چوکور دائرے

جس وقت اُس نے دیوار پھلانگی، تو اُس سڑک پر تاریکی کے ساتھ ساتھ ہو کا عالم تھا،جس پر ابھی کچھ دیر قبل، وہ اپنی پوری قوت جمع کر کے سر پٹ دوڑ رہا تھا،باوجود اس کے کہ اس کی ایک ٹانگ کسی سخت چیز کی شدید ضرب سے زخمی ہو چکی تھی۔ گوعام حالات میں دوڑنا تو کجا، چلنا بھی اُس کے لیے سہل نہ ہوتا، پر اب حالات نارمل تھے ہی کہاں؟۔یہی ایک دوڑ تھی جو اسے اپنی جان کی واحد امان کی شکل میں نظر آرہی تھی، حالات یہ شکل اختیار کر جائیں گے اُس نے سوچا بھی نہ تھا۔وہ تعین نہ کر پایا کہ شاید دیوار پھلانگنے سے ،یا پھر اُسے درپیش اِس سنگین صورتحال سے، چند گھنٹوں پیشتر کی جانے والی خاطر تواضع نے، اس کے داہنے بازو کی ایک ہڈی کو قریب قریب توڑ ہی ڈالا تھا ۔ اور اب جب کہ قریب ہی تھا کہ اُن چھ سات ہذیان زدہ لوگوںکے خبطی ہجوم میں سے کوئی ذہنی مریض، اس کے سر کو، سڑک پر پڑے کسی پتھر سے کچل دیتا، اس نے اپنی پوری طاقت جمع کی اور بھاگ کھڑا ہوا۔
شناسا راستوں پر ،کسی سبک رفتار گھوڑے کی مانند سر پٹ دوڑتے ہوئے، جب اس نے سامنے ایک پرائمری سکول کی کم قامت دیوار دیکھی، جس پر ایک گھنے درخت کی شاخیں کافی حد تک نیچے جھکی چلی آئی تھیں، تو اسے محسوس ہوا، جیسے وہ مہرباں درخت اپنی خمیدہ شاخوں کو پھیلا کر ، اس کی جانب مدد کا ہاتھ بڑھا رہا ہو، ایسے وقت میں یہ اسے کوئی آسمانی مدد ہی محسوس ہوئی، اور تبھی اسے فیصلہ کرنے میں لمحہ لگا اور وہ ایک شاخ کو بائیں بازو سے تھامتا ہوا، اپنی دائیں ٹانگ کی مدد سے، دیوارکو دوسری جانب پھلانگنے میں کامیاب ہو گیا تھا، تاہم اب بھی وہ اپنے پیچھے بھاگتے ہوئے قدموں کی آوازیں سن سکتا تھا، جو اب درجہ بدرجہ قریب ہوتی معلوم ہوتی تھی، اور پھر بالآخر وہ آوازیں دیوار پر چیونٹیوں کی مانند رینگنے لگیں، تبھی اسے سکول کے تاریک حصوں کی جانب روپوش ہونا پڑا، جہاں دیواروں پر لکھے الفاظ اس کے سر سے زیادہ بڑے تھے، لفظوں کا یہ لشکر اگر اسے پناہ دے سکتا تو آج اسے یوں خوار نہ ہونا پڑتا، اُس کی اذیت ناک سوچیں منتشر ہونے لگیں۔
سکول کے تالا لگے کمروں کے آگے بنے تاریک برآمدوں سے ، تقریباََ دیوار کے ساتھ چمٹ کر اس نے ، آہستہ آہستہ خود کو آنے والی قدموں کی منتشر آوازوں کے مخالف سمت گھسیٹنا شروع کیا۔ یہ ایک تنگ راہداری سے سکول کی عقبی سمت جانے والا راستہ تھا، جہاں صفائی کرنے والوں کی دو بڑی موٹے بانس کی جھاڑو اور بساند مارتی وائپر پر لپٹی ہوئی، میل خوری فرش صاف کرنے والی پوچیاں پڑی ہوئی تھیں، یہاں آتے آتے مدہم روشنی بھی ماند پڑ گئی تھی ، وقفے وقفے سے آنے والے بدبو کے جھونکے، یہاں کسی بیت الخلاءکی موجودگی کے غماز تھے۔
وہ خاموشی سے، دیواروں کا سہارا لیتے ہوئے سکول کے صحن کی اختتامی دیوار کی سمت قدم اٹھاتا رہا، جہاں دو گھنے برگد کے درخت آپس میں سر نیہواڑے کھڑے تھے۔ یہاں سے باہر کی جانب دیواربھی قدرے نیچی تھی، وہ جانتا تھا کہ اُسے ڈھونڈتے پاس آتے قدموں کے شور سے قبل، یہ باہر نکلنے کا واحد راستہ ہے، لیکن مصیبت یہ تھی کہ سکول کا یہ عقبی حصہ ٹھیک بازار کی جانب تھا، رات کے اس وقت دیوار پھلانگنا، بازار کے رش کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے برابر تھا۔ یوںسمجھو ایک جانب کنواں تو دوسری جانب کھائی۔
کوئی ایک فیصلہ تو لینا ہی تھا، جوان نے ایک لمبی سانس کھینچی۔ یہاں بدبو دار اندھیرے میں بیٹھ کر اذیت ناک موت یا گمشدہ اشتہار بن جانے سے بہتر تھا کہ آخری ہمت مجتمع کر کے حالات کا سامنا کیا جائے کیا پتہ جان بچانے کا کوئی داﺅ کارگر ہو ہی جائے۔
یہ سوچ کر اُس نے خاموشی سے اپنے قدم، اُس پستہ قامت دیوار کی جانب اٹھائے۔ منتشر اور مضطرب قدموں کی آوازیں اُس کی دھڑکن کو تہہ و بالا کیے جا رہی تھی، کون جانے ایک سنسناتی ہوئی گولی، کب آئے اور اس کے بھیجے کے آر پار ہوجائے،ادب، فلسفہ اورفن کی باریکیوں کو سمجھنے سمجھانے والا دماغ کب اس دیوار پر ہی لیپ دیا جائے، اُن بہت سے دماغوں کی طرح جوتلاشِ گمشدہ کی تصویروں میں چن دیے گئے یا پھر بھرے مجمع میں سنگدلی کے سنگ سے کچل دئیے گئے تھے۔
اپنے من من وزنی قدموںکو تولتا ہوا جب تک وہ دیوار تک پہنچا، اُس کا سانس حلق میں ہی اٹکا رہا، اس کے پیروں کی تمام چیونٹیاں آہستہ آہستہ کانوں تک رینگنے لگیں۔ تبھی ایک زور دار جھٹکے سے جونہی وہ دیوار پر چڑھا، دو کام بیک وقت ہوئے۔
ایک زور دار گولی کی آواز سے سکول کا سکوت گونج اٹھا، یہ لمحے کے کوئی ہزارویں حصے کا فاصلہ تھا کہ وہ دیوار پھلانگ چکا تھا اور ایک بار پھر ایک رش بھرے بازار میں، ایک لڑکھڑاتی ٹانگ کے سہارے سرپٹ دوڑ رہا تھا، جہاں گولی تو کیا بم کی آواز پر بھی خریداری اور بحث و تکرار میں مشغول لوگ مڑ کر دیکھنے کو تیار نہ تھے، یوں جیسے ان کی سماعتوں پر مطلب اور ہوس کی میخیں ٹھکی ہوئی ہوں، وہ ہر حال میں گاہک کی جیب سے زیادہ سے زیادہ پیسہ نکلوانے کے حریص تھے۔ روشنیوں سے منور بازار میںخلقت کا رش ان کیڑے مکوڑوں کی مانند تھا جو راہ چلتے ہر چیز کو سونگتی اور پسند نا پسند کا فوری فیصلہ کرتے ہوئے اس چیزکو چھوڑ کر آگے بڑھ جاتی۔
آگے بڑھے تختوں کے سبب تنگ اور ٹیڑھے میڑھے بازار کی دکانوں کی مختلف آگے پیچھے بنی گلیوں میں بھاگتے بھاگتے، جب وہ ایک آگے نکلے بینچ سے رپٹ کر اوندھے منہ گرا تو عین اس کے چہرے کے سامنے کپڑوں کا ایک پہاڑ کھڑا تھا۔پاس کھڑے مردوزن کے ہجوم نے قطعی اس کے گرنے کی پرواہ نہ، شاید وہاں دھکم پیل کے سبب گرجانا عام سی بات تھی،وہ تھوڑی دیر اس بڑے سے کپڑوں کے پہاڑ کے پیچھے ہی دبکا رہا۔آہستہ آہستہ ایک مخصوص بُو نے اُس کے اعصاب کے بحال ہونے میں مدد کی۔ یہ تو لنڈا بازار ہے، اُس نے ایک ڈھیر کی اوٹ میں ہوتے ہوئے لوگوں کے رش پر نگاہ ڈالی تو غربت، مہنگائی اور افلاس زدہ چہروں کے درشن ہوئے۔
اپنا تن ڈھانپنے کو یہ سفید پوش لوگ ، دنیا بھر کی اترن کو بھی کیسے شوق سے خرید لے جاتے ہیں، سماجی بھرم انسان سے کیسے کیسے کام کرواتا ہے؟ کیا تن ڈھانپنے کوملنے والی یہ اترن لوگوں کے خالی پیٹ اور روح کی برہنگی چھپانے پر بھی قادر ہے؟ اُس نے پھر سے اپنے اندر بیدار ہوتے فلسفی کو جھڑکا، آج کے یہ اعصاب شکن حالات بھی اسی سوچنے والے دماغ کی دین تھے۔ اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے خود کو تھوڑے اور رش میں سرکایا اورسر کو جھکا کر نیچے پڑے کپڑوں کو پھرولنا شروع کیا، یوں جیسے اُسے کسی چیز کی تلاش ہو، پھر دانستہ ہی ایک کپڑا نیچے گرایا اور اسے اٹھانے کے بہانے، نیچے بیٹھ کراپنا سانس بحال کرتے ہوئے لوگوں کے قدموں کو دیکھنا شروع کیا، تبھی اچانک ہی کچھ بھاگتے قدم وہاں سے دوڑتے ہوئے گزر گئے، اس کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوگئیں۔
’وہ مجھے یوں ہر گز نہ چھوڑیں گے۔‘ دل میں خود کلامی کرتے ہوئے ایک سرد لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی۔
اُس نے نا دانستہ ہی اِدھر اُدھر نظر دوڑائی، دفعتاََ اس کی نگاہ وہاں سامنے لٹکے زنانہ کپڑوں پر جا رکی۔ یہ گہرے گلوں کی تنگ، کھلی، لمبی چھوٹی ہر طرح کی قمیصیں تھیں جوشوخ رنگ کے زیرِجامہ پہناووں کے متوازی ایک الگنی پر ٹکی ہوئی تھیں، دکاندار نے دانستہ انھیں نمایاں کر کے سامنے لگایا تھا، یہ شوخ رنگ اور لباس اُن نازک اندام فرنگی جسموں پر کیاخوب جچتے ہونگے، جن سے اتر کر اب وہ اس بدبو دار ڈھیر کا حصہ بن گئے ہیں، وہ میڈونا، کیٹ ونسلٹ اور انجلینا جولی کے سراپوں سے خود کو سوچنے سے باز نہ رکھ سکا۔ تبھی ایک کم سن لڑکا ،اُس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھتے ہوئے ایک دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ، اُس کی جانب بڑھااور زور سے گنواروں کی طرح بولا: ”کیا چاہئے سرکار؟“۔
وہ چونکا اور جانے انجانے میں ایک شوخ رنگ کے مختصر لباس کی جانب انگلی اٹھا دی۔ لڑکے نے مسکراتے ہوئے ٹھیک اُس منتخب لباس کی جانب اپنی چھڑی سے اشارہ کیا۔ ”یہی؟“
اور تبھی وہ سنبھلا اور اُس نے اپنی گردن انکار میں زور سے دائیں بائیںہلائی ۔ پھر قدرے سکون سے اس شوخ لباس کے ساتھ لٹکے ہوئے سیاہ اور زرد رنگ چھوٹے چھوٹے پھولوں سے اَٹے پرنٹ کے ڈھیلے ڈھالے چولے کی جانب اشارہ کیا۔ ”نہیں۔۔یہ ساتھ والا۔۔“
”اوہ اچھا یہ۔۔“ لڑکے نے خاصا برا سا منہ بنایا ، اُسے اِس خوبصورت جوان کی یہ پسند، پسند نہ آئی تھی ۔ عجلت میں اُس نے اس چولے کو ایک سیاہ لفافے میں تقریباََ گھسیڑ کر آگے بڑھا دیا۔ جلد بازی میں اس لفافے کو تھامتے ہوئے اور بازار کے اصول کے خلاف، بتائی گئی قیمت پر بغیر بحث کیے، منہ مانگی قیمت دیتے ہوئے اس نے، تخت پر ایک جانب پھیلے تقریباََ ناکارہ کپڑوں کے ڈھیر میں سے، ایک بد رنگ ساجامنی سکارف بھی اٹھایا اور اس لڑکے کے سامنے ہی اُسے، اُس سیاہ لفافے میں ٹھونس لیا، جس پر لڑکے نے کسی ردِ عمل کا اظہار نہ کیا۔
دکان سے نکلنے سے قبل، اُس نے لڑکے کو اشارے سے قریب بلایا اورلفافے کی آڑ میں اپنے داہنے کی سب سے چھوٹی انگلی کو اٹھا کر ایک مخصوص استفسار کیا، لڑکے نے اپنے بغلی جانب نکلنے والی تنگ اور مختصرگلی کے کونے کی جانب اشارہ کیا۔ وہ عجلت میں نکلا اور سر جھکائے سیدھا بغلی گلی کی متعلقہ تنگ کوٹھری میں داخل ہو گیا، جس میں تنگ اور ملگجی روشنی میں کوئی چار بیت الخلاءقطار میں موجود تھے، جن کے باہر کی دیورا پر اس حاجت ِ ضروری کے نرخ بھی آویزاں تھے۔
سب سے آخری بیت الخلاءمیں داخل ہوتے ہی اُس نے پھرتی سے اُس سیاہ اور زرد رنگ کے پھولوں سے بھرے چوغے کو خود پر زبردستی مسلط کیااور اس بد رنگ جامنی اسکارف کو نہایت بے ڈھنگے انداز میں اپنے سر کے گرد لپیٹ لیا۔ اس غلیظ اور متعفن جگہ پر چند ثانیوں تک، خود کو قدرے نارمل حالت میں لاتے ہوئے اور پیش آنے والے پے در پے بد تر واقعات کو ایک بارپھر دماغ سے جھٹکتے ہوئے اس نے اپنی اگلی حکمتِ عملی ترتیب دی۔ اور ایک جھٹکے سے دروازہ کھول کر ، برق رفتاری سے یوں نکلا ، کہ باہر کرسی پر بیٹھا شخص، جو حوائجِ ضروریہ کی نکاسی کے لیے بنائے گئے ان چھوٹے چھوٹے تنگ دڑبوں سے دام جمع کر رہا تھا، ششدر رہ گیا۔ اُس نے بارہا دماغ پر زور ڈالا کہ یہ سیاہ اورزرد پھولوں سے بھرے لباس والی عورت کو اس نے بھلا کب اندر جانے کی اجازت دی تھی، اور جب تک اُس کی نظریں پھسل کر ، اُس چوغے کے نیچے سے نظر آتی نیلی جینز اور سفیدجوتوں تک آئیں ، جانے والا ہوا ہو چکا تھا۔
وہ اُس تنگ گلی سے تیر کی طرح نکلا تھااور رش زدہ ہجوم میں شامل ہوگیا،عجیب بات یہ تھی کہ اپنی ایسی مضحکہ خیز پہچان بنانے پر وہ نہ تو ہنس سکتا تھا اور نہ ہی رو سکتا تھا،اُس نے خود کو ایک عجیب بے بسی میں گھرا محسوس کیا۔سوچوں کا جال ایک بار پھر بُننا شروع ہوا کہ کروڑوں اربوں لوگوں کی اس دنیا میں ایک اکیلے شخص کا منفرد مزاج کا ہونا دنیا پہ گراں کیوں کر تھا؟ آج جو ہوا، ایسی بھیانک صورتحال کا تو اُس نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔ پر ہمیشہ جو سوچا جائے ، اُس کا سچ ہونا بھی کہاں ممکن ہے؟ سارا مسئلہ اُس کی اِس سوچ کا ہی تو تھا،وہ سوچ جو اُس کے ہم نفسوں سے بہت مختلف تھی۔ وہ لوگوں کو دین، مذہب، فرقوں اور ذاتوں میں پاٹ دینے کا عادی نہ تھا، اُسے سب یکساں انسان نظر آتے تھے، وہ ریاست اور سماج کے اُن تمام ممنوعہ سوالات تک رسائی چاہتا، جنھیں سنتے ہی سب کنی کترا جاتے۔اُس کا ہمہ وقت سوچنے والا ذہن جب اُلجھ جاتا تو اُسے اذیت میں مبتلا کر دیتا، وہ ممنوعات اور مقفل دروازوں پر دستک دینے سے خود کو بار ہا روکتا، پر نہ تو یہ دستک رکتی اور نہ یہ سوچ۔جب کبھی اُس کی دل کی باتیں زبان پر آجاتیں ، تب تو کہرام ہی مچ جاتا، لوگ اُسے کبھی ریاست سے ڈراتے تو ، کبھی اُسے باغی کہا جاتا کبھی طعنے ہوتے تو کبھی دہائیاں، اُسے سمجھ نہ آتی لوگ ان بے ضررسوالوں سے اتنا ڈرتے کیوں ہیں۔ وہ ہر اُس آواز کو خاموش کیوں کرا دینا چاہتے ہیں جو اُن کے فرسودہ اور مقدس جوابوں پر سوال اُٹھائے۔
اُس کا واحد دوست معید اُس کے سوالوں سے تنگ آ کر کہتا:’میرے پیارے!ذہانت حسن ہے لیکن حد سے زیادہ ذہانت نِرا وبال ہے۔‘ اور یہی وہ دن تھے جب اُس کا سوچنے والا ذہن خود اُس کے لیے وبال بن کر، گلے سے گردن تک آگیا تھا۔ اُسے مارنے والے کون تھے؟ کہاں سے آئے؟ کیوں آئے؟ اُسے کسی بات کا علم نہ تھا، وہ تو بس یہ جانتا تھا کہ یہ وقت اُس کی شام کی ٹیوشن سے واپسی کا تھا۔ اُن چار پیسوں کے حصول سے واپسی جو اُس کے پیٹ کے لیے کھانا اور دماغ کے لیے کتاب فراہم کرنے میں بھی کم ہی معاون ہوتے۔ کتابیں جن سے حاصل کیا گیا علم اُس کے ان مباحثوں میں ساتھ دیتا، جو وہ اکثر و بیشتر ، نسل، زبان ا ور قوم پرستی کے رنگ برنگے دائروں میں رہنے والوں سے کیا کرتا۔ ابتداءمیں اُس نے خود کو بھی اِن فرسودہ دائروں کے جبر سے آزاد کرنے کی ہر ممکن سعی کی تھی، اور جب پہلادائرہ ٹوٹا تھا تو وہ خوشی سے نہال ہو گیا تھا، لیکن تبھی اُسے احساس ہوا تھا کہ اس گول دائرے کے باہر بھی ایک دائرہ ہے،جو چوکور ہے، پھر مستطیل، پھر مربع اور پھر جانے کیا کیا، یہ حد بندیوں کا ایک لا مختتم سلسلہ ہے، جس کا شاید کوئی انت ہی نہیںاور تبھی ، جب سے اب تک اُس نے بارہا ان مقدس دائروں کی حد بندیوں کے خلاف بار ہا احتجاج کیا تھا۔
مصروف اور پُر شور راستوں سے گزرتے ہوئے وہ تھک ہار کر وہ ایک قدرے سنسنان اورنیم تاریک حصے میں پڑے، ایک ٹوٹے ہوئے بینچ پرآن بیٹھا، یہ ایک آئس کریم پالر کے متوازی گلی تھی، جو سڑک پر گاڑیوں کے اژدھام اور شور سے منہ موڑے ہوئے تھی۔ رات کے غالباََ نو بج چکے تھے۔اب جب کہ اس حلیے نے اُسے یکسر تبدیل کر ڈالا تھا، تب بھی اُس کا، اِ س وقت یوں خاموش، ایسی تاریک جگہ پر اکیلے بیٹھنا درست نہ تھا،جسم کا ہر زخم ایک زور دار ٹیس کی شکل میں اپنے ہونے کا معترف تھا۔
سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب اُسے کیا کرنا چاہئے۔ کیا اُسے اپنی ایک کمرے کی مختصررہائش گاہ کی جانب واپس لوٹ جاناچاہئے، جس میں وہ گذشتہ دو سالوں سے حصولِ علم کی تگ و دو کے لیے اقامت پذیر تھا، ایک چھوٹا مختصر سا کمرہ جس میں کتابوں کے سوا رکھا ہی کیا تھا؟ لیکن کیا اُسے ڈھونڈنے والے اُس کی بو سونگھنے وہاں نہ پہنچے ہو نگے؟ اُس نے تصور کی آنکھ سے اپنے کمرے کی ہر کتاب کو اوندھے منہ گرا دیکھا، ایک لمحے کو دل کٹ سا گیا۔ اس بات کی کیا گارنٹی تھی کہ اب وہ اپنی اس مختصر سی رہائش گاہ میں محفوظ ہے؟۔اُس نے تکلیف سے سوچا۔ ایک منفرد سوچ کا حامل ہونا ، سماج کے لیے کیا ایسا ہی اذیت ناک تھا؟۔ پرمصیبت تو یہ تھی کہ اب بھی وہ اس دیمک زدہ ذہنیت کے حامل سماج کے لیے اپنی سوچ اور نظریات قربان کرنے کو قطعاََتیار نہ تھا۔ یہ آگہی کا وہ دروازہ تھا جسے وہ اپنی جان پر کھیل کر بھی کھُلا رکھنا چاہتا تھا۔دل و دماغ میں اُٹھنے والے بہت سے سوالات اور ان کے جانے بوجھے جوابات کے تانوں بانوں میں وہ الجھتا ہی چلا جا رہا تھا ، تبھی اچانک اُس کی نظر سامنے نکڑ کی جانب اُٹھ گئی۔
وہ کوئی ساٹھ کے سن کا سفید بالوں اور میلے چیکٹ لباس والا شخص تھا، جس کے پیروں میں جوتی کے نام پر دو دھجیاں تھیں، جنھیں وہ چلنے کے نام پر گھسیٹ رہا تھا، اور جس کے چہرے کی جھریاں نصف صدی کی اذیت زدہ مفلس داستان کی گھسیٹی ہوئی لکیریں معلوم ہوتی تھیں۔ اپنی خمیدہ کمر پر لٹکائی خالی بوری اُس نے ایک جانب رکھ دی، اور اب وہ اُس بڑے سے کچرے کے ٹب میں قریباََ آدھا اندر جھُک گیا تھا، جس میںغالباََآئس کریم پالر کا بچا کچا کچرا موجود تھا، کافی دیر بعد جب اُس نے ہاتھ باہر نکالاتو اُس میں کئی پلاسٹک کے ، چھوٹے بڑے آئس کریم کے گول کپ تھے، جنھیں لے کروہ وہیں زمین پر دھپ سے بیٹھ گیا ۔
وہ ہر کپ کو غور سے دیکھتا، اُلٹاتا اور اپنی بوری میں ڈال لیتا، اِ س سرگرمی کے درمیان میں وہ تب رکتا، جب کسی کپ میں آئس کریم بچی ہوتی ، وہ ان کپوں میں پھنسے چمچوں سے اُس آئس کریم کو نکالتا اور جلدی جلدی پیٹ میں انڈیلنا شروع کر دیتا، یوں لگتا جیسے اُسے کھانے کی نہیں پیٹ بھرنے کی جلدی ہے۔تھوڑی دیر بعد وہ پھر اُٹھا اور کچرے کے ڈھیر سے پھر بہت سے کپ نکال کر یہی سرگرمی دوبارہ شروع کر دی۔
قدرے فاصلے پر پڑے بوسیدہ بینچ پر بیٹھے ، سوچنے والے شخص کے لیے یہ ایسا کراہیت زدہ منظر تھا، جو اُس نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ مارکس، لینن، گوئٹے، اقبال سب کے سرمایہ ،مزدور اور خودی کے فلسفے اُسے اوندھے منہ گرتے ہوئے محسوس ہوئے اور ایک زور کی اُبکائی اس کے معدے سے بر آمد ہوئی۔
تبھی آئس کریم پالر سے نکلنے والے ایک صاحب نے اُس افلاس زدہ شخص کو دیکھا، جو اپنے بچوں کے ہمراہ ،سیاہ گاڑی میں بس بیٹھنے ہی والا تھا۔وہ بوڑھے کے قریب آیا اور سو روپے کا ایک کڑکتا نوٹ خدا ترسی کے انداز میں اُس کی جانب بڑھایا، بوڑھے نے ایک سرسری نظر نوٹ پر ڈالی اور اُسے جھپٹ کر مٹھی میں بھینچ لیا، پھر اِسی پھرتی سے اُسے جیب میں اُڑس لیا۔ دو لمحے تو سیاہ گاڑی ولا شخص اُس کے سامنے یوں رُکا رہا کہ جیسے وہ بوڑھا، ابھی ابھی ماتھے تک ہاتھ لے جا کر اُسے ایک زور کا سلام جھاڑے گا، یا اور کچھ نہیں تو اُس کی آنکھوں میں کوئی ممنونیت کا احساس ہی بیدار ہو جائے گا۔ مدِ مقابل کی آنکھوں میں ایسے احساس کی صرف جھلک دیکھ لینا ہی کتنا سکون پرور ہوتا ہے، پر عجیب آدمی تھا وہ بوڑھا، ہر چیز سے بے نیاز یوں لوگوں کی بچی کچی آئس کریم یوں کھا رہا تھا جیسے ابھی کچھ دیر پہلے ملنے والی سو روپے کی رقم اُس کے لیے کوئی اہمیت ہی نہ رکھتی ہو۔ سیاہ گاڑی والے شخص نے کچھ دیر تو اُسے دیکھا، پر کسی قسم کا ردِ عمل نہ ملنے پرڈھیلے ڈھیلے قدم واپس گاڑی کی جانب بڑھا دیے۔ تبھی آئس کریم پالر سے ایک سروس بوائے جو شاید کسی کام سے باہر نکلا تھا، لپک کر اُس کی جانب آیا اور اُسے دھتکار کر وہاں سے چلتا کیا۔بوڑھے شخص نے اپنی غلیظ بوری اُٹھائی، جو اب کسی حد تک پلاسٹک کے گول خالی کپوں سے بھری بھری معلوم ہو رہی تھی، اُسے اپنے خمیدہ کندھوں پر ڈالا اور آہستہ آہستہ چل پڑا۔
ایک مضطرب ،بے قرار اور زخموں سے چور شخص کے لیے دور بیٹھ کر ایسا منظر دیکھنا کیسا رقت آمیز تھا،اُس کا دل پھوٹ پھوٹ کر رونے کو چاہا۔ اُسے اُس بوڑھے شخص سے ایک انجانی ہمدردی محسوس ہوئی، اِس ہمدردی کی وجہ اُن دو لوگوں کا آپس میں چند باتوں کا اشتراک تھا، وہ دونوں ہی سماج کے لیے ناقابلِ قبول تھے اور دونوں ہی زندہ رہنے کی تگ و دو کر رہے تھے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ ایک کے پاس سوچ کی اذیت دینے والا ، ایک برق رفتار دماغ تھا، جب کہ دوسرا ،احساس کے ان جذبات سے قطعی عاری تھا۔ اُس کو پہلی بار اُس بوڑھے پر رشک آیا تھا۔ کم سے کم وہ کڑھنے اور سلگنے کے احساسات کی اذیت سے تو نجات میں تھا،سوچ کے عذاب سے رہائی کی عیاشی بھی تو اُسے میسر تھی۔ اپنی بے بسی کو ایک بار پھر شدت سے محسوس کرتے ہوئے اُس کا دل بھر آیا ، اُس نے گردن گود کی طرف جھکا دی۔ ایک مضطرب انداز میںاُس نے اپنے گود میں رکھے، پژ مردہ اور بے جان ہاتھ کی ہڈی کوآہستگی سے سہلایا، تبھی ایک زور کی ٹیس اُٹھی۔ زخم اندر بھی تھے اور زخم باہر بھی تھے، اور دونوں ہی زخم آہستہ آہستہ رِس رہے تھے۔
جھنجھلا کر اُس نے اپنے بائیں ہاتھ کی مٹھی کو زور سے بند کیا اور کھولا،پھر بند کیا اور پھر کھولا، تبھی اُسے اپنی پشت پر کسی کے ہونے کا احساس ہوا، دل ایک بارپھر بہت زور سے دھڑکا تھا، اُس نے گھبرا کر پیچھے مڑ کر دیکھا تو سامنے وہی سن رسیدہ بوڑھا، کاندھے پر اپنی میلی کچیلی بوری اٹھائے کھڑا تھا،کچھ دیر تک اُس بوڑھے نے، حیرت سے گلی میں ٹوٹے ہوئے بنچ پر بیٹھی اس ڈیل ڈول والی بظاہر زنانہ مخلوق کو غور سے دیکھا ، اُس کی آنکھوں میں تفکر کی ایک غائر لہر اُٹھی۔ تبھی اُس نے پھرتی سے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک مڑا تڑا سا سو کا نوٹ نکالا، اُسے کچھ سیدھا کیا اوراحتیاط سے اُس کی کھلی ہوئی ہتھیلی کے درمیان رکھا اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے، آگے گلی کے اندھیرے میں گم ہو گیا۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*