فکرِ لطیف

سندھ کے عظیم شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کی فکر و فلسفے کو سمجھنے کے لئے ہمیں ایک نیا شعور اور نئی بصیرت درکار ہے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے آج میں نے ان کے ایک بیت کا انتخاب کیا ہے جو ہے:
کوڑوتوں کفر سیں، کافر مَ کو ٹھائے
ہندوہڈ نہ آہیں، جَنیوتوں نہ جُگائے
تلک تنیں کھے لائے، سچاجے شرک سیں

ترجمہ: اگر تم اپنے کفر سے مخلص نہیں ہو تو اپنے آپ کو کافر مت کہلاؤ، ( ایسی صورتحال میں) تم ہرگز ہندو نہیں ہو سکتے اور ‘جنیہ’ پہننے کا حق نہیں رکھتے۔ جو اپنے شرک سے مخلص ہوتے ہیں ‘ تلک’ صرف ان کو لگاؤ ( انہی کو سجتا ہے)۔
اس بیت کے مفہوم کو سمجھنے کے لئے عموماً الفاظ کے ظاہری معنی پر اکتفا کیا جاتا ہے مگر ان کے اندر پنہاں مفاہیم اور فکری معنی تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے کیونکہ ان کو ہم اپنے زمان و مکان کے تناظر میں ان کے قیدی بن کر پا نہیں سکتے اور شاہ کے محبوب کو دیکھ سکنے کے لئے ضروری فہم کا ادراک نہیں رکھتے۔ شاید ہم ایسے دیدہ بینا سے محروم ہیں جس سے ہم وہ دیکھ نہیں سکتے جو شاہ نے دیکھا تھا۔ اس لئے ہم اپنی محدود سوچ کے مطابق ان کی تشریح کرتے رہے ہیں کہ اس بیت کی معرفت وہ ایک سیکولر انسان کی سوچ کا اظہار کررہے ہیں، کہ ایک کافر کو بھی وہ اپنے کفر سے سچا رہنے کو کہتے ہیں۔ بیشک وہ سیکو لر سوچ کے مالک تھے مگر ان کی زبان کے فکری پہلو کو مدنظر رکھ کر دیکھنے سے ایک اور نکتہ بھی نروار ہوتا ہے۔
میرے خیال میں شاہ صاحب لفظ ‘کفر’ کو عام فہم مذہبی معنی میں استعمال نہیں کرتے بلکہ اس کو ‘انکار‘اور نفی‘ کی معنی میں استعمال کرتے ہیں اور انسان کے ‘حق کفر’ اور ‘ حق انکار’ کو تسلیم کرنے کے لئے کہتے ہیں۔ یعنی وہ کہتے ہیں کہ اگر تمہارے اندر انکار کی جرات نہیں تو تم جھوٹے اور منافق ہو۔۔تم جس بات، عقیدے یا نظریے کی اثبات میں ایمان رکھتے ہو اور اس سے مخلص اور سچے ہو تو پھر اس سے منہ مت موڑو اور اس کے رد کو رد کردو اور اس کی نفی سے انکار کردو۔ اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو پھر تمہیں اپنے عقیدے یا نظریے کی شناخت کا نشان پہننے/ لگانے کا بھی کوئی حق نہیں۔ اور نہ ہی تمہیں خود کو اس عقیدے یا نظریے کی پیروی کرنے والا کہلانا چاہیے۔ جس آدمی کے اندر ایسی انکار کی جرات ہے اسی کی پیشانی پر اس کا تمغہ سجاکر چلنے کا حق ہے۔ یہ کفر وہ ہے جو عزازیل کے ‘انکار’ میں تھا جس کے لئے شاہ صاحب نے کہا ہے:۔
عاشق عزازیل بیامڑئی سَدھڑیا
منجھاں سِک سبیل ، لعنتی لال تھیو
عزازیل کے اندر ایسی انکار کی جرات تھی، اس کا عشق سچا تھا محض دعوی نہ تھا جس نے اسے وہ ہمت دی کہ اپنی محبوب ہستی کے سامنے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور ملعون قرار پایا۔ مگر اپنے اس عقیدے سے منکر نہ ہوا کہ سجدہ صرف اس خدا کو کرنا ہے جو اس کا محبوب، خالق و مالک ہے۔ اس بیت میں شاہ صاحب نے عزازیل کے ‘حق کفر’ یا حق انکار کو تسلیم کیا ہے۔ ان کا فلسفہ یہ ہے کہ‘تمہارے پاس جو اثبات ہے اس پر ثابت قدم رہو اس میں شک نہ کرو اور اپنے اسی سچ اور حق کے مقابل آنے والے ہر خیال کو رد کردو ، ایسے خیال سے منکر ہو جاؤ۔ اس ضمن میں مزیدکہتے ہیں:۔
آڈو جو اثبات کھے، سوشریک لا ہے شک
ہے جنہن میں حق تنلہن نفی ا جھڑو نا ہے کو
ترجمہ: جو اثبات کے مقابل ہو اس شرک اور شک کو ہٹا دو۔ جس کے اندر حق ہو اس نفی جیسا کوئی نہیں۔
شاہ صاحب کے مطابق جس کے پاس ایسی نفی اور انکار کی ہمت ہو اس سے بڑھ کر کوئی گْن یا خوبی نہیں کیونکہ اثبات کے لئے نفی کا وجود لازم ہے۔ روشنی کا وجود تاریکی کے بغیر ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اس فکری نکتے کو سمجھنے کے لئے شاہ کا یہ بیت دیکھیے :۔
آہے اوندا ہی ءَ جو شرک سُہائی
چٹی چٹائی الف جے عمیق میں
روشنی کا یقین کرنا ہے تو تاریکی کو شریک کرنا پڑتا ہے یعنی شرک سے ہی روشنی کی شناخت ممکن ہے۔ اس بات سے ہی اس نکتے کا فہم ممکن ہوگا جو اس مصرع میں پنہاں ہے
تلک تنیں کھے لائے، سچاجے شرک سیں شراکت

اثبات کے ساتھ نفی کی شراکت ہے اسی سے اثبات تک سفر ممکن ہوتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے اسلام کے کلمے میں بھی پہلے ’لا‘ کہہ کر جھوٹے خداؤں سے انکار کرنا پڑتا ہے اور اس نفی یا انکار کے بعد سچے خدا کی اثبات اور اقرار مکمل ہوتا ہے اور یوں ایمان مکمل ہوتا ہے :لا الہ الا اللہ۔
یہی فلسفہ اس بیت میں ہے
کوڑو تون کفر سین ، کافر مَ کوٹھائے۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*