غزل

کسی بھی شخص کے شانے پہ بار ِ غیب نہیں

لگی ہے بھیڑ انا کی، قطار ِغیب نہیں

نظر کے سامنے کم ہے زیادہ اوجھل ہے

حسابِ ہست ہے ممکن، شمار ِغیب نہیں

ہماری روح کی کیسے ہو آب یاری، یہاں

پناہِ نفس میسّر، جوار ِ غیب نہیں

ہمیں اجل جو بلاتی ہے وقتِ شام، اِسے

صدائے خاک سمجھیے، پکار ِغیب نہیں

خدا خفا ہے زمیں سے، زمین والوں سے

یہ وہم ِ قلب ِ بشر ہے، غبار ِ غیب نہیں

ملی تھی ہم کو جو دنیا بہ اسم ِموسیقی

ہے اس پہ صور مسلط، ستارِ غیب نہیں

یہ لفظ مان لو غائب کا استعارہ ہے

یہ کہکشائیں، فلک اور ستارے غیب نہیں

چہار سمت سے مجھ پر ہے نور کی بارش

میں مرکزے میں ہوں اسود، کنارِ غیب نہیں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*