حیات بلوچ

پیری میں لُٹ گئی عمر بھر کی کمائی
خاک میں مل گئیں اُمیدیں لہو ہو کر
وہ علم کا سودا ئی تھا
خواب تھے آ نکھوں میں
بھروسہ تھا قوت بازو پر
آ خری لمحوں تک درانتی
ہاتھوں میں تھی
اپنی محنت پر ناز تھا جس کو
وہ شہر یار مارا گیا بے خطا
حیات جُرم ہوئی بےگُناہی سزا ہوئی
لہو کے سمندر میں معصومیت غرق ہوئی
زندگی شرمسار ہے موت بھی نوحہ کُناں
ایک آ فتاب گہنا گیا زمیں کی گود میں
دیدہ ورو تکتے ہو کیا قیامت کی گھڑی ہے
لب کھولو میدان حشر میں کھڑےہو
خُدا یا رحم حرماں نصیبوں پر
بہت ہو چُکا انصاف کی گھڑی ہے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*