غزل

اشک پیتے ہوئے حد درجہ حسیں لگتی ہوں

مسکرانے کے سبب خندہ جبیں لگتی ہوں

کیسے ممکن ہے سر شاخ اگوں ازسر نو

میں کوئی بیج ہوں کیا زیر زمیں لگتی ہوں

روز ملتے ہیں سر راہ گداگر جنھیں میں

کسی خوش باش علاقے کی مکیں لگتی ہوں

ٹوٹنا دل کا اسی ضرب سے ہو گا منسوب

خود سے ٹکرا کے ہراک بار وہیں لگتی ہوں

خالی کمرے میں کہاں ہوتی ہے چھپنے کی جگہ

نقش دیوار کی صورت ہی کہیں لگتی ہوں

کیوں مجھے چھوڑ کے جانے کو ہوئی ہے بیتاب

زندگی کیا میں تجھے اچھی نہیں لگتی ہوں

ماہنامہ سنگت اگست

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*