔
آخر کار وہ وقت آگیا جب ہم اس سفر پر روانہ ہوئے ۔مجھے وہ سب ایسے یاد ہے جیسے کل کی بات ہو ۔گرین ول گھاٹ پر بھاپ چھوڑتی کشتی۔۔۔۔میرے والد گھبرائے ہوئے ہمارے تین بیگ لوڈ ہونے کی نگرانی کرتے ہوئے۔۔۔۔۔۔میری والدہ میری بن بیاہی بہن کا فکر مندی سے ہاتھ پکڑے ، جو اپنی بہن کی روانگی سے اس چوزے کی طرح تنہا محسوس کر رہی تھی جو باقی چوزوں سے پیچھے رہ گیا ہو۔اور دلہا دلہن جو سب سے آخر میں ہمیشہ کی طرح ،جس کے باعث میں بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتا ۔
سیٹی بجی ، ہم سوار ہو چکے تھے ، جہاز جیٹی سے سمندر میں پہنچا جو سبز سنگ مر مر کی میز کی طرح ہموار تھا ۔جلد ہی ہم نے ساحل دور دھند لاتے ہوئے دیکھا ۔ان تمام لوگوں کی طرح جو بہت کم سفر کرتے ہیں ہم بھی خوشی اور فخر کے جزبات سے مغلوب تھے ۔
میرے والد کا پیٹ ان کے فراک کورٹ کے نیچے ابھر آیا ۔کوٹ اسی صبح صاف کیا گیا تھا ،اپنے اطراف بینزین کی بو پھیلا رہا تھا ، جس سے مجھے ہمیشہ پتہ چل جاتا کہ آج اتوار ہے ۔
اچانک والد کو دو عمدہ لباس زیب تن کیے خواتین نظر آئیں ، جنھیں دو معزز مرد کستوری مچھلی کی ضیافت دے رہے تھے ۔ایک بوڑھا چیتھڑوں میں ملبوس چاقو سے گھونگھے کھول کر مردوں کو پکڑا رہا تھا جو آگے خواتین کو پکڑاتے جاتے تھے ۔وہ انہیں بہت نفاست سے کھا رہی تھیں ،عمدہ رومال میں گھونگھے پکڑتیں اور سر آگے کر کے کھاتیں تا کہ کپڑوں پر داغ نہ پڑیں ،پھر جلدی سے مشروب پیتیں اور پھر گھونگھے سمندر میں پھینک دیتیں ۔
والد کو سمندر میں جہاز پر کستوری مچھلی کھانے کا خیال بہت اچھا لگا ۔انہیں لگا یہ اعلی طبقے کا طریق کار ہے ۔فورا ً میری والدہ اور بہنوں کے پاس گئے اور انہیں کستوری مچھلی کھلانے کی دعوت دی ۔والدہ اخراجات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہچکچائی لیکن میری بہنوں نے فوراً یہ دعوت قبول کر لی ۔میری والدہ کی آواز سے پریشانی عیاں تھی بولیں ،”کہیں میرا معدہ خراب نہ ہو جائے، بس تھوڑی بہت بچوں کو لے دیں ۔لیکن زیادہ نہیں ،کہیں بیمار نہ پڑ جائیں “
پھر میری طرف مڑتے ہوئے اضافہ کیا ۔ ” جوزف کے لئے رہنے دیں ،لڑکوں کو بگاڑنا نہیں چاہیے ۔” میں والدہ کے پاس رک تو گیا لیکن مجھے یہ امتیازی سلوک نا انصافی لگا ۔
میں نے والد کو بڑی شان سے اپنی دونوں بیٹیوں اور داماد کے ساتھ اس چیتھڑوں میں ملبوس بوڑھے کی طرف جاتے دیکھا ۔پہلی دونوں خواتین وہاں سے جا چکی تھیں ۔میرے والد نے میری بہنوں کو سمجھایا کہ کس طرح مشروب کپڑوں پر گرائے بغیر مچھلی کھانی ہے ۔ انہوں نے بہتر سمجھا کہ ان کو خود کھا کر دکھایا جائے۔ لیکن ان معزز خواتین کی نقل کی کوشش میں مشروب فراک کوٹ پر گرا لیا ۔ساتھ ہی والدہ کی بڑبڑاہٹ سنائی دی ،”اس نمائش سے باز رہتے تو اچھا تھا ۔”
یکدم میرے والد پریشان دکھائی دینے لگے ،وہ چند قدم پیچھے ہٹے ،اپنی فیملی جو گھونگھے کھولنے والے کے گرد جمع تھی کو گھورا اور اچانک ہماری طرف آگئے ۔چہرہ زرد ہو ریا تھا ۔آنکھوں میں عجیب و غریب تاثرات تھے ۔بہت آہستہ آواز میں والدہ سے کہنے لگے ۔”حیران کن حد تک وہ شخص جولز سے ملتا ہے ۔”
“کون جولز؟ “میری والدہ نے حیرانی سے پوچھا ۔
“کیوں ؟ ۔۔۔۔میرا بھائی اور کون ؟ ” والد نے بات جاری رکھی ۔”اگر مجھے معلوم نہ ہوتا کہ وہ امریکہ میں خوشحال رہ رہا ہے تو میں یقیناً اسے جولز ہی سمجھتا ۔”
ششدر ہوتے ہوئے میری والدہ ہکلائی ، ” تم پاگل ہو ۔۔۔جانتے ہو ئے بھی کہ وہ نہیں ہو سکتا ،پھر بھی بیوقوفی کی باتیں کر رہے ہو ۔” لیکن میرے والد مصر رہے۔ ” کلیر س ! جاؤ اور اسے ایک نظر دیکھو اور خود فیصلہ کرو ۔”
وہ اٹھی ، بیٹیوں کے پاس پہنچی ،میں نے بھی اس شخص کو دیکھا ۔وہ میلا تھا جھریوں بھرا چہرا تھا ،اس نے اپنے کام سے نظریں نہ اٹھائیں ۔
والدہ واپس آ گئیں ۔میں نے محسوس کیا کہ وہ کانپ رہی تھیں ،”میرا خیال ہے یہ وہی ہے ، جاؤ اور کپتان سے اس کے بارے میں معلوم کرو ۔لیکن خیال رکھنا !ہمیں اس بدمعاش کو دوبارہ اپنے درمیان نہیں دیکھنا ۔”
میرے والد چل پڑے لیکن اس دفعہ میں ان کے پیچھے گیا ۔کپتان خوبصورت گل مچھروں والا لمبا دبلا آدمی تھا۔خود پسندی کے احساس سے بھرا پل پر ٹہل رہا تھا ۔ایسے جیسے وہ انڈیا جانے والی ڈاک کشتی کا انچارج ہو ۔
میرا والد رسمی انداز سے اسے ملا ، اس سے اس کے پیشے کے بارے میں پوچھا ، ساتھ ہی اس کے جوابات کو سراہتارہا ۔
“جرسی کتنا بڑا ہے ؟ اس کی پیداوار کیا ہے ؟ آبادی کتنی ہے ؟ مقامی رواج کیا ہیں ؟ وہاں زمیں کی خاصیت کیا ہے ؟”اسی طرح کے مزید سوالات ، جس سے سننے والا یہی سمجھتا کہ وہ امریکہ کے بارے میں جاننا چاہتا ہے ۔پھر گفتگو کا رخ جس کشت’ ایکسپریس’ میں ہم سفر کر رہے تھے اس کی طرف مڑ گیا ۔اس کے بعد اس کے عملے کی طرف اور پھر آخر میں تھوڑی نروس آواز میں میرے والد نے پوچھا ۔”یہاں ایک بوڑھا آدمی ہے جو گھونگھے کھولتا ہے کچھ عجیب سا انسان لگتا ہے ۔کیا تم اس کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہو ؟ “
کپتان نے جو اس گفتگو سے اکتانے لگا تھا ، روکھے پن سے جواب دیا ۔”وہ بوڑھا فرانسیسی آوارہ گرد ہے مجھے پچھلے سال امریکہ میں ملا، میں اسے یہاں لے آیا ۔میرا خیال ہے لی ہارو و میں اس کے کچھ رشتہ دار ہیں ۔لیکن وہ ان کے پاس جانا نہیں چاہتا ،شاید اس نے ان کی کوئی رقم دینی ہے ،اس کا نام جولز ہے ۔جولز ڈار مینچ یا ڈاروینچ یا اسی طرح کا کچھ ۔۔۔۔۔لگتا ہے کچھ عرصہ اس نے کافی خوشحال گزارا ،لیکن اب تم خود ہی دیکھ لو اس کی کیا حالت ہے ۔”
میرا والد پیلا پڑ چکا تھا ،نڈھال دکھائی دے رہا تھا ۔گلو گیر آواز میں بڑبڑایا ،”آہ ۔۔۔۔یقیناً ۔۔۔۔دیکھ رہا ہوں ۔۔۔۔مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔بہت شکریہ کپتان ۔”
یہ کہتے ہوئے وہ وہاں سے چل دیا ۔جب کہ حیران و پریشان جہاز ران کی آنکھیں اس کا تعاقب کرتی رہیں ۔
میرا والد واپس والدہ کے پاس آیا ، وہ اتنا پریشان حال دکھائی دے رہا تھا ،کہ والدہ نے دیکھتے ہی کہا ۔ “بیٹھ جاؤ ورنہ لوگ محسوس کریں گے کہ کچھ غلط ہو رہا ہے ۔” وہ بنچ پر گر سا گیا ، بڑبڑایا ۔ “یہ وہی ہے ۔۔۔۔۔یہ وہی ہے ۔” پھر اس نے پوچھا ، “اب ہم کیا کریں گے ؟”
والدہ نے تیزی سے جواب دیا ،”سب سے پہلے ہمیں بچوں کو یہاں سے ہٹانا ہے۔ “ پھر محسوس کرتے ہوئے کہ جوزف سب کچھ جانتا ہے ۔بولی ۔ “وہ جا کر انہیں بلا لائے ،جو بھی ہو جائے ہمارے داماد کو بالکل شک نہیں ہونا چاہئے۔ ” میرا والد گھبراہٹ سے بالکل خاموش ہو چکا تھا ۔بڑبڑایا ۔”کیسی تباہی و بربادی ہے ۔”
والدہ یکدم غصے میں آگئی ،”مجھے ہمیشہ سے معلوم تھا کہ وہ چور ہے ۔ہمارے کسی کام کا نہیں ۔۔۔۔مجھے معلوم ہے وہ دوبارہ ہمارے سر پڑ جائے گا ، ایک ڈاورینچ سے سب کچھ توقع کی جا سکتی ہے ۔” والد نے پیشانی پر اسی طرح ہاتھ پھیرا جیسے وہ ہمیشہ والدہ کے طعنوں تشنیع پر پھیرتے تھے ۔
“جوزف کو پیسے دو ،تکہ وہ گھونگھوں کی ادائیگی کرے ، اب ایک بھکاری ہماری پہچان بنے گا ،واہ کیا زبردست تاثر بنے گا ۔”
“چلو کشتی کے دوسرے کنارے پر چلیں اور دھیان رہے وہ بوڑھا ہمارے قریب نہ آنے پائے۔”
مجھے پانچ فرانک دے کر وہ وہاں سے چل دئے ۔میری بہنیں والد کی توقع کر رہی تھیں ۔ان کی جگہ مجھے دیکھ کر حیران ہوئیں ۔ میں نے انہیں بتایا کہ سمندر کی وجہ سے والدہ کا جی متلا رہا ہے ۔پھر گھونگھے والے سے پوچھا ۔”جناب آپ کو کتنی ادائیگی کرنی ہے۔” مجھے لگا میں انکل کہنے لگا تھا ۔
“دو فرانک اور پچاس ۔”
میں نے اسے پانچ فرانک دئیے ۔اس نے مجھے بقایا رقم واپس کی ۔میں نے دس ساؤس اسےبخشش دے دی ۔اس نے ایسے بوڑھے کی طرح جسے خیرات دی گئی ہو مجھے دعا دی ۔”خدا آپ کا بھلا کرے۔ “ میں یہ سوچے بنا نہ رہ سکا کہ وہ بھیک مانگتا رہا ہے ۔
میری بہنوں نے مجھے گھورا ۔وہ میری سخاوت پر حیران تھیں ۔جب میں نے والد کو دو فرانک واپس کیے تو والدہ نے حیرانی سے پوچھا ۔”کیا ان کی قیمت تین فرانک تھی ؟ ۔۔۔۔۔ناممکن ۔۔۔۔ ” میں نے مضبوط لہجے میں جواب دیا ۔ “میں نے دس ساؤس بخشش دے دی ۔ ” والدہ پھر شروع ہو گئی ،میری آنکھوں میں دیکھتے ہوے بولی ،”پاگل ہو تم ! دس ساؤس اس آدمی ۔۔۔اس آوارہ گرد کو دے دیے۔”
والد نے آنکھوں سے داماد کی موجودگی کا اشارہ کیا ،تو والدہ خاموش ہو گئی ۔اس کے بعد ہر شخص خاموش ہو گیا ۔
ہمارے سامنے افق پر جامنی سایہ سا سمندر سے ابھرتا نظر آیا ۔یہ جرسی تھا ۔جونہی ہم گودی پہنچے ، میرے اندر ایک دفعہ پھر انکل جولز کو دیکھنے ، اس کے پاس جانے اور اس سے ہمدردی بھرے کلمات کہنے کی شدید خواہش پیدا ہوئی ۔ لیکن چوں کہ اب کوئی بھی کستوری مچھلی نہیں کھا رہا تھا ،اس لیے انکل جولز غائب ہو چکا تھا ۔
واپسی ہم نے ‘سینٹ مالو ‘ نامی کشتی سے کی ،تا کہ دوبارہ انکل جولز سے ملاقات نہ ہو ۔والدہ پریشانی سے ادھ موئی ہوئی جا رہی تھی۔
میں نے اس کے بعد دوبارہ کبھی اپنے والد کے بھائی کو نہیں دیکھا ۔اس وجہ سے تم کبھی کبھار مجھے پانچ فرانک کسی آوارہ گرد کو دیتے ہوئے دیکھ لیتے ہو ۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*