سائے کی کہانی

سوتی جاگتی رات کا کوئی پچھلا پہر تھا
چاند کا روشن چہرہ کھڑکی کے شیشوں پر جھکا ہوا تھا
نیند لرزتی پلکوں کی جھالر کے نیچے پھیل رہی تھی
خواب سرہانے اونگھ رہا تھا
آنے والا دن ہاتھوں میں
بادل، خوشبو، گیت لیے تیار کھڑا تھا
ایسے شانت سمے میں جانے کب اور کیسے
نرم ملائم بستر سے اک سایہ نکلا
روتا، چیختا، شور مچاتا
کُرلاتا اور بین اٹھاتا
اور پھر اُس نےدیکھتے دیکھتے
ساری نظموں کے دل چیرے خون بہایا
آس امید کے ورق اڑائے
پھول مسل کر کانچ کی کشتی فرش پہ توڑی
میز الٹ کر دیواروں سے سر ٹکرایا
ایک قیامت کا گریہ تھا
خوف کے مارے
خواب زمیں کی تہہ میں اترا
چاند نے گہری بدلی اوڑھی
نیند کھڑی کونے میں تھر تھر کانپ رہی تھی
ایک پہر یا ایک صدی تھی
جیسے تیسے وقت کٹا تھا
رات کی چادر چیر کے روشن اور چمکیلا دن نکلا تھا
دھیرے دھیرےنظمیں ڈھونڈیں، ورق سمیٹے،
پھول اٹھائے، کشتی جوڑی
خواب کو اک پاتال سے ڈھونڈ کے آنکھ میں رکھا
اور کونے میں دبکے، سہمے ہچکی بھرتے ،
ہارے ہوئے سائے کو پھر سے
اپنے جی کا میت بنایا

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*