آل انڈیا بلوچ کانفرنس

دوسرے دن (28دسمبر)کی کارروائی

ہمیں کوئی تکڑا حوالہ نہ مل سکا جس کی رُو سے ہم یہ کہہ سکیں کہ اُس روز جلسے میں کیا کیاتقریریں ہوئیں یا یہ تقریریں کس کس نے کی تھیں۔ نہ ہمیں یہ معلوم ہوسکا کہ اُس روز کس کس کے پیغامات پڑھے گئے اور اُن پیغامات میں کیا پیغام دیے گئے۔اسی طرح ہمیں اُس روز کسی کلچرل سرگرمی کا تذکرہ بھی نہ مل سکا۔ ہمیں تو قرار دادیں ملیں جو کسی جلسے ، اجلاس یا میٹنگ کے اہم ترین فیصلے ہوا کرتے ہیں۔یہقرار دادیں ہمیں ایک سے زیادہ سورسز سے ملی ہیں۔
سب سے پہلے جو قرار داد منظور ہوئی یا جو فیصلہ ہوا وہ یہ تھا کہ اس کانفرنس کا نام ’’بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس ‘‘ ہوگاا ور اس کے اغراض و مقاصد یہ ہوں گے:۔
۔1۔ بلوچستان کے عوام اور انڈیا کی بلوچ قوم کی اخلاقی، تعلیمی سیاسی اور معاشی حالت میں اصلاح کرنا اور ان میں تعاون ، اتحاد اور بھائی چارے کے تعلقات قائم کرنے کے لیے تمام آئینی طریقے استعمال کرنا‘‘۔
(ظاہر ہے اگر صرف اِس جلسہ یا کانفرنس، کا نگریس یا کنونشن کی بات ہوتی تو قرار دادیں کافی تھیں ۔آئندہ کے اغراض ومقاصد متعین کرنا تو ایک تنظیم یا پارٹی کے ہوسکتے ہیں۔ اس لیے میں اس قدر باوثوق ہوں کہ یہ محض ایک جلسے کی بات نہ تھی۔ بلکہ ایک سیاسی پارٹی تھی۔ جس کا نام’’انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کے وزن پہ ’’آل انڈیا بلوچ کانفرنس رکھ دیا گیا)۔
۔2۔ یہ کانفرنس صوبہ بمبئی سے سندھ کی علیحدگی پر برطانوی حکومت کی تعریف کرتی ہے۔نیز یہ کانفرنس ان تمام جماعتوں کی مساعی کو اچھی نظروں سے دیکھتی ہے جنہوں نے اس علیحدگی کے لیے جدوجہد کی۔
محرک : سردار اعظم جان مزاری
موید: مسٹر محمد امین خان کھوسہ

۔3۔یہ کانفرنس سیاہ کاری کے اس رواج کو بنظرِ نفرت دیکھتی ہے جس کے ذریعہ سے سیہ کار مردسے عوضانہ سیاہ کاری کے بطوراُس کی لڑکی یا بہن جبراً نکاح میں لی جاتی ہے۔لہذا یہ کانفرنس گورنمنٹ بلوچستان اور ریاستی کانفیڈریشن آف بلوچستان سے انسانیت کے مقدس نام پر اپیل کرتی ہے کہ آئندہ کسی معصوم لڑکی کو کسی فاحش آدمی کے جرائم کا شکارنہ بنایا جائے ۔
محرک: نواب زادہ یوسف علی خان
موید : پیربخش خان شہدادزئی، کراچی

۔(میں بہت عرصے سے اس ترکیب کی تلاش میں تھا۔ آج مل ہی گئی:’’فاحش مرد‘‘ !۔ ایک سو سال قبل ہمارے آبا واجداد ہم سے زیادہ عورت حقوق کے بارے میں حساس تھے)۔

۔4۔ یہ کانفرنس آنریبل مسٹر کیٹر آئی سی ایس ، سی آئی اے ، ایجنٹ گورنر جنرل بلوچستان کا شکریہ ادا کرتی ہے جنہوں نے بلوچستان کی درد ناک پسماندگی کو محسوس کرتے ہوئے ملکی آدمیوں کی ترقی پر خصوصی توجہ مبذول کر کے اپنے تدبر اور فراخدلی کا ایک بے نظیر ثبوت پیش کیا ہے ۔
نیز یہ کانفرنس امید کرتی ہے کہ صاحب ممدوح دوسرے لوگوں کے خود غرضانہ پروپیگنڈہ سے متاثر ہو کر ملکی کارکنوں کے راستہ میں مشکلات پیدا نہیں کریں گے، بلکہ ان کی حوصلہ افزائی اور حق رسی فرماتے رہیں گے ۔
محرک :جام نوراللہ خان
موید : عبدالعزیز کرد

۔5۔ یہ کانفرنس گورنمنٹ سے استدعا کرتی ہے کہ بلوچستان میں قحبہ خانہ (چکلہ) کو جو شرعاً اور اخلاقاً ایک سنگین اور مجرمانہ رواج ہے ، بند کیا جائے ۔

۔6۔ یہ کانفرنس گورنمنٹ برٹش بلوچستان اور ریاستی کنفیڈریشن سے استدعاکرتی ہے کہ وہ اہلکاروں اور جرگہ کی راہنمائی کے لیے قانونِ رواج کو ایک کتابی صورت میں شائع کریں۔ اور اس کی تدوین اور ترمیم شرعِ انوری کی روشنی میں کرنے کے لیے ایک کمیٹی مقرر کریں، جس میں کم از کم 1/3حصہ ایسے افراد کا شامل ہو جو شرعِ انوری سے کما حقہ‘ واقفیت رکھتے ہوں اور مستند علما میں سے ہوں ۔
محرک : سردار غلام رسول کورائی
موئید:مولانا محمد عثمان بلوچ ،کراچی

۔7۔یہ کانفرنس رسمِ لب اور ولور کو نہایت ہی نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اپنے بلوچستان کے عوام سے امید کرتی ہے کہ اس حقیرو ذلیل رسم کو جتنی جلد ہوسکے منسوخ کردیں اور گورنمنٹ سے امید رکھتی ہے کہ وہ اس مذموم رسم کی انسداد کی تدابیر جلد از جلد عمل میں لائے گی۔
محرک : سردار محمد اعظم خان مزاری
موید:نواب زادہ ، محمد یوسف علی خان

۔8۔ یہ کانفرنس گورنمنٹ برٹش بلوچستان اور ریاستی کنفیڈریشن آف بلوچستان سے التجا کرتی ہے کہ وہ مہر بانی کرکے تعلیمِ نسواں کے کازکی گرمجوشی سے مدد کریں، اور بلوچستان کے عوام سے درخواست کرتی ہے کہ وہ اس طرف خاص توجہ مبذول کرے۔
محرک: اخوندزادہ عبدالرحیم خان
موید:میرمٹھا خان سردار خیل مری

۔9۔ یہ کانفرنس حکومت ہائے بلوچستان سے استدعا کرتی ہے کہ وہ عورتوں اور بیواؤں کو بطورِ ورثہ اشیائے خانگی کی طرح ایک شخص کی موت کے بعد اُس کے وارثوں کے حوالے کیے جانے کو قانوناً ممنوع قرار دے اور عورتوں کے حقوق زنا شوئی ، وراثت اور ترکہ بروئے شرعِ انوری قائم کیے جائیں۔
محرک : صدر

۔نوٹ:
آپ دیکھ لیں کہ کُل منظور کردہ (9)قرار دادوں میں سے پانچ قرار دادیں الگ سے عورتوں کے حقوق سے متعلق ہیں۔واضح رہے کہ ہم اکیسویں صدی کی بات نہیں کر رہے اور یہ لندن وپیرس کے کسی جلسے کا تذکرہ بھی نہیں ہے ۔ ہم بیسویں صدی کے مزاریوں ، جمالیوں، ڈومبکیوں، مگسیوں ، بجارانٹریوں اور بگٹیوں کے جیکب آباد کی بات کر رہے ہیں۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے دادا پردادا ہم سے زیادہ روشن فکر اور ہمدرد انسان تھے!!۔ 9میں سے 5قرار دادیں صرف عورت کے حقوق کے بارے میں!!۔

***
تیسرا دن (29دسمبر) ۔
تیسرے دن کے اجلاس میں جو قرار دادیں منظور ہوئیں وہ یہ ہیں:۔

۔1۔ یہ کانفرنس ،قطع نظر اِس کے کہ مقدمات کے واقعات کچھ ہوں ، ہزایکسیلنسی گورنر اِن کونسل بمبئی سے نہایت ادب کے ساتھ التجا کرتی ہے کہ ارادت مندانِ درگاہ پیرپگھاروکی کثرت تعداد اور موجودہ گدی نشین کی کم سنی اور ناتجربہ کاری کو مدنظر رکھتے ہوئے جتنا ترحم کا سلوک اُن کے معاملہ میں کرسکتے ہیں کریں۔
محرک صاحبِ صدر ۔ متفقہ طور پر پاس ہوا

۔2۔ یہ کانفرنس اعلیٰ حضرت ہزہائی نیس میر علی نواز خان تالپروالیِ ریاست خیر پور کا شکریہ ادا کرتی ہے کہ انہوں نے اس کانفرنس کی صدارت کو قبول فرمایا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے جو امداد بھی دی ہے اس کا شکریہ ادا کرتی ہے ۔ او ر ان کی بحالیِ صحت کے لیے دعاکرتی ہے ۔
محرک: صاحبِ صدر

۔3۔ یہ کانفرنس انجمن انیسِ بلوچاں مکران ، اور انجمن اتحاد بلوچان کراچی کی خدمات کو جوانہوں نے بلوچانِ مکران کی ترجمانی کے لیے ارسال وفودکی صورت میں سرانجام دی ہیں، اور بلوچی مفاد کے لیے کیچ مکران جاکر ہز ہائی نیس خانِ قلات کے شاہی دربار میں رعایا مکران کی گزار شات مصائب آلام کو صحیح صحیح پیش کیا ہے ، بنظرِ استحسان دیکھتی ہے ۔
محرک : صاحب صدر

۔4۔ یہ کانفرنس حکومتِ سندھ سے استدعا کرتی ہے کہ کاشتکار ان مکران کے لیے جو قحط سالی سے تباہ ہو کر حصولِ روزگار کے لیے اپنے وطن سے ہجرت کر کے سندھ اور کراچی میں بسنے کی خاطر آئے ہیں، یا آئندہ کبھی آئیں بیراج میں زمینیں حاصل کرنے کی سہولتیں بہم پہنچائی جائیں ۔ اور ان کو ان زمینوں سے بہرہ ور کر کے دنیا میں رعایا پروری کا ثبوت پیش کرے۔
محرک: پیر بخش شہدادزئی
موید:مولانا حاجی محمد عثمان بلوچ کراچی

۔5۔یہ کانفرنس بلوچستان اور بالخصوص ریاستی کانفیڈریشن آف بلوچستان سے درخواست کرتی ہے کہ وہ مقدمات کے تصفیہ میں تعجیل سے کام لے ۔ کیونکہ بہت سے مقدمات سالہا سال بلا ضرورت زیرِ غور رہتے ہیں جس سے انصاف کا اصل مقصد ومفہوم فوت ہوجاتا ہے ۔
محرک: خان غلام قادر خان وکیل
موید: مسٹر محمد امین خان کھوسہ

۔6۔یہ کانفرنس حکامِ سندھ سے استدعا کرتی ہے کہ چونکہ سندھ میں کافی تعداد بلوچوں کی ہے اور بہ نسبت دیگر اقوام کے تعلیمی لحاظ سے بہت پست ہیں۔ اس لیے ان کی تعلیمی ترقی کے لیے خاص رعایت کی جائیں۔ سکولوں اور کالجوں میں انہیں خاص وظائف دیے جائیں۔
محرک : غلام قادرخان وکیل
موید : مسٹر محمد امین خان کھوسہ

۔7۔یہ کانفرنس ریاستہائے بلوچستان ، سندھ اور پنجاب سے درخواست کرتی ہے کہ بلوچوں کی اُن مذموم مراسم کو بند کرا دے جس کی رو سے لڑکیوں کی نسبت اُن کی پیدائش سے قبل قرار پاتی ہے ۔
محرک : مولوی محمد عثمان بلوچ
موید: غلام سرور خان مغل

۔8۔ یہ کانفرنس حکومت قلات سے استدعا کرتی ہے کہ مکران کی چنگیوں کی پیچیدگیوں کو جن کا اعتراف دربار شاہی میں بھی کیا گیا ہے ، جلد از جلد انسدادفرمایا جائے۔
محرک پیر بخش خان شہداد زئی
موید: مولوی عبدالصمد سربازی

۔9۔ یہ کانفرنس کمشنر صاحب سندھ اور ایجوکیشنل انسپکٹر صاحب سے استدعا کرتی ہے کہ وہ کراچی کے مفلس اور بے کس مکرانی بلوچوں کی تعلیمی پستی کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’سپیشل محمڈن سکالر شپ ‘‘ ،کنگ ایڈوڈ میموریل سکالر شپ اور دیگر سرکاری تعلیمی وظائف میں سے مکرانی طلبا کو مکرانی بلوچوں کی تناسب آبادی سے حصہ دیں۔
محرک: پیر بخش شہداد زئی
موید : جام میر نور اللہ

۔10۔ یہ کانفرنس درد مندانہ انداز میں حکام سندھ ، بلوچستان اور ریاستی کنفیڈریشن آف بلوچستان سے درخواست کرتی ہے کہ موجودہ اقتصادی زبوں حالی کے پیشِ نظر مالیہ میں اس سال پچاس فیصدی رعایت کرے ۔ نیز یہ مجلس گورنمنٹ سے عرض کرتی ہے کہ ’’زمیندار ‘‘ فرقہ کی مالی امداد تقاویوں کی صورت میں کرے ۔
محرک : میر محمد امین خان کھوسہ
موید :میر غلام سرور خان مغل

۔11۔یہ کانفرنس گورنمنٹ سندھ سے درخواست کرتی ہے کہ جس طرح بلوچستان اور پنجاب میں غیر زراعت پیشہ اقوام کے ہاتھوں انتقالِ آب واراضی بند ہے اسی طرح سندھ میں بھی یہ قانون نافذ کر کے سندھی زمینداروں کو تباہی سے بچائے۔
محرک : میر محمد امین خان کھوسہ
موید : میر غلام سرور خان کھوسہ

۔12۔ یہ کانفرنس حکومتِ ہند سے گزارش کرتی ہے کہ فرنٹیر ریگولیشن کا خاص قاعدہ جو بالائی سندھ کے باشندوں کے ساتھ وابستہ کیا گیا ہے موجودہ ترقی یافتہ زمانہ میں غیر ضروری اور مضر ہے ۔ باشندگانِ ضلع فائدے کے بدلے سخت نقصان اٹھا رہے ہیں ۔اس لیے اسے منسوخ فرمایا جائے ۔ نیز یہ کانفرنس پُر زور الفاظ میں ممبرانِ اسمبلی خصوصاً حاجی عبداللہ ہارون ودیگر اصحاب سے اپیل کرتی ہے کہ وہ بھی اس ریگولیشن کو منسوخ کرانے کی طر ف توجہ کریں۔
محرک : مسٹر غلام قادر خان
موید:غلام سرور خان مغل

۔13۔ یہ کانفرنس گورنمنٹ بلوچستان سے درخواست کرتی ہے کہ پولیس اور ملیشیا کی بھرتی خاص اصل ملکی لوگوں کے لیے مخصوص ہو۔
محرک : میر مٹھا خان مری
موید : میر نوراللہ خان

۔14۔یہ کانفرنس حکومت ہند سے استدعا کرتی ہے کہ بلوچ رجمنٹس میں بلوچ اور بلوچستانیوں کی بھرتی از سرِ نوشروع کی جائے۔
محرک : سردار محمد اعظم خان مزاری
موید: ماسٹر محمد حسین خان عنقا

۔15۔یہ کانفرنس جریدہِ ملیہ اسلامیہ ’’زمیندار‘‘ کی ان مساعی قبیلہ کا بصمیمِ قلب اعتراف کرتی ہے جو اِ س صحیفہِ عالیہ نے بلوچ کانفرنس اور بلوچ قوم کے متعلق بالخصوص اور جمہور اسلام کے لیے بالعموم سرانجام دی ہیں۔ نیز بلوچ قوم حضرت ظفر الملت مولانا ظفر علی خان صاحب کی خدماتِ جلیلہ کو بنظر استحسان دیکھتی ہے ۔ اس کانفرنس کی رائے میں ہر صحیح الفکر بلوچ نوجوان کا فرض ہے کہ وہ ’’زمیندار ‘‘ لمیٹڈ کمپنی کے حصص حسبِ استطاعت خرید کر اس جریدہِ ملیہ کو مضبوط بنانے میں حصہ لے ۔

محرک : صاحبِ صدر

۔16۔آل انڈیا بلوچ کانفرنس کے اس اجلاس نے اس مسئلہ پر کہ کانفرنس کی قراردادوں کو کس طرح عملی جامہ پہنا یا جائے اور عوام میں تبلیغ احکام اسلامی ، ترغیب تعلیم وصنعت اور اصلاحِ رسوم اور ترغیبِ تجارت کے لیے کیا تجویز عمل میں لائی جائیں اوردیہاتی باشندوں کو خانہ جنگی اور خونریزی سے بچانے کے لیے کیا تدا بیرا ختیار کی جائیں، کافی غورو خوض کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ قیامِ امن اور فروغِ تعلیم وصنعت وغیرہ کے لیے بلوچستان اور بلوچ آبادی رکھنے والے ہرضلع میں کم از کم ایک صد کارکن بھرتی کیے جائیں جن کا سیاسیات سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ وہ صرف سوشل اور مذہبی رسوم کی اصلاح کے لیے کام کریں۔
لہذا یہ اجلاس قومی کارکنوں سے درخواست کرتا ہے اور انہیں خاص ہدایات دیتا ہے کہ رضاکاروں کے انتخاب میں خاص طور پہ خیال رکھیں کہ رضا کار شرابی نہ ہو، جھوٹ نہ بولتا ہو، لڑائی جھگڑا کرنے والا نہ ہو اور نہایت مخلص اور نیاز مندانہ طریق پر سوشل اور مذہبی اصلاحات کے لیے جدوجہد کرسکتا ہو۔
یہ اجلاس گورنمنٹ سے درخواست کرتا ہے کہ اس سلسلے میں گورنمنٹ ہمارے کارکنوں کو ہر طرح سے مراعات دے کر ہمارے مقاصد میں ہماری مدد کرے ، تاکہ موجودہ خانہ جنگیوں کا انسداد کرکے بلوچستان کو اللہ کی فرمانبردار قوم اور گورنمنٹ کی امن پسند رعایا ثابت کرے ۔
محرک: صاحب صدر

۔17۔ یہ کانفرنس گورنمنٹ آف انڈیا سے استدعا کرتی ہے کہ وہ حدود بلوچستان کے اندر ریلوے ، پوسٹ ،ٹیلیگراف اور دیگر محکمہ جات کو جن کا تعلق براہِ راست گورنمنٹ آف انڈیا سے ہے یا تو بلوچستان کی حکومت کے ماتحت کردے یا ہمارے حقوق کی حفاظت کا خاص خیال رکھے۔
محرک : جام نوراللہ
موید: نوابزادہ میر شہباز خان

۔18۔یہ کانفرنس گورنمنٹ سے استدعا کرتی ہے کہ اگر چہ بلوچستان میں کسی غیر ملکی یا غیر زراعت پیشہ افراد کو انتقالِ اراضی کوقانوناً ممنوع قرار دیا گیا ہے لیکن پھر بھی درحقیقت اس پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا۔ یہ کانفرنس گورنمنٹ سے اپیل کرتی ہے کہ اس قانون کو عملی جامہ پہنایا جائے ۔ نیز Minors Actپہ بھی جس پر بھی عملدرآمد نہیں ہورہا۔
محرک : میر نوراللہ خان
موید: ماسٹر پیر بخش

۔19۔بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس کا یہ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ بلوچستان میں ایک علیحدہ گورنری صوبہ کی حیثیت سے آئینی حکومت کانفاد کیا جائے جس کو اپنے داخلی نظام میں مکمل آزادی حاصل ہو اور ڈیرہ غازی خان اور بالائی سند کے سرحدی اضلاع جن میں بلوچ نمایاں ہیں کو بلوچستان میں شامل کیا جائے۔
محرک : نوابزادہ یوسف علی کان
موید: میر نوراللہ خان

۔20۔ یہ کانفرنس گورنمنٹ بلوچستان سے استدعا کرتی ہے کہ بلوچستان کے محکمہ جات میں اصل ملکی باشندگان کو ان کی آبادی کے لحاظ سے نوکریاں دی جائیں۔ اور باہر کے لوگوں کی خواہ با تنخواہ یا بلا تنخواہ تعیناتی مکمل طورپر بند کردی جائے ۔ اور اعلی ملازمتوں کی نشستوں کو پر کرنے کے لیے ملکیوں کو ترقی دے کر اُن کے تناسب کو جلد از جلد پورا کیا جائے ۔ نیز اعلی تعلیم یافتہ اصلی ملکیوں کو براہِ راست اعلی عہدوں پر مقرر کیا جائے جس طرح باقی صوبہ جات میں ہوتا ہے ۔
محرک : اخوندزادہ عبدالرحیم خان
موید: میر مٹھا خان خضر ؔ مری

۔21۔ یہ کانفرنس حکومت بلوچستان وریاستی کنفیڈریشن آف بلوچستان سے استدعا کرتی ہے کہ بلوچوں میں تعلیم پھیلانے کیلئے جلد از جلد مندرجہ ذیل تجاویز پہ عملی جامہ پہنایا جائے۔

الف۔ محکمہ تعلیم ملکی افسرانِ تعلیم کے سپر د ہو۔ اس لیے از حد ضروری ہے کہ موجودہ سپرنٹنڈنٹ کی ریٹائرمنٹ کے بعد ملکی سپرنٹنڈنٹ مقرر ہو۔ لیکن موجودہ انسپکٹروں کی جگہ فی الفور ملکی انسپکٹر مقرر کیے جائے ۔
۔(ب)۔ پرائمری تعلیم کو بلوچستان میں ضروری اور لازمی قرار دیا جائے ۔ اور اس غرض کے حصول کے لیے دیہاتوں میں کافی تعداد میں پرائمری سکول کھولے جائیں اور سکول کھولنے کی شرط 20سے گھٹا کر 10طلبائی کی جائے ۔
۔(ج) ۔برٹش بلوچستان کی ہر تحصیل اور ریاستوں کے ہر ’’نیابت‘‘ میں ایک مڈل سکول قائم کیا جائے اور سردارانِ قوم پر زور دیا جائے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں سکول کھولیں اور غریب لڑکوں کے لیے وظائف مقرر کریں۔
۔(د) ۔ ہر مڈل سکول کے ساتھ ایک بورڈنگ ہاؤس قائم کیا جائے ۔
۔(ر) ۔بلوچستان کے ہر ضلع میں ایک ٹکنیکل سکول قائم کیا جائے جس میں ملکی دستکاری اور صنعت وحرفت سکھائی جائے تاکہ طلبہ کے لیے ذریعہِ معاش بھی بن سکے ۔
۔(س) ۔سکول اور کالج کی تعلیم کے موجودہ وظائف صرف بلوچستان کے اصل ملکی طلبہ کے لیے مخصوص کردیے جائیں اور ان وظائف کی تعداد بھی بڑھائی جائے ۔
۔(ص) ۔بلوچستان کو انٹرنس ایگز امیننگ یونیورسٹی بنایا جائے تاکہ ملکی لوگ نصاب تعلیم میں خاطر خاہ ترمیم کرسکیں۔
۔(ط)۔سکولوں کے وظائف خاص طور پر غریب ملکی طلبہ کو دیے جائیں اور دولتمند سرداروں اور معتبرانِ قوم کے لڑکوں کو قطعاً نہ دیے جائیں۔

محرک : اخوندزادہ عبدالرحیم خان
موید: جام میر نوراللہ خان

۔22۔ یہ کانفرنس مسٹر ریڈلے ڈپٹی کمشنر جیکب آباد کی ہمدردانہ روش پر جو انہوں نے کانفرنس کے حق میں برتی ہے ، ان کا شکر یہ بجالاتی ہے ۔
محرک : صاحب صدر

۔23۔ یہ کانفرنس خواجہ کمال الدین صاحب کی وفات حسرت آیات کو بوجہ ان کی تبلیغی مساغی کے ایک ملی صدمہ قرار دیتی ہے اور قاضی مطلق سے التجا کرتی ہے کہ انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے ۔
محرک : صاحبِ صدر

۔24۔ یہ کانفرنس حکومت بلوچستان سے استدعا کرتی ہے کہ آئندہ کوئٹہ میونسپلٹی میں آزاد انتخاب کے ذریعہ ممبر لیے جائیں ۔
محرک: جام میر نوراللہ خان
موید : میر مٹھا خان خضری مری

۔25۔یہ کانفرنس ڈسٹرکٹ بورڈ مظفر گڑھ سے مطالبہ کرتی ہے کہ سردار کوڑا خان مرحوم جتوئی بلوچ کی جائیداد متروکہ سے جووظائف سکولوں اور کالجوں کے طلبا کے لیے مقرر ہیں۔ اور زمانہ حال تک بلوچوں ہی کو ان کی تعلیمی پستی کو ملحوظِ خاطر رکھ کر ملتے رہے ہیں۔اور اب کسی نامعلوم وجہ سے وہ غیر بلوچوں کو ملنے شروع ہوگئے ہیں ، حلانکہ بلوچوں کی تعلیمی پستی ہمچوں سابق موجود ہے ۔ اس لیے اشد ضروری ہے کہ سابقہ قوائد جس کی رو سے بلوچوں کا حق وظیفہ لینے کا رائج تھا بحال کیے جائیں۔
محرک : صاحب صدر
موید: سردار غلام رسول خان کورائی

۔26۔بلوچستان کے لوگوں کی اکثریت کاگزر بسر اُن کی بھیڑوں کے ریوڑوں پر ہوتا ہے جو صرف بلوچستان میں چرائے جاتے ہیں۔ چونکہ غیر ملکی بالخصوص پاوندوں کو بلوچستان میں داخلے پر کوئی پابندی نہیں ہے، اس لیے وہ اپنی بھیڑوں اور گائے بیلوں کے ریوڑوں کو بلوچستان کی بہترین چراگاہوں میں چراتے ہیں۔ اُن پہ مال چرائی کا ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ کانفرنس حکومتِ بلوچستان سے اپیل کرتی ہے کہ وہ اِس ملک میں اُن کے داخلے کو ہمیشہ کے لیے بند کرے۔
محرک : میر مٹھا خان مری بلوچ
موید: جام میر نوراللہ خان

۔27۔یہ کانفرنس انجمن مجاہدینِ اسلام جیکب آباد کا شکریہ ادا کرتی ہے جس نے عیدگاہ میدان کانفرنس کے حوالے کی ، اور کئی مساجد میں میٹنگیں منعقد کرکے کانفرنس کی کامیابی میں مدد دی۔
محرک : صدر

۔28۔ یہ کانفرنس خان بہادر شیر محمد خان ایم ایل سی، خان دلمراد خان کھوسہ ، خان بہادر چاکر خان، میر دوست محمد خان کھوسہ ، وڈیرہ اللہ بخش اور مسٹر غلام سرور خان مغل کا دل سے شکریہ ادا کرتی ہے جنہوں نے اپنے گھر کانفرنس کے حوالے کیے۔
محرک: صدر

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*