میر چاکر کا مزار

ہمارا اگلا دن بھی اپنی جڑوں کی کھوج لگانے کا دن تھا۔ ہم چاکر کا مزار دیکھنا چاہتے تھے۔ ہماری نیم میزبان، ساہیوال کی رِند بلوچ محترمہ حنا جمشید چاکر کے بارے میں جاننے اور اپنا ماضی کریدنے کے سلسلے میں مجھ سے بھی زیادہ جذباتی تھی۔ اس کے خاوند نے اپنی کالی کار موٹر کے فرنٹ سیٹ پہ مجھے بٹھایا، خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی، اور یوں،سنگت زکریا خان اور حنا جمشید کی ہماری چوکڑی چاکر کے مقبرے کی سلامی کے لیے ستھ گڑھ (ست گرا) روانہ ہوگئی۔ راستہ بھر ہم ”مستقبل“ کے لوگ ”ماضی“ میں گم ہوچکے تھے۔ صیغہ ِ ماضی ہماری گفتگو پہ بھاری تھا۔ ہم نے مغل امپیریلزم پہ باتیں کیں۔ ہم نے ترکمن بیگوں کا وحشی پن کنگھالا۔ بلوچوں کی خانہ جنگی کے نوحے گائے۔ چاکر کے فیوڈل دور پہ باتیں کیں۔ ہم اُس سب کو بلوچی قدیم شاعری سے مزین کرتے رہے۔

آس پاس پرانے گاؤں، بُرجیاں اورڈھیریاں تھیں جو کہ سب کا سب اُسی عہد سے متعلق تھیں۔۔۔ہم نصف ملینیم قبل کے زمانے میں تیرنے لگے۔ چاکر اور اس کا کزن گوۂرام فیوڈل اناکی تسکین کرتے ہوئے آپس میں لڑتے لڑتے سب کو برباد کر کے خود بھی برباد ہوئے۔ بے خانماں بلوچ اس زمان کے سپر پاور،ترکمن بیگوں کاکرائے کا قاتل بننے سے انکار کر گیا تھا۔ اور اس جرم میں اپنا وطن چھوڑ کے سندھ وہند کے سرحد پہ بے موت مرا،اور آدھا حصہ ستگرہ آکر ”وقار والی“زندگی گزارتا رہا۔(کسی زورآور کا کرائے کا سپاہی نہ بننا تو قہر کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ مگراُن کے اِس عمل سے اُن کی بعد کی نسلوں کے ضمیر اور روح بہت اعتماد اور فخر پالیتے ہیں۔ سودا مہنگا نہیں)۔

بدقسمتی دیکھیے قوی چاکر جس کی پکار پہ چالیس ہزار کی فوج تیار ہوجاتی تھی، آج اس کا مقبرہ محکمہ اوقاف کے انڈر تھا۔لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ہمیں گائیڈ کرنے کوئی بھی نہیں تھا۔ سب کچھ مقدر کے حوالے۔ کھوکھلا پن، ڈینگ بازی کے ماہر، مگر کام،ڈیوٹی اور ڈلیوری صفر۔

چاکرِ اعظم کے مقبرے کے گرد مغل طرز کی کچی دیواریں تھیں۔کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔

ہمارے کلاسیک کے مطابق مغل بادشاہ ہمایوں کی مدد کرنے والے اس سردار کا 1565میں انتقال ہوگیا۔ خدمات کے اعتراف میں اکبر بادشاہ نے ستگھرہ کے اندر تاریخی قلعے میں مزار بنوایا۔ اب یہ حوادثِ زمانہ کی نذر ہو چلا ہے۔ چاروں طرف لوگوں نے گھر بنائے۔ لہذا اب قلعے کی ایک آدھ ”ٹُٹی بھجی “ دیوار کے علاوہ کچھ نہ بچا۔ اوقاف، مگر کیا اوقاف؟۔

گنبد کے اندر بھی ویرانی تھی۔ تین چار چھوٹی قبریں اور چاکر کا اپنا مقبرہ۔ لگتا تھا عرصے سے وہاں کوئی آیا گیا نہ تھا۔ نے چراغ، نہ گل، نہ پرِ پروانہ،نہ بلبل کی صدا۔ دل ماتم کدہ بن گیا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*