غزل

کچھ دریچوں میں روشنی ہو گی
شہر میں رات جاگتی ہو گی

ایک وحشت زدہ کھنڈر میں ابھی
تیری آواز گونجتی ہو گی

زرد پھولوں پہ شام کی دستک
نیم جاں دھوپ نے سُنی ہو گی

اُڑ گیا آخری پرندہ بھی
پیڑ پر شاخ ڈولتی ہوگی

دل بھی وہم و گماں سے لپٹا ہے
رات بھی بام پر دھری ہو گی

دل ٹھہر جائے گا کسی دم میں
اور کچھ دیر بےکلی ہو گی

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*