حادثہ

مجھے دیہات سے دارالحکومت آئے چھ برس ہو چکے ہیں۔ اس دوران میں نے نام نہاد ریاستی معاملات کے بارے میں بہت کچھ دیکھا اور بہت کچھ سنا۔ مگر کسی چیز نے بھی مجھ پہ بہت زیادہ اثر نہیں ڈالا۔ اگر ان اثرات کا پوچھا جائے تو میں محض یہ کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے میرا چڑ چڑا پن بڑھادیا اور سچی بات یہ ہے کہ مجھے زیادہ سے زیادہ غیر انسانی بنا ڈالا۔

البتہ ایک واقعہ مجھے اہم لگا اور جس نے مجھے اپنے چڑ چڑے پن سے بلند کردیا، اس حد تک کہ میں اب اُسے بھول نہیں سکتا۔

یہ واقعہ 1917 کی سردیوں میں پیش آیا۔ تلخ سرد شمالی ہوائیں چل رہی تھیں۔ مگر اپنا گزارہ کرنے کے لئے مجھے صبح سویرے کام کرنے باہر جانا پڑتا تھا۔ مجھے سڑک پر ایک بھی ذی روح نہ ملتا اور ”ایس“ گیٹ تک جانے کے لئے رکشہ ڈھونڈنے میں بہت مشکل پیش آتی۔ اُس وقت ہوا چلنی کچھ کم ہو گئی تھی۔ اس وقت تک ساری ڈھیلی مٹی کو ہوا اڑا کر لے گئی تھی اور سڑک صاف ہو چکی تھی اور رکشے والے کی رفتار تیز ہوتی گئی۔ ہم ایس گیٹ کے قریب ہی تھے کہ کوئی سڑک پار کرتا ہوا ہمارے رکشہ میں الجھ گیا اور آہستہ سے گر گیا۔

وہ ایک عورت تھی جس کے سر میں سفید بالوں کی لٹیں تھی۔ اس نے پھٹے پرانے کپڑے پہن رکھے تھے۔ اس نے ہمارے سامنے سے گزرتے ہوئے خبرداری والا کوئی اشارہ نہ کیا تھا اوراچانک روانہ ہوئی۔ گو کہ رکشے والے نے راستہ دیا مگر اس کا جگہ جگہ سے پھٹا ہوا کوٹ جس کے بٹن کھلے ہوئے تھے اور جو ہوا میں لہرا رہا تھا، رکشے میں پھنس گیا۔ خوش قسمتی سے رکشہ والا تیز نہیں جا رہا تھا وگرنہ وہ بہت بری طرح گر جاتی اور سخت زخمی ہو جاتی۔

وہ وہیں زمین پر پڑی رہی اور رکشے والے نے رکشہ روک دیا۔ لگتا نہیں تھا کہ بوڑھی عورت زخمی ہو گئی اور جو کچھ ہوا اس کا کوئی گواہ بھی نہ تھا۔ اس لئے میں نے اس خوامخواہ کی خدمت گزاری کو برا سمجھا جو اُسے کسی مصیبت میں گرفتار کر سکتی تھی اور مجھے بھی گرفتار کرا سکتی تھی۔

”خیریت ہے“۔میں نے کہا ”چلو“۔

مگر اس نے کوئی توجہ نہ دی۔ شاید اس نے سنا نہیں۔ وہ نیچے اترا اور آہستگی سے بوڑھی عورت کو کھڑے ہونے میں مدد دی۔ ایک بازو سے اسے سہارا دیتے ہوئے پوچھا :۔

”تم ٹھیک ہو؟“۔

”مجھے چوٹ آئی ہے“۔

میں نے دیکھا تھا کہ وہ بہت آہستگی سے گر گئی تھی اور مجھے یقین تھا کہ وہ زخمی نہیں ہوئی۔ وہ یقیناً ٹھگی کر رہی تھی جو کہ قابلِ نفرت بات تھی۔ رکشہ والے نے مصیبت کو دعوت دی تھی اور اب اسے بھگتنا تھا۔

مگر جونہی عورت نے کہا کہ وہ زخمی ہے تو رکشہ والے نے ایک لمحہ بھی تامل نہ کیا۔ اس کا بازو پکڑ ے ہوئے وہ اسے آہستہ آہستہ چلنے میں مدد دینے لگا۔ میں حیران تھا۔ جب میں نے آگے دیکھا تو مجھے ایک پولیس سٹیشن نظر آیا۔ تیز ہوا کی وجہ سے پولیس سٹیشن کے لوگ سب اندر تھے، اس لئے رکشہ والا بوڑھی عورت کو وہاں تک لے جانے میں مدد دے رہا تھا۔

اچانک مجھے ایک عجیب احساس ہوا۔ اُس لمحے اس کا جاتا ہوا خاک آلود ہیولا بڑا ہوتا گیا۔ بلا شبہ جوں جوں وہ آگے بڑھتا جاتا اس کا قد بڑاہوتا جاتا۔ جب بالآخر اسے دیکھنے کے لئے مجھے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھانا پڑا۔ بہ یک وقت لگتا تھا کہ وہ مجھ پر بتدریج ایک دباؤ ڈالتا جاتا تھا جو میرے فر کے کوٹ کے اندر چھوٹے جسم کو مغلوب کرنے کی دھمکی دے رہا تھا۔

میں بے حس و حرکت بیٹھا تھا۔ لگتا تھا میرا قوتِ حیات منہدم ہو چکا ہو، میرا دماغ خالی تھا۔ جب بالآخر ایک پولیس والا باہر آیا۔ پھر میں رکشے سے نیچے اتر آیا۔

پولیس والا مجھ تک چلا آیا اور کہا ”کوئی دوسرا رکشہ کیجئے۔ اب وہ آپ کو نہیں لے جا سکے گا“۔

کچھ بھی سوچے بنا میں نے اپنے کوٹ کی جیب سے مٹھی بھر سکے نکالے اور پولیس والے کو دیدیئے:

”براہِ کرم یہ اُسے دیجئے“میں نے کہا۔

ہوا مکمل طور پر تھم چکی تھی مگر سڑک ابھی تک سنسان تھی۔ میں سڑک پر چلتا سوچ رہا تھا۔ مگر میں ان سوچوں کو اپنی طرف موڑتے ہوئے بہت خوفزدہ تھا۔ جو کچھ ابھی ابھی ہوا تھا، اسے ایک طرف رکھ کر، میں نے مٹھی بھر کر سکے کیوں دیئے تھے؟۔کیا یہ ایک انعام تھا؟۔ میں رکشے والے کا فیصلہ کرنے والا کون تھا؟۔میں اپنے اس سوال کاجواب نہ دے سکا۔

ابھی تک، یہ واقعہ میرے دماغ میں تازہ ہے۔ یہ اکثر مجھے بے چین کر دیتا ہے اور مجھے اپنے بارے میں سوچنے پر مجبور کر تا ہے۔ ان برسوں کے سیاسی و فوجی معاملات کو میں بالکل اسی طرح بھول چکا ہوں جس طرح بچپن میں پڑھے ہوئے کلاسیک کو بھول چکا ہوں۔ لیکن یہ واقعہ میری طرف لوٹ لوٹ آتا ہے، اور اکثریہ اصل زندگی سے بھی زیادہ واضح ہو کر آتا ہے، مجھے شرم کا درس دیتا ہوا، مجھے اپنی اصلاح کرنے پر اکساتا ہوا، اور مجھے تازہ جرات اور امیدبخشتا ہوا۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*