عورت ورکنگ کلاس کی ایک ممبر کے بطور

آئیے ہم محنت کرنے والی عورت کے حالات کا مطالعہ کریں۔ ہم کسان عورت سے شروع کرتے ہیں ۔ اُسے کھیت کے سارے بھاری کاموں سے نمٹنا پڑتا ہے ، رات دن بغیر کسی توقف کے کٹائی کے زمانے میں بھی اور ہل چلانے کے وقت بھی وہ مرد کے ساتھ ساتھ کام کرتی ہے ۔ اُس کے علاوہ انہیں پولٹری اور جانوروں کی دیکھ بحال کرنی ہوتا ہے ،چھوٹے موٹے گھر یلو کام کرنے ہوتے ہیں، کپڑے بنا نے ہوتے ہیں اور بچوں کی دیکھ بحال کرنی ہوتی ہے ۔ دراصل اُن کاموں کی فہرست بنانا ناممکن ہے جو کسان عورت کو کرنے ہوتے ہیں۔
غریب خاندان میں عورت کے لیے زندگی بالخصوص دشوار ہوتی ہے ۔ بھاری مشقت کے علاوہ اس کے لیے بے رحم دکھ ہیں ، پریشانیاں ہیں ، بے عزتیاں ہیں اور غم ہیں۔ اسی دوران گاؤں کی تباہی حالیہ سالوں میں بڑھی ہے ۔ چند گھرانے نسبتاً خوشحال ہیں اور اکثریت ایک یا دوسرے طور پر مفلس وکنگال ہیں۔ حتی کہ وہ جو درمیان میں تھے وہ بھی غریب ہورہے ہیں۔ لوگ سال بہ سال پستہ قد، کمزور تر اور جلد بوڑھے ہوتے جارہے ہیں۔ اُن گھرانوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جن کے پاس ایک بھی گھوڑا نہیں ہے یا جن کے پاس صرف ایک گھوڑا ہے ۔
آج روس میں کل دس ملین گھرانوں میں سے تقریباً تین ملین بغیر گھوڑوں کے گھر ہیں۔ اور محض ایک گھوڑا فی گھر انہ کی تعداد بھی تین ملین ہے۔ کیسا گھرانہ ہوگا جس کے پاس گھوڑا نہ ہویا صرف ایک گھوڑا ہو!۔ایک گھوڑے کے بغیر کوئی کھیت میں کس طرح کام کرسکتا ہے ؟۔ جس کھیت پہ اچھا کام نہ کیا ہوا ہو اور جس میں اچھی کھاد نہ دی گئی ہو تو اس کی پیداوار بہت کم ہوگی۔ایک بہت زیادہ ہل چلائی ہوئی اور تھک چکی زمین کسان اور اس کے خاندان کو نہیں پال سکتی۔ کسان کو خاندان کو پالنے کے لیے روٹی، اور ٹیکس ادا کرنے کے لیے پیسہ حاصل کرنا ہوتا ہے ۔ چنانچہ یہ کسان ،امیر کسان کا دیوالیہ مقروض بن جاتا ہے ۔اُسے اپنی محنت کے لیے دستاویزوں پر دستخط کرنے پہ مجبور کیا جاتا ہے جس کے تحت اپنے قرض کی ادائیگی تک اُسے مشقت کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ۔ ہاتھ پاؤں بندھے وہ اُس شخص کا ایک طرح کاکرایہ کامزدور بن جاتا ہے جس نے اُسے اناج یا پیسہ قرض دیا تھا۔ حقیقت میں وہ محض نام کا آزاد فرد رہ جاتا ہے اس لیے کہ وہ تو خود اپنا اور اپنی فیملی کا پیٹ پالنے کے لیے دوسروں کے لیے کرایہ کا مزدور بن جاتا ہے ۔ اور اس کی زندگی کرائے کے مزدور سے بہتر نہیں ہوتی ۔ وہ سو کھی روٹی کھاتا ہے اور وہ بھی پیٹ بھر کر نہیں۔ مسلسل کم خوراکی اُس کی توانائی نچوڑ لیتی ہے اور تقریباً ہمیشہ خاندان ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ خاندان کے افراد معاوضہ والے کام کی تلاش میں بکھر جاتے ہیں۔ کچھ علاقوں میں تو تقریباً ہر سال غریب کسانوں کے خاندان کا ایک حصہ کام کے لیے بکھرجاتا ہے ۔ خاندان عموماً گرم نہ کردہ جھونپڑیوں میں نیم تاریکی میں رہتا ہے ۔ مصیبت کے وقت کے لیے کچھ بھی پیسہ الگ نہیں رکھا جاتا اور لوگ محض روز کا گزارہ کرتے ہیں اس لیے ہر چھوٹی فصل کی ناکامی بھوک اور تباہی ساتھ لاتی ہے۔
گذشتہ سو سالوں میں روسی عوام 51بار قحط میں مبتلاہوئے ۔ یعنی ہر دو سال سے بھی کم عرصے میں ایک ناکام فصل ۔ بھوک زندگی کی ایک نارمل صورت ٹھہر تی ہے ۔ حالیہ دہائیوں کی بھوک مکمل تباہی ،سکروی، بھوک والی بیماریوں اور نتیجے میں اموات کی ہولناکی سے واضح ہے جو کہ وہ غریب کسانوں کے لیے لاتی ہے۔
لاکھوں لوگ فاقہ کرتے ہیں ۔اور ایسے غربت زدہ خاندانوں میں کسان عورت کی زندگی بیان کی حد سے بھی گری ہوتی ہے ۔ وہ ، بالکل اپنے خاوند کی طرح ایک چھوٹی سی کاشت کردہ زمین کے ٹکڑے پر گرد، گارے اور سردی سے لڑتی ہے ، ایک قریبی جاگیردار یا اُس کے ساتھی خوشحال کسان کے لیے خود کو کام کے لیے وقف کرتی ہے ، ٹیکسوں اور دیگر بقایا جات کی ادائیگی کے لیے ایک اضافی آنے ٹکے کے حصول کے لیے جدوجہد کرتی ہے ، بھوکی رہتی ہے ، بھوک سے بیمار پڑ جاتی ہے ، اپنے بچوں کی دیکھ بحال کرتی ہے اور بلا تھکاوٹ کام کرتی رہتی ہے ۔ اس کا شوہر بھی یہی کچھ کرتا ہے ۔ عورت ساتھ ساتھ’’ دن مزدور ‘‘کے بطور کسی بھی آمدنی کا خیر مقدم کرتی ہے اور کام کی تلاش میں دوسرے علاقوں تک پیدل جاتی ہے ۔
اُن علاقوں سے جہاں زمین کے قطعات بہت چھوٹے ہیں اورجہاں زمین اچھی نہیں، ہر موسم بہار میں ہزار وں مزدور، بشمول تقریباً نصف کے جو غیرشادی شدہ عورتیں اور بچیاں ہیں، جنوبی روس ،یوکرین ،کریمیا اور کا کیشیا چلی جاتی ہیں۔ وہ پیدل جاتی ہیں ، صرف اور صرف بھیک میں ملے پر گزارہ کرتی ہیں ، قصبہ در قصبہ چلتی رہتی ہیں جب تک کہ انہیں کام مل جائے ۔ جو لوگ انہیں کرائے پرلیتے ہیں رضا مندی سے کچھ نہیں دیتے اور روز گار ڈھونڈھنے والیوں کی بے سہارگی کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اُن سب میں سے نوجوان عورتوں کا کام سب سے سخت ہوتا ہے۔ کبھی کبھی اخباروں میں عدالتی شنوائی کے نوٹس نظر آتے ہیں جن میں اُن حالات کی تفصیل ہوتی ہے جن میں یہ نوجوان عورتیں روزگار کی تلاش کے دوران خود کو پاتی ہیں ۔
زیادہ تر صوبوں میں گاؤں نہ صرف کا شتکاری میں مصروف ہوتے ہیں بلکہ اُس کام میں بھی، جسے کاٹیج انڈسٹری کہتے ہیں۔ وہ گھر میں ہاتھ والے کام کرتے ہیں اور پیداوار کا بڑا حصہ ایک درمیان والے خریدار آدمی کو بیچاجاتا ہے۔ کاٹیج انڈسٹریز مختلف ہیں:کپڑا بُننے، ٹوپیاں بنانے، کڑھائی کرنے، ٹیننگ، برتن بنانے ،لیمپ بنانے،چاقو چھری بنانے،میخ اور کیل بنانے، سما وار،ریڑھی کا پہیہ بنانے ، چمچہ اور مورتیاں بنانے، تالہ سازی اور بہت سے ۔ایک خاص صنعت کے ساتھ، عورتوں اور بچوں کے ساتھ ایک دستکارکے پورے خاندان کی شمولیت عمومی بات ہے ۔بچے پانچ سے آٹھ سال کی عمر سے کام شروع کرتے ہیں۔ خصوصی’’ عورت انڈسٹریز ‘‘بھی ہیں جیسے کہ فیتے اور تسمے بنانا اور کپڑے جھالرسلائی ۔ عورتیں عموماً بہت بھاری کام کرتی ہیں جیسے کہ چکنی مٹی گو ندھنا ،پشم کو کوٹنا ،میخیں بنانا اور لوہار کی دکانوں میں کبھی کبھی ہتھوڑا مارنے والیاں وغیرہ وغیرہ ۔ کاٹیج انڈسٹری کمائیاں کم قدر ہوتی ہیں۔ اس لیے، موچی چار یا پانچ روبل ماہانہ کمالیتے ہیں اور اپنیخوراک خود کمالیتے ہیں ۔کلوگا ضلع میں مدین کے علاقے کیکپڑے بننے والیاں اور ماسکو صوبہ میں فیتے اور تسمے بنانے والیاں روزانہ دس کو پیک بنالیتی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ ۔ کام 16سے 19گھنٹے روز تک کا ہوتاہے۔ کاٹیج انڈسٹری کی تصویر میں سے کچھ حاصل کرنے کے لیے آئیے چٹائی ‘یاد،ری کی پیداوار کی مثال لیں اور چھال ریشے سے اکثریت کسان پاپوش استر چھال کی مثال لیں جو کہ کالو گا، ویاٹکی ، کوسٹرو ما،نژنی نوگوروڈاور دوسرے علاقوں میں وسیع پیمانے پر ہوتا ہے۔ کام 18گھنٹے یومیہ تک جاری رہتاہے اور پورا خاندان اس میں شامل ہوتا ہے۔
بچے پانچ برس کی عمر میں استر چھال چننا شروع کرتے ہیں ، اور آٹھ سال کی عمر میں بڑوں والے کام کرنے لگ جاتے ہیں ۔موسم سرما چھ ماہ تک چلتا ہے ، جس دوران چار کا ایک گروپ20سے 25روبل تک کما لیتا ہے ۔ موسم بہار آتے آتے مزدور اس قدر کمزور ہوجاتے ہیں کہ وہ شرابیوں کی طرح ڈگمگا کر چلتے ہیں۔ پاولوف گاؤں سے گھر یلو کام کرنے والی،تالا بنانے والے کی حالت افسوس ناک اور تذلیل بھری ہے جو کہ خریدار سے قرض دینے والے کے پیچھے بھاگتی ہیں اور پھر واپس آتی ہیں ۔یہ حالت پاولوف گاؤں کے رسم ’’رہن رکھی جانے والی بیویاں‘‘کی بہترین عکاسی کرتی ہے ۔ حتیٰ کہ عام کام کرنے سے، ایک پوری فیملی اس قدر نہیں کماتی کہ ایک سوموار مارکیٹ ڈے سے دوسرے تک کا گزارہ ہوسکے اور سارا ہفتہ اضافی کام تلاش کرنے میں خرچ کرنا پڑتا ہے ۔ لہذا ہر ہفتہ انہیں رہن رکھنا ہوتا ہے جو کچھ وہ کما چکی ہیں۔ مارکیٹ ڈے پر کاٹیج مزدوراپنے سامان کا ایک نمونہ لے کر ایک خریدار تک لے جاتا ہے اور جب ایک قیمت پر رضا مندی ہوتی ہے تو ایک خاص گھنٹہ تک سامان ڈیلیور کرنے کا وعدہ کرتا ہے مگر وہ سامان اس دوران قرض دینے والے کے رہن میں رہا ہے اور کسان اُس کے ساتھ معاملات نمٹا نے کے مالی وسائل نہیں رکھتا ، اس لیے کاٹیج ورکر اپنی بیوی کو دکان لاتا ہے ، سامان اٹھاتا ہے جس کا اس نے خریدار کے سٹور پہنچانے کا وعدہ کیا تھا اور اپنی بیوی کو اُس وقت تک ضمانت کے بطور وہاں چھوڑ دیتا ہے جب تک کہ وہ سامان کے پیسے حاصل کرتا ہے ۔ یہ ہے طریقہ جس میں مزدور اور اس کی بیوی کو آگے پیچھے ہر گزرتے سال کی تدبیر کرنے پر مجبور ہونا ہوتا ہے۔
ہرگزرتے سال کے ساتھ بڑھتی ہوئی غربت کسان کا ٹیج ورکر کو شہر کی طرف دھکیلتی ہے ۔ اپنے گھر میں اس کا کام فیکٹری میں اس کے کام سے ادل بدل کرتا ہے ۔ یہی ضرورت کسان عورت کو بھی شہر کی طرف ہانکتی ہے ۔ عورت کی محنت بہت سی ملوں میں بہت وسیع طور پر استعمال ہوتی ہے بالخصوص کاٹن سپننگ، اور پشم اور ریشم کی پراسینگ میں ۔ کاٹن ملوں میں تو عورتیں مردوں سے بھی زیادہ ہیں۔ دوسری طرف کچھ صنعتوں مثلاً سٹیل فاؤنڈریز میں عورتیں ہیں ہی نہیں۔
1890میں یورپی روس میں ملوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والی عورتوں کی تعداد تقریباً چوتھائی ملین تھی اور اُس وقت سے یہ تعداد کافی بڑھ چکی ہے ۔ جہاں جہاں عورتوں کی محنت عام ہوئی ، مثلاًکاٹن اور کاٹن فیبرک ملوں میں ، تو وہاں عورتوں کی اجرتیں ، مردوں سے کم ہیں۔ ایک ریسرچر نے حساب لگایا کہ اُن صنعتوں میں عورت مزدور کا معاوضہ مرد کے معاوضے کا 4/5حصہ ہے ۔ البتہ نوٹ کرنے کی بات ہے کہ اُن صنعتوں میں مردوں کو نسبتاً کم معاوضہ ملتا ہے اور اُس معاوضے پر گزارہ بہت مشکل ہوتا ہے۔
جہاں عورتیں شاذونادر موجود ہوتی ہیں وہاں اُن کی اجرت اس قدر کم ہوتی ہے کہ اُس اجرت پہ زندہ نہیں رہا جاسکتا۔ اس لیے عورتوں کی اجرت خاندان کی آمدنی میں محض معمولی سااضافہ کرتی ہے اور اگر عورت اکیلے رہ رہی ہے تو غربت نہ صرف اسے اپنی قوتِ محنت بیچنے پر مجبور کرتی ہے بلکہ خود کو بھی۔ عصمت فروشی ضروری اضافی آمدن مہیا کرتی ہے ۔ وہ ایک فیکٹری میں کام کرتی ہے تو عورت کے لیے کام کے وہی گھنٹے ہوتے ہیں جو مرد کے لیے ہوتے ہیں( دو جون کے ایک قانون کے مطابق یہ ساڑھے گیارہ گھنٹے ہیں ) ۔قانون عورتوں کے لیے ورکنگ ڈے کی طوالت کی کوئی حد مقرر نہیں کرتا۔ ہمارے فیکٹری قوانین کے مطابق عورتوں کی محنت سے متعلق محض ایک فرمان موجود ہے اور وہ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں رات کی محنت سے منع کرتا ہے ۔ اگر عورت سربراہِ خاندان کے اسی احاطے میں کام کرتی ہے یعنی باپ یا خاوند کے ، تب اُسے رات کو بھی محنت کرنے کی اجازت ہے ۔ وہ عموماًگنجان ، گرد آلود ، سخت گرم یا نمی والی عمارتوں میں تھکا دینے والے اور یکساں کام پہ محنت کرتی ہیں۔حد سے زیادہ غیر صحت مندانہ کام عورت کی صحت کو نقصان دیتا ہے ، اُتنا ہی نقصان جتنا کہ کم خوراکی اور خستہ مکانی پہنچاتی ہے۔ کھردری اور سخت خوراک ، جو کہ اُس وقت زیادہ آسانی کے ساتھ برداشت کی جاسکتی ہے جب کوئی کھلے میں جسمانی کام میں لگا ہوا ہو۔ فیکٹری مزدور کے کمزور شدہ جسم کے لیے نقصان دہ ہے ۔ بہ یک وقت عورتیں مرد کے مقابلے میں بھی بہت خراب خوراک کھاتی ہیں ۔ وہ یا توخود اپنی عورتوں کی خوراک تیار کرنے کے کواپریٹوبناتی ہیں، جہاں خوراک اُس سے بھی بری ہوتی ہے جو مردوں کو ملتی ہے ، اور اگر وہ مردوں کے کوآپریٹوگروپس میں داخل ہوں تو کم خرچ کرتی ہیں اور گوشت کھانا چھوڑ دیتی ہیں۔
ایک عورت کی اجرت مرد سے کم ہے اور وہ اپنی خوراک کم کرنے پر مجبور ہے۔ فیکٹری علاقوں میں رہائشی سہولت خراب ہے ،جو گندی اور حد سے زیادہ مہنگی ہے ۔ رات کو اتنے زیادہ لوگ ٹُھس جاتے تھے کہ کواٹرز کے مالکان کو اکثر پتہ نہیں ہوتا تھا کہ اُن کواٹرز میں کتنے لوگ رہ رہے ہیں ۔ بدبودم گھٹا دینے والی ہے ۔ مثال کے طور پر سینٹ پیٹر سبرگ کے فیکٹری علاقوں کے رہائشی کوارٹرز، نیوسکی ایونیو والوں سے زیادہ مہنگے ہیں۔ ایک بستر پردو کے رات کا کرایہ ایک روبل 25کوپیک سے 4روبل ماہانہ ہے ۔ یہ فیکٹری خواب گاہ سے بہتر نہیں ہے ۔ یہ حیرانگی کی بات نہیں ہے کہ ایسے حالات میں رہنے سے عورت فیکٹری مزدور ہر طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوتی ہے ۔ فیکٹری کے مضر حالات سے عورت مرد کے مقابلے میں زیادہ مبتلا ہوتی ہے اور فیکٹری ڈاکٹر نوٹ کرتے ہیں کہ عورت مزدور ،مردوں کے مقابلے میں بیمار بھی زیادہ پڑجاتی ہیں اور سیر یس بھی زیادہ ہوتی ہیں۔
مِل میں کام کرنے کے علاوہ عورت مزدور شہر میں درزن ،انگیا اور کلاہ ساز،اور گل فروشوں کے بطور کام کرتی ہیں۔ مگر اس طرح کی دستکاریوں سے آمدن حاصل کرنے کے لیے کسی کو چند سالوں تک کے لیے سیکھنا ہوتا ہے جس کے لیے ادائیگی کرنی پڑتی ہے ۔ اور لہذا یہ بہت سوں کی پہنچ سے باہر ہوتا ہے ۔ مزید برآں سیکھے ہوئے ہونے میں بھی آمدنی قلیل ہوتی ہے ۔ بہترین چیز بڑے ورکشاپ میں کام تلاش کرنا ہوتا ہے جو کہ دکانوں کو سپلائی کرتے ہوں ۔ مگر وہاں اجرتیں غیر معمولی طور پر کم ہوتی ہیں۔ کام کے گھنٹے مِل سے کسی صورت کم نہیں ہوتے۔ 1785کا ایک قانون ہے جس کے تحت شاگردوں کو صبح 6بجے کام شروع کرنا ہوتا ہے اور رات کے چھ بجے تک کام کرنا ہوتا ہے۔ جس میں ڈیڑھ گھنٹہ کھانے اور آدھ گھنٹہ ناشتے کا وقفہ ہوتا ہے۔اس طرح یہ کام کے دس گھنٹے بنتے ہیں۔ مگر وہ قانون بھی بس کاغذ پر ہوتا ہے اور اس پر کہیں بھی عمل نہیں ہوتا۔ ٹریننگ سکولوں پہ کوئی نگرانی نہیں ہوتی اور شاگردوں کی اکثریت نے اس قانون کا سنا بھی نہیں ہوتا ۔ صرف ملک کے مغربی حصے میں ، جہاں شاگرد زیادہ متحد ہیں اور ایک ساتھ عمل کرتے ہیں وہاں کچھ کیس ہوئے جہاں ہڑتالوں کے ذریعے مالکوں کو دس گھنٹے دن کے کام کے قانون پر عمل کرنے پہ مجبور کیا جاتا ہے ۔ عموماً البتہ،’’پِیک‘‘ سیزن میں سیکھنے کے سکولوں میں کام عملاً رات بھر چلتا رہتا ہے۔ ماہر دستکار ساڑھے گیارہ گھنٹے کام نہیں کرتا ۔ یہ ملز کے اندر قانون ہے ۔ مگر جب تک ان میں طاقت ہوتی ہے وہ بنچوں یا ننگے فرش پر نیند پوری کر لیتے ہیں۔ ’’پِیک سیزن‘‘ کے بعد لے آف (برطرفیوں) کا زمانہ آتا ہے جس کو ہنر مند عورت مزدوروں کو خواہ وہ چاہیں یا نہیں، جیب میں ٹکہ تک نہ ہوتے ہوئے بھی’’انجوائے‘‘ کرنا ہوتا ہے۔

ماہتاک سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*