اقوام متحدہ میں ایران کے خلاف امریکا کی شکست

متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانےکے بعدامریکا خوشیوں کے شادیانے بجارہا تھا لیکن چند دن کے اندر ہی یہ بات واضح ہوگئی کہ امریکا کو دنیا میں اب ویسی پرائریٹی حاصل نہیں ہے جس کی وہ توقع رکھتا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اکثرارکان نے ایران پر پابندیاں بحال کرنے کی امریکی تجویز مسترد کردی ہے۔ یاد رہے کہ چند دن قبل امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اقوام متحدہ میں ایک خط کے ذریعے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ایران پر عالمی پابندیاں فوری طور پر بحال کردی جائیں لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پندرہ میں سے تیرہ ارکان نے ان پابندیوں کی بحالی کی واضح مخالفت کردی جس سے امریکا ایک بار پھردنیا میں تنہا ہو کر رہ گیا ہے۔

سلامتی کونسل کے ان ارکان کا کہنا ہےکہ جس جوہری معاہدے سے امریکا کے صدر ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد دست برداری کا اعلان کیا گیاتھا اس کے تحت واشنگٹن کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتا اور اس طرح کی کوشش غیر قانونی ہوگی۔ حتی کہ امریکا کے اتحادی برطانیہ نے بھی دیگر ممالک مثلاً فرانس، جرمنی،بلجیم، چین، روس، ویت نام،جنوبی افریقا، انڈونیشیا اور تنزانیہ کی طرح امریکی اقدام کی مخالفت میں جوابی خط تحریر کیا ہے۔

امریکا نے پچھلے دو سال میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ سابق امریکی صدر اوباما کے دور میں ہونے والے جوہری معاہدے کے تحت ایران کو جو کچھ کرناتھا اس پر ایران نے عمل نہیں کیا اوردنیا کو دھوکا دیا ،جس کے نتیجے میں امریکا اس معاہدے سے دست بردار ہوا۔واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان ہیں، جن کو ویٹوکا حق حاصل ہے، جب کہ دس غیر مستقل ارکان ہیں جو تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ مستقل ارکان میں امریکا کے علاوہ برطانیہ، چین، روس اور فرانس ہیں اور ان چاروں نے امریکا کی مخالفت کی ہے کچھ ممالک نے تو اس درخواست کو جمع کرانے کے عمل کو ہی غیر قانونی قرار دیا ہے۔

ایک ہفتہ پہلے ہی اقوام متحدہ نے ایران پر عائد پابندیاں جن میں معاشی پابندیاں بھی شامل ہیں ختم کردی تھیں۔ اس سلسلے میں خاص طور پر یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل کا بیان خاصی اہمیت کا حامل تھا جس میں انہوں نے کہا کہ اب امریکا ،ایران پر اقوام متحدہ کے ذریعے پابندیاں لگوانے کے قابل نہیں رہا ہے۔ اس بات میں صداقت اس لئے ہے کہ امریکا ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے الگ ہو کر اپنی حیثیت کھوچکا ہے اور اس سے تہران پر پابندیوں کے لئے اقوام متحدہ کا طریقہ کار استعمال نہیں کرسکتا۔

پھر بھی سلامتی کونسل میں ایران مخالف قرارداد کی ناکامی کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیاں بحال کرانے کا اعلان کیا تھا۔ پچھلے دو سال میں امریکا نے پوری کوشش کی ہےکہ ایران کو زیادہ سے زیادہ مسائل کا شکار رکھا جائے ،خاص طور پر کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد ایران کو شدید نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن پھر بھی امریکا نے ایران کے خلاف اپنی حرکتیں جاری رکھی ہیں اور دیگر ممالک کو بھی مجبور کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ بھی ایران کے خلاف امریکا کا ساتھ دیتے رہیں۔

اب دنیا کے زیادہ تر ممالک یہ بات تسلیم کرنے لگے ہیں کہ اخلاقی اور انسانی بنیادوں پر اس طرح کی پابندیاں وہ بھی وبا کے دنوںمیں کسی طرح بھی جائز نہیں ہیں اور امریکا، صدر ٹرمپ کے جارحانہ رویوں کے باعث تنہا ہوتا جارہا ہے۔ وبا نے کئی ممالک کی معیشتوں کو بالکل ہلا کر رکھ دیا ہے، جن میں ایران سرفہرست ہے کیونکہ وہ اس طرح اپنے عوام کے لئے امدادی کارروائیاں نہیں کرسکا، جیسا کہ دیگر ممالک میں ہوئیں جب کہ آبادی کے لحاظ سے ایران میں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد خاصی بڑی ہے جو بیس ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔

ایران پر پابندیوں میں نرمی 2015ء میں ہونے والے معاہدے کے تحت کی گئی تھیں، اسی کے تحت ایک ہفتہ پہلے ہی سیکورٹی کونسل نے امریکا کی طرف سے ایران پر اسلحے کی فروخت پر پابندی کو غیر معینہ مدت تک توسیع دینے کی تجویز کو مسترد کردیا تھا۔ ایران کو اسلحہ فروخت پر پابندی اس سال اکتوبر میں ختم ہونے والی ہے اور اب یورپی ممالک بے چین ہیں کہ جلد از جلد ایران کو نئے اور جدید اسلحہ فروخت کئے جائیں۔

دراصل امریکا کی مخالفت کرتے ہوئے برطانیہ، چین، روس اور فرانس صرف ایران کی حمایت اور ہم دردی میں نہیں بلکہ خود اپنے معاشی مفادات کی تکمیل کے لئے ایسا کررہے ہیں۔ چین تو پہلے ہی ایران سے بڑے معاہدے کرچکا ہے۔ اب برطانیہ اور فرانس اسلحہ کے بڑے بیوپاری ہیں جو ایران کو اسلحہ بیچنے کے لئے تڑپ رہے ہیں جب کہ امریکا تو عربوں کو پہلے ہی بڑی تعداد میں اسلحہ بیچ رہا ہے۔

اقوام متحدہ میں ایران کے خلاف امریکا کی شکست
ایران کی اس کامیابی کو ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کی بڑی کامیابی سمجھا جارہا ہے اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی ناکامی۔ ان دونوں شخصیات کا موازنہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ساٹھ سالہ جواد ظریف پچھلے سات سال سے ایران کے وزیر خارجہ ہیں ،اس سے قبل 2002ء سے 2007ء تک پورے پانچ سال اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے امریکا سے ہی بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز اور بین الاقوامی قانون میں پی ایچ ڈی کر رکھا ہے۔

جواد ظریف ایرانی صدر حسن روحانی کے 2013ء میں برسراقتدارا ٓنے کے بعد سے وزیر خارجہ ہیں۔ ان کے مقابلے میں مائیک پومپیو، ستاون برس کے ہیں اور انہیں 2018ء میں صدر ٹرمپ نے امریکی وزیر خارجہ مقرر کیا تھا۔ اس سے قبل وہ ایک سال سی آئی اے کے ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں ۔اس کے علاوہ چھ سال امریکی ایوان نمائندگان یا قومی اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں اس سے قبل وہ پانچ سال امریکی فوج میں بھی رہ چکے ہیں، مگر فوج چھوڑنے کے بعد وہ قانون کی سند لے کر وکیل بن گئے تھے۔

اپنی اس ناکامی کے بعد پومپیو الزام تراشی پر اتر آئے ہیں اور اپنے یورپی اتحادیوں کو ایران کا ساتھ دینے پر برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پومپیو خود ایک قانون دان ہیں اور کسی قانون کے تحت وہ ایسے معاہدے پر اثرانداز ہوسکتے ہیں، جس سے امریکا پہلے ہی علیحدگی اختیار کرچکا ہے۔ اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ ٹرمپ کی انتظامیہ بغیر سوچے سمجھے فیصلے کرنے کی عادی اور نقصان اٹھاتی ہے۔

پومپیو نے یہ بھی بھڑک ماری ہے کہ امریکا کے علاوہ کسی ملک میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اس حوالے سے قرارداد پیش کرے۔ دراصل امریکا کی ری پبلکن پارٹی اس طرح اقدام کرنے کی طویل تاریخ رکھتی ہے۔ اس صدی کے اوائل میں جب ایک اور ری پبلکن صدر جارج ڈبلیو بش یا بش جونیئر اقتدار میں تھے تو پہلے انہوں نے افغانستان میں جنگ شروع کی جس کے لئے انہیں عالمی حمایت حاصل رہی، کیوں کہ گیارہ ستمبر کے واقعات ابھی نئے تھے لیکن جب انہوں نے 2003ء میں عراق پر حملے کا سوچا تو دنیا بھر نے مخالفت کی تھی صرف برطانیہ کے ٹونی بلیئر ان کے ساتھ تھے۔

اقوام متحدہ میں ایران کے خلاف امریکا کی شکست
پھر بھی صدر بش نے اقوام متحدہ میں ناکامی کے پیش نظر خود ہی حملے کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن اب تو برطانیہ بھی امریکا کے ساتھ اس طرح نہیں کھڑا ہوا ہے۔ اب سیکورٹی کونسل کے72ممالک کی مخالفت کے باوجود امریکا قرارداد پیش کرچکا ہے جس پر سیکورٹی کونسل کو تیس دن کے اندر فیصلہ کرنا ہے۔ ظاہر ہے یہ قرارداد ناکام ہوجائے گی مگر پھر بھی پومپیو کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کا ملک امریکا ایران کے خلاف جو کچھ کرسکتے ہیں ضرور کریں گے۔

امریکا کا ایران پر ایک بڑا الزام یہ ہے کہ وہ یورینیم کی افزودگی کا مرتکب ہورہاہے جس سے جوہری ہتھیار بنائے جاسکتے ہیں، پھر امریکا مسلسل ایران کوایک دہشت گرد ریاست قرار دیتا رہا ہے اور اسے دیگر ممالک سے جنگی طیاروں اور ٹینکوں کی فروخت پر تشویش ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایران پر بیلاسٹک میزائلوں کی تیاری کا بھی الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ امریکا کو ایک تشویش یہ بھی ہے کہ ایران اپنے پڑوسی ملک عراق میں مداخلت کررہا ہے، دو ہفتے قبل بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی سلامتی کونسل کو ایک خط بھیجا تھا جس میں ایران پر پابندیاں ختم ہونے سے پہلے ہی انہیں دوبارہ نافذ کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔حیرت کی بات یہ ہے کہ عرب ممالک نے سعودی عرب کی قیادت میں ناکابندی کی ہوئی تھی، اس نے بھی ایران کے خلاف پابندیوں کے تسلسل کی حمایت کی، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قطر مستقبل قریب میں سعودی عرب سے تعلقات بحال کرسکتا ہے۔ پھر عرب ممالک کو یہ خطرہ بھی ہےکہ ایران اپنے پڑوسی عراق کے علاوہ شام، لبنان اور یمن وغیرہ میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھارہا ہے ۔

ایران کے خلاف عرب ممالک کے ممکنہ اتحاد اور اسرائیل کے ساتھ قربت کی ایک وجہ یہ بھی ہےکہ اسرائیل جدید ترین ٹیکنالوجی کا حامل ملک ہے جس میں بائیو ٹیکنالوجی، دفاع، سائبر نگرانی اورجاسوسی کے پروگرام شامل ہیں، جو اب اسرائیل عرب ملکوں کو فروخت کرسکتا ہے ،جبکہ ایران کے پاس اس طرح کا کوئی دوست نہیں تھا ،اسی لئے ایران نے چین سے معاہدے کئے ہیں تاکہ چین کی فائیو جی یا کمپیوٹر اور موبائل کی پانچویں نسل کی ٹیکنالوجی حاصل کرسکے۔پھر بھی اسرائیل اس خطے میں ٹیکنالوجی میں سب سےآگے ہے لیکن اسے بھی یہودی انتہاپسندوں کا سامناہے جو نہیں چاہتے کہ اسرائیل عربوں کے قریب ہو۔

اس کی واضح مثال 1995ء میں اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن کا قتل تھا جنہیں اردن اور یاسر عرفات سے معاہدوں کی سزا ملی۔ایران کے صدر روحانی بڑے واضح الفاظ میں امارات اور اسرائیل کے معاہدے کی مذمت کرچکے ہیں اور اسے بڑی غلطی قرار دے رہے ہیں ساتھ ہی اسے مسلمانوں کے ساتھ بڑا دھوکا بھی کہا ہے۔اب امریکا کی اقوام متحدہ میں ناکامی سے صدر ٹرمپ کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے منصوبے کو بڑا دھچکا لگنے کاامکان ہے۔ اگر اکتوبر میںا یران پر پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں تو نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات پر اس کا بڑا اثر ہوسکتا ہے۔

امریکی صدر اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے اتنے بے چین ہیں کہ حال ہی میں انہوںنے لاکھوں ڈالر مالیت کے ایرانی تیل کو قبضے میں لینے کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے مطابق امریکا نے لاطینی امریکا کے ملک وینزویلا جانے والے تیل سے لدے چار ایرانی بحری آئل ٹینکرز اپنے قبضے میں لے لئے اور دعویٰ کیاکہ ایران کے خلاف یہ اپنی نوعیت کی سب سے بڑی کارروائی ہے۔ اطلاعات کے مطابق تقریباً گیارہ لاکھ بیرل تیل پر امریکا نے قبضہ کرلیا ہے، کیونکہ امریکا کے مطابق یہ ترسیل پابندیوں کی خلاف ورزی تھی۔ اس کے برعکس ایران کا دعوی ہے کہ نہ تو یہ بحری جہاز اور نہ ہی ان کے مالکان کا تعلق ایران سے ہے امریکا اس قسم کی کارروائی کرتے ہوئے بین الاقوامی قوانین کو خاطر میں نہیں لاتا بلکہ خود اپنی عدالتوں پر ہی بھروسا کرتا ہے۔

جولائی میں ایک امریکی عدالت میں درخواست دیئے جانے پر عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ اس طرح تیل پر قبضہ کیا جاسکتا ہے اور اس کے لئے وارنٹ بھی جاری کردیئے تھے۔یہ امریکی کارروائی بڑی پراسرار معلوم ہوتی ہے، کیونکہ امریکی اعلان کے مطابق اس آپریشن میں کوئی فوجی ملوث نہیں تھے اور نہ ہی بحری جہازوں کو پکڑا گیا بلکہ صرف تیل پر قبضہ کیا گیا اب اس بات کی بھی وضاحت نہیں کی گئی کہ اگر تیل جہاز پر تھا تو جہاز کو پکڑے بغیر تیل کیسے حاصل کیا گیا۔اس کا جواب امریکا نے یہ دیا کہ بحری جہازوں کے مالکان اور انشورنس کرنے والوںاور جہاز کے کپتان کومجبور کیا گیا کہ وہ جہاز پر لدے تیل کو امریکا کے حوالے کردیں۔

یاد رہے کہ ایران کی طرح وینزویلا پر بھی امریکا نے پابندیاں لگا رکھی ہیں اور مطالبہ کرتا ہے کہ وینزویلا کے صدر اقتدار چھوڑ دیں۔ مادورو بھی ایرانی صدر روحانی کی طرح 2013ء سے برسراقتدار ہیںاور شدید امریکا مخالف ہیںمگر امریکا اور کچھ دیگر یورپی ممالک ان کی صدارت کو نہیں مانتے ۔ وہ ا نہیں غیر قانونی صدر قرار دیتے ہیںکیونکہ مادورو اپنے پیش رو صدر ہیوگوشاویز کی سوشلسٹ پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

اب امریکی انتظامیہ اتنی حواس باختہ معلوم ہوتی ہے کہ الزام لگا رہی ہے کہ ایران، چین اور روس تینوں ممالک مل کر امریکی صدارتی انتخاب پراثرانداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں اور اس کے لئے ’’خفیہ اور بااثرورسوخ‘‘ کا استعمال کیا جارہا ہے۔ ان الزامات میں یہ بھی کہا جارہاہےکہ چین امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ منتخب نہیں ہونے دینا چاہتا ،جب کہ روس ٹرمپ کے مخالف جوبائیڈن کو نقصان پہنچانا چاہتاہے۔اسی طرح کے الزامات 2016ء میں لگائے گئے تھے جب روس کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ٹرمپ کی مدد کرتا رہا اور آن لائن غلط معلومات پھیلاتا رہا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*