ذرا سی حرارت ملے تو۔۔۔۔

ذرا سی حرارت ملے تو
چمکتا ہوا دھوپ کا ایک ٹکڑا بنائوں
ٹھٹھرتی فضائوں کی
یخ بستہ آنکھوں میں کرنیں کھلائوں
بہت منجمد آسمانوں کو چھوتی ہوئی
چوٹیوں پر کھنکتے ، سبک ، مست جھرنے دھروں
اور تخیل کے بیکار،ساکت پرندوں کو اڑنا سکھائوں
ذرا سی محبت ملے تو
سیہ بخت، بےدرد، سفاک ، پتھر دلوں کی جگہ
پھول رکھ دوں
میں نفرت کی اونچی چٹانوں کو پگھلا کے
ننھے گھروندے بنائوں
اَنا کے علم توڑ دوں ، سرحدوں کو گرائوں
میں اجلی ہوائوں میں براق پر فاختائیں اڑائوں
ذرا سی سہولت ملے تو
فسردہ نگاہوں میں جگنو بھروں
گرد رستوں پہ کلکاریوں، ننھے قدموں کی حیرانیوں کو بچھائوں
میں سہمی گھٹائوں پہ گیتوں کے چہرے سجائوں
ذرا سی اجازت ملے تو
یہ تیرا جہاں
پھر مٹا کربنائوں۔۔۔۔

ماہنامہ سنگت

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*