ہفت روزہ عوامی جمہوریت کے 50 سال

۔19فروری 1972 کے ”عوامی جمہوریت“کے گلابی سرورق پہ سید مطّلبی فرید آبادی کی شاعری ہی کو ٹائٹل بنادیا گیا ہے۔ اور اُس کا پہلا شعر ہی زندگی اور زندگانی کی چابی ہے

نہ کوئی روک سکے گا یہ کاروانِ حیات

مثالِ برق، رواں ہے یہ زندگی کی برات

یہ شعر ہم نے کورونا وبا کے دوران سوشل میڈیا پہ شیئر کی تھی جب تین لاکھ انسان لقمہ ِ اجل بن چکے تھے، لوگ ڈھائی ماہ سے آئی سولیشن میں گھروں کے اندر بند تھے۔ ناامیدی، چڑچڑا پن، بے حوصلگی، بے ثباتی عروج پہ تھی۔ کوئی سرکار نہ تھی سہارا دینے، ریاست نہ تھی تسلی دینے۔ عوام الناس کو ننگی تقدیر پہ چھوڑ دیا گیا تھا۔ بلکہ الٹا لاک ڈاؤن کھول کر انسانوں کو وائرس کے اربوں کھربوں غولوں کے سامنے پھینک دیا گیا۔

دو ڈھائی ماہ سے روزگار اور مزدوری بند، تصور کیا جاسکتا ہے کہ روز و شب کس قدراجیرن بن چکے ہوں گے۔ ایسے میں انسانوں کو ہمت دلانے کا کام سنبھالنا ہوتا ہے۔ ایسی تقریری، تحریریں، فقرے، اشعار اور مقولوں کی بے چین ضرورت پڑتی ہے۔ ایسے انسان ایسے وسائل زندگیوں کے منشور ہوتے ہیں۔ لوگوں کو بتانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ انسان لاکھوں سالوں سے مائیکروب سے لڑتا رہا ہے۔ اور لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں مرتے رہنے کے باوجود انسان زندہ ہے، زندگی زندہ ہے۔ اور یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ ایسی وباؤں میں جن لوگوں نے انسان کی عظمت کے ترانے گائے انہیں فراموش نہ کیا جائے۔ زندگی کے ساتھی انسانوں کو اپنے من کے سکلپچر گاہ میں سجائے رکھنا پاک انسانوں کی روایت ہے۔

یہ شمارہ 19 سے 26فروری 1972کا ہے۔اور 19فروری1972ہی کو پاکستان کے مزدوروں کسانوں کی پارٹی پاکستان سوشلسٹ پارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس لیے اخبار نے ”دویاد گار دن“ کے عنوان سے اس پارٹی کے قیام، پروگرام ومنشور، قرار دوں اور عہدیداروں کے انتخاب کو بھر پور کوریج دی۔ ”اس اجتماع میں مبصرین کے علاوہ 400مندوبین نے دوروز تک جس انہماک سے پارٹی کے منشور آئین اور پروگرام سے متعلق مباحث میں حصہ لیا۔ ترمیمیں پیش کر کے فیصلے کیے اس سے بالکل واضح ہوگیا کہ یہ میٹنگ شخصیتوں کے بل پر مجمع لگانے والوں کا تماشہ نہ تھی بلکہ ساٹنٹفک سوشلسٹ نظریات کے مفکروں طالب علموں اور محنت کش عوام، کسانوں مزدوروں اور ان دانشور راہنماؤں کا اجتماع تھا جو مارکسی سائنس اور عالمی مزدور تحریک کی روشنی میں پاکستان کی صورت حال اور مسائل کا جائزہ لینے، پاکستان میں تحریک کو منظم کرنے اور آگے بڑھانے کے لیے ہزاروں میل کی وسعت سے سمٹ کر ایک اجتماع مرکز کی تخلیق کا تاریخی فریضہ انجام دے رہے تھے“۔(صفحہ نمبر2)

کانفرنس سے خطاب کرنے والوں میں عبدالرحیم مندوخیل شامل تھا (صفحہ15)۔

شمارے اس پارٹی کے کنوینر (پھر، الیکشن کے نتیجے میں صدر) کی طرف سے پیش کردہ اور کانگریس کی طرف سے منظور کردہ رپورٹ بھی شائع کی گئی ہے۔ دراصل کنوینر اس لیے کہ ایک سال قبل فیصلہ ہوا تھا کہ ایک سال کے اندر اندر کنونشن بلا کر پارٹی کے منشور آئین اور سیاسی رپورٹ کی منظوری لی جائے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ محنت کشوں کی تحریک اور جدوجہد کی اصل قوتِ متحرکہ تاریخ کے تقاضوں کے مطابق اور پہلو بہ پہلو اجتماعی ہم آہنگی ہے۔ شخصیتوں کی اس سے علیحدہ کوئی حیثیت نہیں ہے۔ پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے پہلے رکاوٹ شخصیت پرستی کی لعنت ہے۔ آزادی سے قبل اس خطے میں یہ وبا زندہ اور مردہ پیروں کی پرستش کی صورت میں رہی ہے اور آزادی کے بعد سے آج تک رجعتی طبقات کے ترجمان دانشور اور چالاک سیاستدان اس حربے کو طرح طرح سے استعمال کرتے رہے ہیں۔ اور کوشش کی جاتی رہی ہے کہ شخصیت پرستی کی لعنتی پرچھائیں ترقی پسندوں پر ڈال کر عملاً انہیں رجعت پسندوں کی گود میں ڈال دیا جائے۔ اس لیے سوشلسٹ پارٹی کی طرف سے شخصیت پرستی کے خلاف انتباہ وقت کا تقاضا ہے۔(صفحہ15)۔

اس رپورٹ میں وہ پس منظر دیا گیا جس کے تحت نیشنل عوامی پارٹی کا بنگال بازو الگ ہوگیا تھا۔ اس لیے مغربی پاکستان کے پارٹی ورکروں نے اپنا لائحہ عمل طے کرتے کرتے پورا سال سوا سال لگا کر بالآخر سوشلسٹ پارٹی قائم کی۔

یہ رپورٹ سمجھے ایک تخلیقی دستاویز تھی۔

رپورٹ کی چند سرخیاں یہ تھیں۔: انتشار کی ناکام کوشش۔ ترقی پسند تحریک اور شخصیات، پس منظر،ایک سوال، مارشل لا کی حمایت؟، پاکستان سوشلسٹ پارٹی کیوں؟،دانشوروں کی موقع پرستی، ایک نظریاتی سوال، سامراجیت کی پسپائی، پاکستان کے المیہ کا جائزہ۔

سیاسی قرارداد

بلاچون وچرا مغربی پاکستان کے تمام علاقوں کو خود مختاری دے دی جائے مارشل لا اٹھایاجائے اور مرکز اور صوبوں میں ذمہ دارحکومتیں قائم کی جائیں۔ جاگیرداری زرعی نظام 50ایکڑ حد ملکیت مقرر کر کے اس طرح ختم کیا جائے کہ 50ایکڑ سے زائد تمام زمین بلامعاوضہ بڑے مالکان سے لے کر غیر مالک کسانوں ہاریوں اور چھوٹے مالک کا شتکاروں میں مفت تقسیم کی جائے۔ پاکستان کی معاشی زندگی پر مسلط سامراجی سرمایہ اور بھاری صنعتوں، بنکوں اور بیمہ کمپنیوں کو قومی ملکیت بنایا جائے۔

اسی رپورٹ میں اُس زمانے کے اہم ترین نظریاتی معاملات پہ بھی مزدوروں کی سیاسی پارٹی کی اپنی پوزیشن تفصیل سے بیان کی گئی۔ اسی طرح ”پارٹی کے ماس فرنٹس“ کی صورت حال اور اُن سے متعلق فکری ابہام دور کرنے کی کوشش کی گئی۔ 28رکنی مرکزی کمیٹی بنی، اور چھ رکنی سیکریٹریٹ۔

اسی شمارے میں کنونشن کی منظور کردہ قراردادیں ہیں اور پارٹی کا منشور موجود ہے، پروگرام اور آئین دیا گیا ہے۔

یوں جہازی سائز کے اخبارکے پورے 16صفحات پہ مشتمل شمارہ سارے کا سارا پاکستان سوشلسٹ پارٹی کی کنونشن کا گویا خصوصی شمارہ تھا۔ فکری الجھاؤ سے آزاد بہت واضح سوچ بکھیرتا یہ شمارہ دراصل اگلی نصف صدی تک راہنما شمارہ تصور ہونا چاہیے۔ اس میں اس ملک میں انقلابی پارٹی کی تاریخ بیان کی گئی۔ بہت ہنر کاری اور باریک بینی کے ساتھ سماج کا طبقاتی تجزیہ کیا گیا اور انقلابی طبقات کی نشاندہی کی گئی۔

یہ دوروزہ کنونشن تھا اور 400مندوبین نے اس میں مغال اور سرگرم شرکت کی۔ کنونشن وائی ایم سی اے لاہور میں منعقد ہوا تھا

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*