تصویر کا دوسرا رخ

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے پنجاب کے وزیراعلی عثمان بزدار مشرف دور میں تحصیل ناظم بنے، ق لیگ میں شامل ہوئے، پھر 2013 کے عام انتخابات میں نون لیگ کے امیدوار تھے، لیگی دور اقتدار میں ن لیگ کا حصہ رہے اور 2018 کے عام انتخابات سے پہلے جنوبی پنجاب محاذ کے نام سے ن لیگ سے الگ ہونے والے گروپ کا حصہ بنے اور انتخابات سے کچھ دن قبل تحریک انصاف میں شامل ہوئے، پی پی 286 ڈیرہ غازی خان 2 سے 27 ہزار ووٹ لے کر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے، اور اب تبدیلی کے وزیر اعلی پنجاب ہوں گے۔

عثمان کے والد فتح محمد بزدار ضیا الحق دور میں ضلعی شوری کے ممبر اور 1985تا 1988 اور پھر 2008 تا 2013 پنجاب صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے، یوں عثمان بزدار بھی ضیا الحق کی باقیات اور موروثی سیاست کی پیداوار ہیں لہذا موروثی سیاست کے علم برداروں کو نوید ہو کہ نئے پاکستان میں موروثی سیاست اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ رہے گی۔

عثمان بزدار اپنے قبیلے کے سردار بھی ہیں، لہذا سرداری نظام کے کاسہ لیس بھی مایوس نہ ہوں نئے پاکستان میں جاگیرداروں اور سرداروں کا تسلط بھی برقرار رہے گا۔

عثمان بزدار اور ان کے والد فتح محمد بزدار کا قبیلہ اصل میں بلوچ ہے، دونوں حضرات بلوچ قوم پرست سیاست کے حوالے سے بھی شہرت رکھتے ہیں اور عثمان کے والد ایک زمانے میں پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان، راجن پور، تونسہ اور سندھ کے ضلع جیکب آباد کو بلوچستان میں شامل کرنے کی تحریک چلاتے رہے ہیں، یوں سندھ اور پنجاب کی تقسیم ان باپ بیٹوں کی دیرینہ خواہش ہے۔ اور اسی خواہش کی تکمیل کے لئے 2018 کے انتخابات سے قبل وہ ن لیگ چھوڑ کر جنوبی پنجاب محاذ کا حصہ بنے جو کہ بعد ازاں تحریک انصاف میں ضم ہوگیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عثمان بزدار اپنی وزارت اعلی میں جنوبی پنجاب یا گریٹر بلوچستان کے ایجنڈہ کو کتنا آگے بڑھاتے ہیں۔ ان کی وزارت اعلی پاکستان میں قوم پرستوں کے لئے بھی خوش خبری ہے کہ انہی کے قبیلے کا ایک فرد پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلی بن رہا ہے، اس لئے امید کی جاسکتی ہے کہ نئے پاکستان میں قوم پرستی کو فروغ حاصل ہوگا۔

نو منتخب وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان نے عثمان بزدار کو وزیر اعلی نامزد کرتے ہوئے ان کے علاقے کی پسماندگی کا ذکر کیا ہے اور یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ ان کے علاقے میں نہ پانی ہے نہ بجلی، مگر وہ یہ بتانا بھول گئے کہ عثمان بزدار اسی علاقے سے 2001 تا 2006 تقریبا 6 سال تحصیل ناظم رہ چکے ہیں، ان کے والد دو بار ملا کر 8 سال اسی علاقے سے صوبائی اسمبلی کے ممبر اور اس سے پہلے ضلعی شوری کے ناظم رہ چکے اور سب سے بڑھ کر یہ نسل در نسل اپنے قوم کے سردار ہیں، تو کیا عثمان بزدار اور ان کے والد اس علاقے کی پسماندگی سے بری الذمہ ہو سکتے ہیں؟

دوسری طرف نو منتخب وزیراعظم پاکستان عمران خان کی قومی اسمبلی میں دھواں دار تقریر، کڑے احتساب اور بدعنوانی کے خاتمے کے اعلانات زبردست ھیں.

تصویر کا یہ رخ انتہائی مایوس کن ہے، اور 18 اگست 2018 کا نیا پاکستان کافی کچھ 2013 اور اس سے پہلے کے پرانے جیسا نظر آتا ہے۔

اللہ کرے ہمارے تمام اندیشے غلط ہوں اور 100 دن بعد ہم بدلا ھوا پاکستان دیکھیں.😱😱

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*