آہ! ایک اور صبح

آہ ۔۔۔ ایک اور صبح۔۔۔ ابھی تو رات کی کسیلی گولی حلق سے نہیں اتری تھی اور یہ لامتناہی اندھیرے سے پھوٹتی روشنی۔۔۔۔ مطلب پھر سے سورج نکل آئے گا۔۔۔ زندگی جاگ جائے گی۔۔۔لوگ سڑکوں کو اپنے قدموں سے کُوٹنا شروع کر دیں گے۔۔۔۔ کسے ہوئے لانگ شوز ۔۔۔ نازک لچکیلی ہیلز۔۔۔ گھسے ہوئے جاگرز ۔۔۔ سب اپنے اپنے بلوں سے نکل آئیں گے۔۔۔۔ گول گول آنکھیں اپنے حلقوں میں ناچنے لگیں گی۔۔۔ اونچی تنی ہوئی گردنیں مجھے زمین پر رینگتا دیکھ کر اور بھی تن جائیں گی۔۔۔۔ یہ سب کتنا خوفناک ہے۔۔۔ ریڑھ کی ہڈی کے بغیر قدموں پر کھڑے رہنا کتنا مشکل ہے۔۔۔ اور قدموں پر کھڑے ہوئے بغیر تنی ہوئی گردنوں تک پہنچنا اور بھی مشکل۔۔۔۔ اور ان سے پرے ۔۔۔ بہت دور ایک اور تنا ہوا وجود۔۔۔ آہ! رہا سہا حوصلہ بھی سکڑ جاتا ہے۔۔۔ میں ان ساری تنی ہوئی گردنوں سے آنکھ بچائے رینگتے رینگتے وہاں تک پہنچ بھی جائوں ۔۔۔۔ مگر کچھ نہیں ہونے والا۔۔۔ رینگنے والوں کے لیے چلنے والوں کا مقابلہ کرنا آسان نہیں۔۔۔ مقابلے کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔ مقابلے کے لیے کچھ تو ہو۔۔۔ اجاڑ، گھن لگا،پیچیدہ جنگل کا جنگل ۔۔۔ ناتراشیدہ۔۔۔ پہلی کرن اس کھڑکی پر دستک دے رہی ہے۔۔ ابھی کچھ دیر میں ہر شے صاف صاف دکھائی دینے لگے گی ۔۔۔مطلب میں بھی ۔۔ ایک اور امتحان۔۔ کاش یہ مسکن میری قبر ہوتا ۔۔۔ مُردوں کی طرف کوئی نگاہ نہیں ڈالتا۔۔۔ انہیں قبروں سے نکلنے کی حاجت بھی نہیں ہوتی۔۔۔ انہیں مقابلہ نہیں کرنا پڑتا ۔۔۔ اور مجھے بھی مقابلہ نہیں کرنا۔۔۔ میں نے بگل بجنے سے بہت پہلے ہتھیار پھینک دیے تھے۔۔۔ دشمن بہت قوی تھا ۔۔ جب پہلے پہل میں نے اس کی جانب نگاہ کی تو اس کی آنکھوں میں سورج اترے ہوئے تھے۔۔۔ میرا وجود سمٹ گیا۔۔ آخری کوشش کے طور پر میں نے ایک اور سمت میں پرواز کی ۔۔ اور تب سے میری ریڑھ کی ہڈی غائب ہو گئی۔۔ اور فروغ کوئی ریڑھ کی ہڈی کے بغیر کیسے کھڑا ہو سکتا ہے۔۔۔ یہ بس رگیں ہی رگیں ہیں ۔۔ لامتناہی سا سلسلہ ۔۔ پیچ در پیچ اور ان میں خون کہاں رہتا ہے اور درد کہاں بہتا ہے ۔۔ سب گڈ مڈ ہے۔۔۔ زندگی کی بساط پر ہر شے بےترتیب ہے۔۔۔ بےہنگم زندگی۔۔۔ کچلی کچیلی ۔۔۔ رستے ہوئے ناسور جیسی ۔۔۔ ٹھہرو ذرا میں پچھلی رات کے خواب کی یہ کرچی بائیں آنکھ سے نکال لوں۔۔۔ ورنہ یہ میری آنکھ کو کچوکے دیتی ہی رہے گی۔۔۔ تمہیں پتہ ہے پچھلی رات خواب میں میرے پر نکل آئے اور میں نے پرواز کی۔۔۔ میں نے دشمن کے سر پر کئی چکر لگائے ۔۔۔ اُس کی آنکھوں میں خوف تھا ۔۔۔ اور میرے پروں میں بےشمار طاقت۔۔ تب میرے بس میں تھا ۔۔۔صرف ایک ضرب۔۔۔ مگر وہ خوف بھری آنکھیں۔۔۔اور میں نے پر سمیٹ لیے۔۔۔کیا کروں اس کچلائے وجود کو سمٹنے کی عادت سی ہو گئی ہے۔۔۔ اب یہ سب اپنے بس میں کہاں ہے ۔۔ تمہیں وہ مریل دھوپ میں لپٹا دھندلایا ہوا دن تو یاد ہو گا۔۔۔ جزئیات تو اب میرے ذہن سےبھی مٹ چکی ہیں۔۔۔ مگر وہ ہزیمت کا پہلا دن تھا۔۔۔ اور پھر وہ بھیانک رات جب پتا پتا بین کرتا تھا۔۔۔ اور ہوا چیخیں مارتی محسوس ہوتی تھی ۔۔۔ ہاں اسی وقت میں نے سچ مچ کی پرواز کی ٹھانی ۔۔۔ مگر اڑنے سے پہلے ہی میری ریڑھ کی ہڈی غائب تھی۔۔۔ دھوپ ان کھڑکیوں پر دستک دینے لگی ہے ۔۔۔۔ ٹھہرو ذرا میں یہ دبیز پردے چڑھا لوں ۔۔۔ ایک خوفناک بلاخیز طوفان کا مقابلہ کرنا اور دنیا کو ایک روشن دن میں دیکھنا دونوں ایک سے ڈراؤنے عمل ہیں۔۔۔ ہاں یہ بہتر ہے ۔۔۔ اب ہم ایک دوسرے کا چہرہ نہیں دیکھ سکتے ۔۔۔ نسبتا بہتر لگتا ہے۔۔۔ اس طرح جب باتیں کرتے کرتے کبھی کبھی میں رینگنے لگوں تو کوئی مجھے نہیں دیکھ سکے گا ۔۔۔ تو فروغ یہ وہ وقت تھا جب میرا وجود ڈھے گیا۔۔ پھر کبھی کھڑا نہ ہونے کے لیے۔۔۔ مگر دھڑدھڑاتے ہوئے قدموں کی آوازکو اس دھرتی کے قریب رہ کر میں نے بہتر طور سے محسوس کیا ہے۔۔۔ تم سوچو اگر تمہارا پیٹ زمین سے مل جائے تو تم ہلکی سی سرسراہٹ کے لیے بھی حساس ہو جائو ۔۔۔ مثال کے طور پر ابھی ابھی اس کھڑکی سے باہر اٹھنے والی مدھم چاپیں سیدھے چلنے والے قدموں کی نہیں ہو سکتیں ۔۔۔پچھلی رات ان قدموں نے لازمی ایک دلدل کو عبور کیا ہے۔۔۔ اور دور سے دھرتی کوٹنے کی آوازیں۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا سامنا کبھی سورج بھری آنکھوں سے ہوا ہی نہیں ہے۔۔ کیسے خوش قسمت لگتے ہیں ۔۔ مگر یونہی خالی خالی سے۔۔ پُتلے کے پُتلے ۔۔۔ ہر چیز نپی تلی ۔۔ کس بات پر کتنا ہنسنا ہے اور کس بات پر کتنے آنسو بہانے ہیں یہ سب انہوں نے ایک خفیہ ڈائری میں لکھ رکھا ہے۔۔۔ سو انہیں کوئی زحمت نہیں ہوتی۔۔۔ اور ادھر دائیں جانب کان لگائو ۔۔۔ دھپ دھپ ۔۔ دھپا دھپ ۔۔۔ دھپ ۔۔۔ آہ یہ ننھے ننھے پائوں تتلیاں پکڑنے کی چاہ میں ننگے ہی دوڑ پڑے ہیں۔۔۔ اور یہ رنگ برنگی تتلیاں کب کسی کے ہاتھ آتی ہیں۔۔۔ تتلیاں ، خواب ، خوشبو سب خطرناک چیزیں ہیں۔۔۔ اداس کر دینے والی ۔۔۔ یاسیت اور مجبوری کی یاد تارہ کرتے یہ رنگ ۔۔۔میرے مقہور وجود پر کوڑوں کی طرح پڑتے ہیں ۔۔۔ مستقل رہنے والی اور سکون دینے والی چیز یہ میٹھا میٹھا اندھیرا ہی ہے۔۔ جس سے مجھے کبھی خوف محسوس نہیں ہوتا ۔۔۔ چلو پھرکان لگاتے ہیں۔۔ یہ نازک جوتوں کی آواز ۔۔۔ تم نے جان لیا ناں ۔۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کی آنکھوں میں سورج اترتے ہیں۔۔۔ دل ڈرتا ہے فروغ ۔۔۔ اپنے اس ادھڑے وجود کے ساتھ ان آنکھوں کو دیکھنا کیسا مشکل کام یے۔۔۔ کیا مجھے تھوڑا سا رو لینا چاہیے۔۔۔ تنے ہوئے وجود سورج بھری آنکھوں کے ساتھ کیسے بھلے دکھتے ہیں۔۔۔ دھرتی پر پڑتی ان قدموں کی دھمک بےاختیار کلکاریوں سے بھری ہے۔۔ تمہیں پتہ ہے اگر میری آنکھوں میں بھی سورج اترے ہوتے تو یہ کلکاریاں میرے قدموں سے بھی پھوٹ سکتی تھیں۔۔۔ مگر میری آنکھوں میں تو دھند ہے یا کرچیاں۔۔ یہاں تمہیں راز کی بات بتائوں فروغ ۔۔۔ میں نے خواہشیں پوری ہونے والی رات میں بس یہی کچھ مانگا تھا۔۔۔ تمہیں تو پتہ ہے آنکھوں میں سورج اتارنے مشکل نہیں ۔۔۔ تنے ہوئے وجود کو لے کر دھرتی کو کوٹنا بھی کوئی ایسا بڑا کام نہیں۔۔۔ مگر دھند بھری آنکھوں سے کرچیاں چُن چُن کر نکالنا اور زمین پر رینگ رینگ کر چلنا بس اور سی بات ہے ۔۔۔ کیونکہ اگر تمہارا پیٹ زمین سے مل جائے تو تم ہلکی سی سرسراہٹ کے لیے بھی حساس ہو جائو گے۔۔۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*