کتاب:۔ جدلی و تاریخی مادیت کے اصول

نشوو نما،متضاد عناصر کے تصادم کا نام ہے!۔

صفحات: 104

قیمت:200 روپے

مبصر:عابدہ رحمان

سی آر اسلم صاحب کی یہ کتاب ان کی کتاب’علم المعیشت‘ کی طرح ہی مشکل ہے اور اتنی ہی اہم، یا پھر مشکل تو نہیں لیکن شاید مجھ جیسے بندے کے لیے تھوڑا غور و خوض مانگتی ہے جو کبھی معاشیات کا طالب علم نہ رہاہو۔ لیکن ان کی کتابیں اگر سمجھ جائیں تو انسانی ذہن کے بند در وا ہو جاتے ہیں۔کتاب کے ٹائٹل ”جدلی و تاریخی مادیت اور اس کے اصولوں“ سے پہلے اپنے پہلے مختصر باب میں وہ مادہ، شعور کا مادے اور فکر کا زندگی سے تعلق کے بارے میں بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے ارد گرد تمام جمادات و نباتات اور اشیا مادے کا نتیجہ ہیں۔ مادے کا وجود حرکت سے ہے اور دراصل حرکت ہی مادے کے ہونے کا ثبوت ہے۔”انسانی شعور بھی مادے کے طویل ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے“ یہ بات مجھے اس کتاب ہی سے پتہ چلی۔

وہ انسانی محنت کو انسانی شعور کا محرک ٹھہراتے ہیں۔کہتے ہیں کہ جب ذرائع پیداوار بڑھے تو ایک دوسرے سے رابطے کے لیے زبان وجود میں آئی اور اسی طرح اسی ضرورت کے تحت نت نئے الفاظ نے جنم لیا۔اور یوں وقت کے ساتھ ساتھ ترقی پسندی وجود میں آئی۔ یعنی اگر مادہ سماجی ترقی میں مددگار ہوتو ترقی پسند اور اگر ترقی میں رکاوٹ بنے تو رجعت پسندی۔ سی آر اسلم صاحب کتاب میں دنیا کے آغاز سے لے کر اب تک کی ہر چیز اور ہر ترقی کو یہاں تک کہ انسان کی موجودہ صورت کو بھی ارتقائی عمل کا نتیجہ کہتے ہیں۔

کتاب کے دوسرے باب جدلیت کے مباحثے میں کہتے ہیں، عہدِ قدیم میں دو اشیا یا دو افکار کا تضاد ظاہر کر کے اس پر بحث و مباحثہ کر کے حقیقت تک پہنچا جاتاتھا اور یوں جدلیت ہی کو حقیقت تک پہنچنے کا بہترین ذریعہ کہاگیا۔انھوں نے بہت آسانی کے ساتھ قاری کو یہ سمجھایا کہ کائنات میں تمام اشیا ئے فطرت محض ایک اکٹھ یا اجتماع نہیں،نہ یہ سب اتفاقی ہے اور نہ یہ سکون اور تغیر کی حالت میں ہیں بلکہ ایک دوسرے سے مربوط اور Connected ہیں۔ یہ مسلسل ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں اور تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ آسان الفاظ میں وہ بتاتے ہیں کہ یہ جوہڑ نہیں بلکہ بہتا پانی ہے اور بہتا پانی کبھی یکساں نہیں رہتا بلکہ کچھ شامل اور کچھ ختم ہوتا رہتا ہے اس میں۔

ہمارے ارد گرد سب کچھ موجود ہے۔ دنیا کو بنے صدیاں گزر گئیں۔ ہم سب کچھ دیکھتے ہیں محسوس کرتے ہیں لیکن کبھی اس سب پر غور نہیں کیا۔تب ہی جب میں سی آر اسلم صاحب کی کتاب پڑھ رہی تھی تو اکثر جگہوں پر مجھے محسوس ہوا کہ یہ تو مجھے پتہ تھا، کبھی غور ہی نہیں کیا۔ مثلاً ایک اور بات جو میں نے اس کتاب میں پڑھی اور جس پر پہلے کبھی غور نہیں کیا تھا، وہ یہ کہ ”نشو نما متضاد عناصر کا نام ہے“۔ یعنی کسی بھی دو اشیا یا انسانی نشوونما کو ہی لے لیں کہ مختلف چیزیں آپس میں کشمکش کا شکار ہوں گی، اس میں کچھ چیزیں زائل ہوں گی، کچھ نیا بنے گا اور نتیجے میں نشوونما ہوگی۔اسی طرح اس باب میں عینیت اور مادیت کا فرق پتہ چلا کہ عینیت صرف ذہن کو مستقل وجود گردانتی ہے، فطرت وغیرہ کو ذہن میں خیال کہتی ہے جبکہ مادیت کہتی ہے کہ مادہ، فطرت بھی اپنا مستقل وجود رکھتا ہے۔

آگے وہ ہر دو متضاد کی باہمی کشمکش میں نشوونما یا دوسرے الفاظ میں اسے ترقی کہتے ہیں۔جیسے،سرمایہ دار اور مزدور، جاگیردار اور کسان، غلام اور آقا۔اور اسے سمجھانے کے لیے انھوں نے مقناطیس کی مثال دی جس کے دونوں سرے ایک دوسرے کے ساتھ متحد لیکن الگ ہوتے ہیں۔مطلب یہ ہوا کہ انسانی سماج کی ترقی و تبدیلی طبقاتی جدو جہد میں ہے جس کا حل جمہوری انقلاب ہے۔ سرمایہ داری نظام میں انھوں نے سرمایہ داروں اور مزدوروں کے بیچ تضادات کو واضح کیا ہے۔ مزدور اجرت میں اضافہ چاہتا ہے اور سرمایہ دار منافع زیادہ کمانا چاہتا ہے۔اسی طرح مزدور کام کے گھنٹوں میں کمی جبکہ سرمایہ دار اسے بڑھانا چاہتا ہے۔

دوسری بات جو وہ بتاتے ہیں،وہ یہ کہ نظام ِ پیداوار میں ذرائع پیداوار کی ملکیت نجی جبکہ پیداواری عمل اجتماعی ہے۔سی آر اسلم صاحب نے مافیہ اور ہیئت کا فرق بھی بتایا۔جوہر اور مظہر کا فرق بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ لینن نے سامراج کا جوہر اجارہ دار یعنی رجعت پسند کو کہہ کر اس کے خلاف انقلاب کا راستہ اپنایا۔سبب اور نتیجہ کہ خشک سالی تو قحط سالی اسی طرح مزدور کی قوتِ محنت ہوگی تو پیداوار ہوگی۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی سماج میں ترقی پسندوں کی کامیابی بھی ہو سکتی ہے اور رجعت پسندوں کی بھی لیکن یہ بھی ہے کہ رجعت پسندوں کی کامیابی وقتی ہوگی جس کے لیے ضروری ہے کہ علم کے ساتھ عمل کیا جائے۔جیسا کہ مارکسزم خود پرولتاریہ کے انقلابی عمل کا نتیجہ ہے۔

ایک اور باب ’تاریخی ضرورت اور آزادی‘ میں جبر و اختیا ر کے مسئلے پر بحث کی گئی ہے۔’سماج کی بنیاد اور سماجی ڈھانچے‘میں سی آر اسلم صاحب فاقہ کشی کا سبب آبادی سے نہیں بلکہ سرمایہ کو گردانتے ہیں۔وہ کہتے ہیں، نجی ملکیت طبقات کو جنم دیتی ہے جبکہ عوامی ملکیت غیرطبقاتی سماج کو اور ذرائع پیداوار پر نجی ملکیت ختم کیے بنا غیر طبقاتی سماج وجود میں آنا نا ممکن ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ہمیشہ نیا ڈھانچہ پرانے ڈھانچے سے مثبت پوائنٹس لے گا۔وہ سماجی ترقی کی فیصلہ کن قوت عوام کو کہتے ہیں کہ مزدور، محنت کش، بھٹہ مزدور، ماہی گیر وغیرہ نے ہی ہمیشہ تحریکیں چلائیں اور انھی کی جدوجہد انقلاب کی اصل محرک ہیں۔ اور یہ جدو جہد معاشی، سیاسی اور نظریاتی ہے۔ان تحریکوں کے لیے ضروری ہے کہ ان محنت کشوں کو اکٹھا کیا جائے جس کی سب اچھی صورت مارکسی پارٹی ہے۔

”ریاست کیا ہے؟“ میں انھوں نے بتایا کہ طبقات دراصل غلامی کے سماج کی صورت میں رونما ہوئے اور قومیں سرمایہ داری سماج میں پیدا ہوئیں۔ جب پیداواری ذرائع بڑھنے لگے تو اشتراکی سماج ٹوٹا اور نجی ملکیت کے ساتھ طبقات پیدا ہوئے اور یہی طبقات باہمی تصادم میں پڑ گئے جس نے ریاست کی بنیاد ڈالی تاکہ سرمایہ دار کی بالا دستی قائم ہو سکے۔

آخر میں سی آر اسلم صاحب نے انقلاب اور اس کے برپا ہونے کے بارے میں کہا کہ ”سماج کی مادی پیداواری قوتیں اپنی نشو نما کے ایک خاص مرحلے پر اس وقت موجود پیداواری رشتوں کے ساتھ جن کے اندر رہ کر اب تک وہ کام کرتی رہی ہیں، متصادم ہونے لگتی ہیں اور یہ رشتے ان پیداواری قوتوں میں مددگار ثابت ہونے کی بجائے ان کے پاؤں کی زنجیریں بن جاتے ہیں،تب سماجی انقلاب کا دور شروع ہوتا ہے“۔اور اس میں کسان اور محنت کش انقلاب لانے والے طبقات ہیں جبکہ مزدور ان کا رہنما طبقہ ہے۔

سماجی شعور یا آئڈیالوجی یا یوں کہہ لیں کہ نظریہ کسی بھی سیاسی نظام سے وجود میں آتا ہے جو خود پیداواری قوتوں اور پیداواری رشتوں کا نتیجہ ہے اور یہ سب معاشی نظام کانتیجہ ہے۔

مادہ، انسانی شعور، پیداواری قوت، پیداواری ذرائع، زبان، اشیا کا ایک دوسرے تعلق ربط، طبقات، ریاست،ایک دوسرے کے ساتھ کشمکش، نتیجے میں نشو نما، ترقی پسند اور رجعت پسند سماج، مزدور تحریکیں،انقلاب کی جانب قدم اور پھر انقلاب …… یہ سب ایک تسلسل ہے انسانی تاریخ کا۔ اور یہ موضوع ہے اس کتاب ”جدلی و تاریخی مادیت کے اصول“ کا۔جسے پڑھ کر انسانی سماجی ارتقا کا پورا مفہوم سمجھ میں آجاتا ہے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*