قرۃ العین حیدر

ان کی وفات کی خبر میرے لئے اتنی تکلیف دہ تھی جتنی کہ گھر کے کسی فرد کی ہو کہ جس نے آپ کو بچپن میں پھولوں، درختوں، ندیوں، دریاؤں اور جگہوں کے خوبصورت ناموں سے متعارف کرایا ہو۔ جس نے زبان کو Self expressionsکا ذریعہ بنانے کا ڈھنگ سکھایا ہو۔ جس نے کالج یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہوئے طلباء کو ذاتی زندگی کی تنگ گلیوں سے نکال کر تبدیلی کے خواب دیکھتے ہوئے دکھایا ہو۔ عینی کے ناولوں کے طالب علم بے چین روحیں ہیں۔ وہ نئی دنیا کے خواب دیکھتے ہیں اس دنیا کو حقیقت میں بنانے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں۔

عینی بی بی اس وقت بھی میرے ساتھ تھیں جب میں یونیورسٹی میں تھی۔ انہوں نے انسانی رشتوں کی کئی پرتوں کو دریافت کیا اور ان کے بارے میں لکھا اور وہ تو انہوں نے لکھنا ہی تھا۔ کیونکہ وہ اُردُو زبان کی ایک بے مثل ناولسٹ تھیں۔ بطور ناول نگار اُن کی آنکھ Unique انسانی Situation، انسانی کردار اور انسانی رشتے کو تلاش کر لیتی تھی۔

عینی بی بی متوسط طبقے کی تاریخ دان تھیں۔ چونکہ کچھ نقاد ناول کو تاریخ ہی سمجھتے ہیں۔ ان کے کردار زیادہ تر متوسط طبقے ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ چونکہ یہ ہی کلاس ہے جو علم حاصل کر رہی ہے، جو فنون لطیفہ سے وابستہ ہے، جو ڈرامے سے منسلک ہے، جو ریڈیو پر جا کر تقریر کرتی ہے، جو ستار سیکھتی اور جوکیمبرج اور آکسفورڈ کی یونیورسٹیوں میں جاتی ہے اور اپنی محنت اور ذہانت سے یونیورسٹی کے ریکارڈ توڑتی ہے اور پھر دیس دیس میں ملازمتیں کرنے چلی جاتی ہے۔

یہ محنت کش لوگ مڈل کلاس کے ہیں اور عینی ان کی تگ و دو ان کی جدوجہد کی بہت بڑی تاریخ دان ہیں۔ عینی نے اپنے ناول ”آگ کا دریا“ میں History of human selfکے بارے میں بہت خوبصورتی سے لکھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہر زمانے میں انسان کا ایک نیا Selfہوتا ہے۔ جس طرح باقی ہر چیز ارتقاء کا حصہ ہے اسی طرح Human selfبھی روبہ ترقی ہے۔ کہاں چمپا بائی کا Selfاور کہاں چمپا احمد جو کیمبرج کی یونیورسٹی کی طالب علم ہے۔ رُت بدلی، علم آگے بڑھا اور اس کے ہم قدم انسان کا Selfبھی آگے بڑھا۔ خاص طور پر خواتین کا Self۔ عینی بی بی کے ہاں خواتین کے بے شمار روپ ہیں، لیکن ایک بات ان سب میں قدر مشترک ہے کہ وہ شادی کو اپنی ذات کااختتامیہ نہیں سمجھتی ہیں۔ اوّل تو وہ شادی کرتی ہی نہیں ہیں اور اگر کر بھی لیں تووہ ان کے Selfکو Cancel outنہیں کرتی۔ ان کا ہونا بطور ایک فرد کسی نہ کسی طرح اظہار کی راہ ڈھونڈ ہی لیتا ہے۔ خواتین کرداروں کی حیران کُن Galaxy کی تخلیق عینی بی بی کا طرۂ امتیاز ہے۔

ان کا آخری ناول ”چاندنی بیگم“ ناول لکھنے کی تکنیک میں حیران کُن اضافہ ہے۔یہ ایک ایسا ناول ہے جس میں چاندنی بیگم یعنی مرکزی کردار شروع کے چند صفحوں میں ہی موت کے ہاتھوں ختم ہو جاتا ہے اور ناول پھر بھی چل رہا ہے۔ مرکزی کردار کسی بھی ناول میں Central Consciousnessہوتا ہے۔ واقعات اور حالات اسی کے شعور سے گزر کر ہی کچھ با معنی بنتے ہیں۔ واقعات کی Significanceیہی Central Intelligenceمتعین کرتی ہے اور یہاں ایک ناول ہے جہاں اس Central Intelligenceکو ناولسٹ نے اپنی بیساکھی نہیں بنایا اور ناول پھر بھی بامعنی ہے۔ شاید عینی بی بی یہ کہنا چاہتی ہیں کہ اب قاری اتنا سمجھدار ہو گیا ہے کہ وہ ناولسٹ کے ساتھ مل کر زندگی کو بامعنی بنانے کی کوشش میں اس کا ساتھ دے سکتا ہے۔ اپنے آخری ناول میں وہ ہم قاریوں کی ذہانت کو اپنے طریقے سے خراجِ تحسین پیش کر گئی ہیں۔ عینی بی بی نے ذہانت اور حسِ ظرافت کو ہمیشہ سراہا اور انسان کی جملہ صفات میں انہیں اولین حیثیت دی اور یہ بات انہیں ایک بار آور مڈل کلاس کی مصنفہ ثابت کرتی ہے۔ انسان کی ظرافت کی حس بھی ایک انقلابی سرگرمی ہے۔ چونکہ مزاح ایک اور نقطہ نظر ہے اور مڈل کلاس کے لوگ کہ جن کے Selfکا منبع علم ہے نئے نقطہ نظر کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ ان کی ثقافتی مہارتیں بھی اسی بات کو نمایاں کرتی ہیں اور ثقافتی مہارت تو انسان کی اس صلاحیت کو بھی نمایاں کرتی ہے کہ کتنا ہی بڑا دُکھ کیوں نہ ہو انسان اس کی پینٹنگ بنا سکتا ہے اس پر نظم لکھ سکتا ہے۔ اس کا دُکھ اسے برباد نہیں کر رہا بلکہ اسے اس کی تخلیق میں مدد دے رہا ہے۔ عینی بی بی خود بھی

Aesthetics of pain, Separatedness and Exile

کی نمائندہ ہیں۔ یہ وہ Formہے جو بیسویں صدی میں ہر ملک کے نمائندہ مصنف کی Formہے۔ اس Formکو بہت مختلف انداز میں لکھا گیا۔ لیکن جس نے بھی لکھا اس نے ثابت یہی کیا کہ انسان کا ہر Sheltering Experienceایک بات Affirmکرتا ہے کہ انسان کی Meaningدینے کی صلاحیت ختم نہیں ہوئی۔ اس لئے تلخ سے تلخ تجربہ عینی کے جملوں میں سمٹ کر حسن کا تجربہ بن جاتا ہے۔ عینی بی بی کے اس اسلوب کے سحر سے کوئی بھی نہیں نکل سکا۔ چنانچہ میں یہ کہنے کی جرأت کرنا چاہتی ہوں کہ اُردُو ادب اور اُردُو زبان کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ قرۃ العین حیدر سے پہلے کی تصنیفات اور ان کے بعد کی تصنیفات۔ اُردُو زبان کا حسن اور Potentialعینی نے خوب دریافت کیا۔ ایک بڑا مصنف بہت Impactرکھتا ہے۔

عینی بی بی کی ایک اور Contributionجو انہوں نے “World of Art and Thought”میں کی ہے وہ ان کا Faithانسان کی Civilizational Identityپر۔ Identityکا یہ تصور ہمیں مذہب اور نسل کی حدود سے پرے لے جاتا ہے اور ہم ایک ایسی دنیا میں آنکھ کھولتے ہیں جہاں انسان ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک شاندار سماج تخلیق کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

عینی بی بی کا شاید یہی پیغام ہے کہ ہر دم نئی دنیاؤں کے خواب دیکھے جاسکتے ہیں۔ نئی راہیں تلاش کی جا سکتی ہیں اور نئے انسان تخلیق کئے جا سکتے ہیں۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ۔ اگست

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*