آنسووْں سے بنے

آنسووْں سے بنے ہوےْ ہم لوگ
ٹھیس لگ جائے تو ندی کی طرح
پہروں بہتے ہیں اپنی آنکھوں میں !۔

کوئی چھیڑے تو کچھ نہیں کہتے
صورتِ گل ہوا سے کیا شکوہ
شام کی آنچ سے الجھنا کیا
ہاں مگر سانس میں کوئی لرزش
مدتوں ساتھ ساتھ رہتی ہے !۔

کس کو بتلائیں کس قدر نوحے
رنج میں کس قدر بسے نغمے
گیت ملنے کے اور بچھڑنے کے
کتنے کردار اک کہانی کے
اپنے احساس میں سسکتے ہیں !۔
جن کو یہ لوگ سوچتے بھی نہیں
ایسے رشتوں کو ہم پروتے ہیں
ابر کی طرح سائے کی چادر
سب کی روحوں پہ ڈال دیتے ہیں
اور ساری تھکن عذابوں کی
ایک بارش میں ڈھال لیتے ہیں !۔

خود سلگتے ہیں’ کچھ نہیں کہتے
خود سسکتے ہیں’ کچھ نہیں کہتے
صورتِ گل ہوا سے کیا شکوہ
شام کی آنچ سے الجھنا کیا
آنسووْں سے بنے ہوئے ہم لوگ!۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*