رقص درویش

سائنس کی دریافت کے مطابق نظامِ شمسی کے جو نو ستارے سورج کے گرد اپنے مقررہ مدار میں گھومتے ہیں اُن میں سے ایک ہماری زمین ہے۔ اِن نو میں سے چار اندروالے سیارے ہیں:

مرکری(رومنوں کے ہاں خداؤں کے پیغامبر کا نام ہے)،

وینس(محبت اور حسن کی دیوی)۔

ارتھ (زمین)اور

مارس(جنگ کا دیوتا)۔۔۔

یہ چٹانوں والے سیارے ہیں۔

بقیہ پانچ باہر والے سیارے ہیں:جو پیٹرقدیم دیوتاؤں کے بادشاہ زی ؔ یس کا نام، سیٹرن(ٹائم کا دیوتا۔ یورینس دیوتا کا بیٹا)، یورینس،(زی یس دیوتا کا دادا) نپچون (سمندر کا دیوتا)اور پلُوٹو (جرائم پیشہ طبقہ(انڈر ورلڈ) کا دیوتا)۔ یہ گیس والے سیارے ہیں۔

چار اندرونی چٹانی سیاروں میں سب سے بڑا سیارہ ہماری زمین ہے۔

دلچسپ بات ہے کہ سارے ستاروں (Plants)کو دیوتاؤں کے نام دیے گئے۔ اور ہفتے کے سارے دن، انہی (Plants)کے نام سے ہیں۔Saturday یعنی ہفتہsaturn(ٹائم کا دیوتا) پلانیٹ کے نام پر ہے۔Sundayاور Moonday سورج اور چاند پلانٹس کے نام ہیں،Tuesdayمارس پلے نٹس کے نام پر،Wednesday مرکری پلانیٹ کا دن ہے،Thursday جوپیٹر پلانیٹ کا دن ہے اور Fridayوینس کا دن ہے۔ آخر الذکر تینوں دن حملہ آور دیوتاؤں کے نام پر ہیں۔(1)۔

اور یہ سات کا ہندسہ مافوق الفطرت ہندسہ بن چکا ہے۔ سات آسماں، سات زمین، ساتویں آسمان پر ستارے جڑے ہیں، مسیحیت میں خدا کے آرام کا دن ساتواں ہے، سات کا ہندسہ خوش قسمت ہندسہ( (Lucky Seven ہوتا ہے ۔سر میں سات سوراخ ہیں، چاکر ست گھرا میں دفن ہے ، شہ مرید نے اپنے باپ کی ماری جوتی کو سات بار زیارت کیا، اونٹ سات جگہ سے حلال کیا جاتا ہے، مقدمہ سات جگہ تک لے جایا جا سکتا ہے۔(بلوچی ضرب المثل)،لکی سیون وغیرہ وغیرہ

ہم زمین والے، سورج سے ڈیڑھ سو ملین کلومیٹر کے فاصلے پر رہتے ہیں۔ اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ ہم سورج کے گرد ہمہ وقت طواف کی صورت ہوتے ہیں۔ ہمیں اس کے گرد ایک چکر پورا کرنے میں تقریباًساڑھے365دن لگتے ہیں۔ ان چکروں کے چکر میں ہم سورج سے اپنے لئے ضرورت کی حرارت اور روشنی لیتے ہیں۔ پانی تو ہمارے اپنے پاس موجود ہے۔

مگر ہم تو بہ یک وقت کرکٹ کی پھینکی گیند کی طرح خود اپنے گرد بھی گھومتے رہتے ہیں۔ اپنے ہی گرداِس”رقصِ درویش“ کے ایک چکر پورا کرنے میں ہمیں 24گھنٹے لگتے ہیں۔ جو حصہ سورج کے سامنے آئے گا، دن لائے گا اور جو حصہ پیچھے ہوگا وہاں رات ہوگی۔یہ الگ بات ہے کہ ہم روزمرہ گفتگو میں زمین کے گھومنے کی بات نہیں کرتے بلکہ سورج کے نکلنے ڈوبنے(روش ٹِک، روش ٹُب) کی بات کرتے ہیں۔مگر سائنس کو اِس کی کیا پرواہ کہ ہم کیا کہتے ہیں؟۔

آیئے ہم چکر کاٹنے کے نظریے کے مالک مولانا روم کا ایک اچھا ٹکڑا پڑھ لیں:

میں کھڑا ہوتا ہوں، اور میرا وجود

سَو وجود بن جاتے ہیں

وہ کہتے ہیں میں گھومتا ہوں تمہارے گرد

بکواس ہے، میں اپنے گرد گھومتا ہوں

مولانا کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ جس چیز کی تائید کررہا ہے وہ بات بھی صحیح ہے اور وہ جس بات کو مسترد کر رہا ہے وہ بھی درست ہے نکلے گا۔

مگر یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ انسان نے بہت آرام سے مان لیا کہ زمین ساکت نہیں ہے۔ ہم صدیوں تک اپنی پرانی بات اور نظریے پر ڈٹے رہے کہ زمین ساکن ہے،زمین مرکز ہے، زمین چپٹی ہے،اور سب کچھ یعنی سورج، چاند، ستارے اِسی کے غلام اور باندیاں ہیں اور اِسی کے گرد گھومتے ہیں۔ ذرا گیلیلو کو یاد کیجئے جسے آج سے پانچ سو سال قبل 1633میں چرچ والوں نے یہ بات کہنے پر سزا دی کہ ”زمین سورج کے گرد گھومتی ہے“۔چرچ والوں نے اعلان کیا:

”یہ نظریہ کہ زمین نہ تو دنیا کی مرکز ہے او رنہ یہ ساکت ہے بلکہ روزانہ کے حساب سے یہ گھومتی ہے، بکواس نظریہ ہے اور بالکل باطل ہے“۔

گیلیلیو کی کتابوں پر پابندی لگادی گئی۔ اُس کی جان بخشی اُس وقت ہوئی جب اُس نے اِن پادریوں کے سامنے اپنے نظریے سے تائب ہونے کا اعلان کردیا۔ دو سو سال تک اس کی کتابوں پر پابندی لگی رہی۔پادریوں نے اس کی کتابیں پڑھنے والوں پہ فتویٰ لگا دیا تھا کہ انہیں لا فانی ارواح کی ہیبت ناک سزا ملے گی۔

گیلیلو کی کتابوں پر1832میں پابندی ہٹی۔اور 1992میں جا کر چرچ نے مانا کہ ”گیلیلیو ٹھیک تھا اور چرچ باطل“ تھا۔ سال 2000میں پوپ جان پال نے چرچ کی طرف سے معافی مانگ لی۔(نصف ملینیم لگا، اور وہ بھی یورپ کو!)۔

ہماری زمین کا ستر فیصد حصہ سمندر ہے۔ بقیہ تیس فیصد پہ ہم رہتے ہیں۔ہماری زمین کو اگر گہرائی کی طرف کھودتے جائیں تو 35 کلومیٹر تک سخت خشک اور نسبتاً ہلکے وزن کا چٹانی غلاف(Crust)ہی ملے گا۔سارے درخت‘ جھاڑیاں‘ چرند پرند، درند،سمندر، پہاڑ، ہوااور انسان سب اسی غلاف پر قائم اور زندہ ہیں۔انسانی سرگرمیاں البتہ اب لامحدود وسعتوں تک پھیل گئی ہیں۔ اسی غلاف یعنی Crustنے تین ہزار کلومیٹر موٹے سیال چوغے Mantle کو ڈھانپ رکھا ہے جو کہ ٹھوس اور نیم ٹھوس مواد پر مشتمل ہے۔پھرMantle نامی پیاز کے اِس موٹے چھلکے کے نیچے سوا دو ہزار کلومیٹر موٹے پگھلے ہوئے چٹانی مواد کی تہہ ہے جسے باہر کا گُودہ(Outer Core)کہتے ہیں۔ اور اُس چھلکے کے اندر زمین کا مغز یعنی اندرونی گُودہ(Inner Core) ہے جو کہ لوہے اورnickle سے بنی ٹھوس گیند ہے۔

ریفرنسز

۔ کارل ساگاں۔Pale Blue Dot۔صفحہ99

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*