سِیغ (عدت)

خود کلامی
عدم جب کسی بہت ہی قریبی کو چھین لیتا ہے تو ،رنگوں رنگینیوں کی دنیا جیسے یک رنگی سے رنگ دی جاتی ہے، کالے رنگ سے ۔ غم کا خرمن اعضا سُن کر لیتا ہے ۔ سکتہ ،یک دم بے توانی ،فالجی بے بساعتی ، عمیق بے بسی۔ ماں جیسے ڈاکرتی ڈاچی، باپ کی بہادری کی سینگیں پاش پاش ۔ دل دماغ ہمہ داغ داغ۔۔دنیا اجاڑجاتاہے پس ماند گان کی۔
وفا کی عدت کا کوئی مقرر وقت نہیں ہوتا! ۔ اور وفا کی عدت کے لیے عورت یا بیوی ہونا کہاں ضروری ہوتا ہے ۔ نہ ہی یہ اس کے رواج میں ہے کہ عدت ایک ہی ذات کی ہو۔ انسان شاید عمر میں بڑھتا اس لیے جاتا ہوگا کہ اُس کی عدتیں تعداد میں بڑھتی جائیں۔
وفا کی عدت تاحیات ہوتی ہے ۔ یہ الگ بات کہ زندگی کی ضرورتیں تقاضا لیے صبح شام من کے دروازے کھٹکھٹا تی ہیں۔۔ آہ یہی کھٹکھٹانا تو پھیکی اور بے رنگ دنیا میں پٹخے ہوئے کی ،قسمت میں ازسرنو ہولی زدگی ہوتاہے۔
مگر،انسان تو بنا ہی صرف مستقبل کی طرف دیکھتے رہنے کوہے ۔ بہت نامعلوم طور سے حال ،ماضی قریب بنتا جاتا ہے ،مزید دھندلا تاجاتا ہے ، ماضی بعید بنتا جاتا ہے۔ اور پھر کہیں ایک مدہم ومبہم سانقطہ بن کر رہ جاتا ہے۔ماضی کوہارماننا ہوتا ہے ۔ جبکہمستقبل کے سامنے ہارماننی ہوتی ہے ۔
چنانچہ اے عدتی انسان! تیرا غم ذاتی غم ہے ، اُس نے دل کی دیواروں پہ نوکدار حملے کرتے رہنا ہے۔ آخری سانس تک اُسے دوسروں پر مسلط کرنے کا حق تمہیں حاصل نہیں۔
سو، سرکو جھٹک دے اشرف المخلوق! ۔تم نے جن بدنصیبوں کی ترجمانی کا بد بخت عہدہ بزعم خود سنبھال رکھا تھا اُس میں اپنی شخصی بد بختی بھی شامل کر۔اُن پُر محبت دلوں کو ولولوں سے بھرتاجا، اور مزید زور سے کہہ: ’’اے موت! تجھ سے دشمنی ابدی۔ہرنسل کے ہر فرد نے اپنی زندگی بتادی تمہیں مدفون کرنے کی جُہد میں، اور ہر نسل کا ہر فرد تجھے ملتوی کرنے میں ذرا ذراکامیاب بھی رہا ۔مگر ہم تیری جڑ اکھاڑ نے میں ابھی تک ناکام رہے۔ ہر اشرف بشر نے اپنی بانہوں میں سے اپنے بَچھڑے کو چھینتے ہوئے تمہیں دیکھا، تیری سفاک جیت جھیل لی۔اوراب تک تو تُو زور ہے ۔مزید بھی کافی عرصے تک تیرا جیتنا اٹل ہے۔ابھی تک عصر نے وہ حالات جنے ہی نہیں جس میں اے دشمن تجھ کو شکست ہو۔ مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ ۔اس اچھے کام نے دیر سویر ہونا ہی ہے ۔ اُسے جلد از جلد وقوع پذیرہونے کی کوششوں میں مگن لوگوں ہی کو تو روشن خیال کہا جاتا ہے ۔ سووہ سب ہاتھ دھو کرتیرے پیچھے پڑے ہیں۔اشرف انسان تجھے ضرور پچھاڑ دے گا۔
اس لیے کہ زندہ رہنے کا بنیادی ہدف اورسبب زندگی کا تحفظ کرناہے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*