سائنسدان اور جمہوریت

گذشتہ چار پانچ صدیوں میں تاریخی شواہد سے روشن، یہ حقیقت دیکھنے میں آئی ہے کہ معاشی و اخلاقی ترقی اور جمہوریت کی گاڑی نے اُن ممالک میں رفتار پکڑی جہاں سائنسدانوں، فلسفیوں، موجدوں اور اہلِ فکر دانشوروں نے جنم لیا۔ جہاں لوگ جاگیرداروں،سرداروں، وڈیروں اور مذہبی پروہتوں، پوپ پادریوں، اور مولوی، پیروں سے آزاد ہو گئے تھے۔ جہاں ہر طرح سے سوچنے کی آزادی تھی، جہاں لوگ اجتماعی خیر و فلاح کے لیے جہد آزما تھے۔

مغرب کی ترقی اور جمہوریت کی جہد مسلسل کا انتہائی مختصر خاکہ

”دنیا کے تقریباً تمام ملکوں کو اپنے قومی سفر میں عروج وزوال سے بالضرور واسطہ پڑتا ہے چنانچہ مغرب کو بھی ہزار سالہ تاریک عہد سے گزرنا پڑا۔ ان اندھیروں کا ذمہ دار اور اصل سبب (۱) بادشاہ (۲) اہلِ کلیسا (۳) جاگیردار اور امراء تھے، جو اپنے حواریوں اور چاپلوسوں کے ساتھ خود تو عیش اور مسرت کی چکاچوند میں رہتے تھے جب کہ ظلم و جبر، محرومیوں اور جور و ستم کے تمام اندھیرے فقط مظلوم اور غریب عوام کے لیے تھے۔

یہ یورپ کے سائنسدان، فلسفی اور موجد تھے جن کی معجزاتی تخلیقات و ایجادات نے ایک دنیا کو دم بخود کر دیا تھا۔ یہ دانشور، ادباء اور شعراء ہی تھے کہ جن کی تہلکہ خیز تحریروں اور انقلابی افکار نے متوسط اور عوامی طبقات کے دلوں میں آتش فشاں بھڑکا دیے تھے۔

سائنسی و اہلِ فکر ہستیوں کی برپا کردہ ”تحریک احیائے علوم، تحریک اصلاحِ مذہب، تحریک فروغِ عقل و سائنس، تحریک فضیلت وشرفِ انسان، تحریک ِجمہوریت اور تحریک انقلابِ فرانس“ وغیرہ نے جدید عہد کی بنیادیں فراہم کر دی تھیں۔ ان عظیم الشان تحریکوں میں کچھ عقل افروز تھیں تو کچھ ہیجانی، جوش آفریں اور ولولہ انگیز تحریکیں تھیں۔ جن سے شدید طور پر متاثر، ہزارہا سال سے محرومِ حقوق مظلوم، سسکتے تڑپتے اور غموں سے ٹوٹے عوام اب غیظ و غضب سے شعلہ زن مشتعل تھے۔ چنانچہ وہ برہنہ پا اور آگ اُگلتے لوگ بادشاہوں، اہلِ کلیسا اور جاگیرداروں کے خلاف جنگجویانہ اٹھ کھڑے ہوئے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پوپ پادری پسپا ہو کر گرجوں میں بند ہوگئے۔ بادشاہوں کا اقتدار جاتا رہا، نہ بادشاہ باقی رہے اور نہ اُن کے تخت و تاج! جاگیردار تو کیا، نئے دور کے معماروں نے تاریخ سے جاگیرداری عہد کو ہی سرے سے مٹا دیا۔

لوگ سائنسدانوں، انقلابی و آزادی پسند ادیبوں، شاعروں اور روشن فکر دانشوروں کو نہ صرف پسند کرنے لگے، بلکہ ان کے گرویدہ ہو گئے۔ عوام و خواص، سب کے دل و دماغ تبدیلی کی زد میں تھے۔ سوچیں بدل رہی تھیں اور سوچنے کے طریقے بھی بدلنے لگے تھے۔ اب لوگ منطق اور عقل و سائنس کی زبان بولنے کے عادی ہو رہے تھے۔ گویا اب وہاں پرانی دنیا مٹ چکی اور نئی دنیا وجود میں آ رہی تھی۔ یہ نئی دنیا، نئے عہد یعنی سائنسی و صنعتی عہد کی نوید تھی۔ اس عہد سے مغرب دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگا۔ ترقی کے ساتھ ساتھ سماج بھی اب دن بہ دن بڑی بڑی تبدیلیوں کی لپیٹ میں تھا۔ جمہوریت کی صبح طلوع ہو چکی تھی، وہاں اب آزادی، اخوت، مساوات اور ترقی کے ڈنکے بج رہے تھے۔ جمہوریت کے لیے پبلک کی چاہت اور عشق قابلِ رشک تھا۔ اگرچہ جمہوریت کا سورج مغرب سے نکلا تھا لیکن پھر رفتہ رفتہ ساری دنیا میں اس کے چرچے پھیلنے لگے۔ آپ نے دیکھ لیا کہ جمہوریت کے سورج کے بغیر دنیا کس طرح اندھیر تھی۔ اب جبکہ اس سورج کا کم و بیش تمام دنیا پر راج ہے تو کس طرح وہ لوگ جو حقارت و ذلت کا شکار اور مسلسل ظلم و جبر کی چکی میں پس رہے تھے، جدید روشنی میں باوقار ہو گئے۔ یہ سب سائنسی ترقی اور جمہوریت کی بدولت تھا۔

جمہوریت کیا ہے؟

جمہوریت نہ ہو تو زندگی کیا ہوتی اور کیسے گزرتی ہے؟ اور جب جمہوریت ہو یعنی خلقِ خدا کا راج ہو تو پھر اس کے کیا دلکش نتائج برآمد ہوتے ہیں؟؟ دو مختلف قسم کے نتائج کو جان کر ہی ہم حقیقی جمہوریت کے قیام کی جدوجہد میں شریک ہو سکتے ہیں۔ حقیقی جمہوریت سے مراد و مقصد یہ ہے کہ عوام جیسے اور اصل عوامی نمائندوں کے ذریعے عوامی حکومت کے قیام کو ممکن بنایا جائے۔ یہ جمہوریت ہی ہے جو عوام کو حقوق عطا کرتی ہے جو کہ مہذب معاشرے کی علامت ہے۔

ملکی ترقی کے لیے سائنسی کلچر کے فروغ کی ضرورت ہوتی ہے اور سیکولر و سائنسی علم کے فروغ کے لیے جمہوریت کا ہونا ضروری ہے۔ یعنی ایسا ماحول جہاں ہر کسی کو اپنی آزادانہ رائے کے اظہار کا حق ہو، جہاں علم اور نظریات پر پابندی نہ ہو۔

کسی مہذب ریاست کے تمام شہری کسی فرق اور درجہ بندی کے بغیر ریاست کے مساوی رکن ہوتے ہیں۔ حریت ِفکر کے لیے جمہوری نظام اور جمہوری ماحول کا ہونا لازمی ہے۔ جمہوریت صرف انسان کی صلاحیت و لیاقت کو پیشِ نظر رکھتی ہے، رنگ و نسل اور مذہب کے امتیازات کا لحاظ نہیں کرتی۔ استبداد اور غربت؛ اخلاق، اچھائی اور آزادیئ فکر کو برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔ استبداد اعلیٰ جذبات اور شریفانہ احساسات کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ اس میں انسانوں پر ظلم و نا انصافی اور انسانی زندگی کی بے قدری ہوتی ہے۔ عوام حیوانوں کی سطح پر زندگی گزارتے ہیں۔ غیر جمہوری اقوام کے لوگ سست، بزدل اور لاغر ہوتے ہیں۔ لاغر جسموں کے اندر دماغ بھی کمزور ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اُن کی سوچ بھی منفی، پراگندہ اور پست ہوتی ہے۔ آمروں یا بادشاہوں کی اطاعت و فرمانبرداری، خوف اور بزدلی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس میں انسان کی عظمت کو بونا بنا دیا جاتا ہے۔ آزاد جمہوری ماحول میں سائنسدان، فلسفی، اعلیٰ درجے کے دانشور اور دیگر علوم کے علماء پیدا ہوتے ہیں۔ عمرانی و سائنسی علوم ترقی کرتے ہیں، اس کے برعکس جہاں گھٹن، تنگ نظری اور مذہبی جنونیت کا تسلط ہو، وہاں سائنسدان، فلسفی اور دانشور اور آزاد فکر علماء جنم نہیں لیتے۔

آٹھویں صدی کے دانشوروں کی عقلیت پسندی کے آزادانہ فلسفیانہ ماحول کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں بے شمار مسلمان سائنسدان، مؤرخ، فلسفی اور اعلیٰ درجے کے دانشور پیدا ہوئے۔ لیکن انہی ممالک میں ابوالحسن الاشعری کے جامد مذہبی افکار کے پھیلاؤ اور تنگ نظر علماء کے فتوؤں اور مخالفت کے نتیجے میں آہستہ آہستہ دانشوروں کی عقلیت پسندی کی تحریک کمزور ہوتے ہوتے ختم ہو گئی۔ اور بالآخر مسلمانوں میں سائنسدانوں، فلسفیوں اور دانشوروں کا قحط الرجال پیدا ہو گیا۔ تعلیم، صنعت کاری، سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی،آمریت کا خاتمہ کر کے جمہوریت کی راہ ہموار کرتے ہیں۔

جمہوریت کے دیگر لوازمات کے ساتھ ایک، باقاعدہ وقفوں کے ساتھ انتخابات کا انعقاد ضروری ہے۔ پاکستان میں جمہوریت اس لیے مستحکم نہ ہو سکی کہ یہاں جاگیرداری کلچر کی فضا 1947ء سے اب تک موجود ہے جس کی وجہ سے صنعت کاری اور سرمایہ داری کا فقدان رہا ہے۔ جمہوریت کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی پارٹیوں میں عہدے دار نیچے سے منتخب ہو کر اوپر آئیں اور اُمیدواروں کے چناؤ میں علاقے کے عوام کو مشاورت میں شریک کیا جائے۔ یہاں پارٹیوں میں آمرانہ سیاسی کلچر ہے۔ پرانے کارکنوں اور قربانیاں دینے والے سیاسی رہنماؤں کی نسبت پارٹی کو زیادہ فنڈز دینے والوں کو زیادہ اہمیت ملتی ہے۔ پارٹیوں میں احتساب، تنقید، اختلافِ رائے اور بحث کا کلچر دم توڑ چکا ہے۔ آہستہ آہستہ قیادت کارکنوں کی طرف منتقل ہونی چاہیے۔ جب تک سول حکومتوں کی طرف سے عوام کو بنیادی ضروریاتِ زندگی بخوبی میسر نہ ہوں، جمہوریت مستحکم نہیں ہو سکتی۔ جمہوریت کی بقا کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ قانون سازی، انتظامی اور عدالتی اختیارات الگ الگ اداروں کے پاس ہونے چاہئیں۔ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کو اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرنا چاہیے۔ اس طرح آمرانہ فضا پیدا نہیں ہو گی۔ جمہوریت کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں آئین و قانون کی بالادستی ہو، نہ کہ کسی فردِواحد یا ایک گروہ کا جبر و تسلط۔

جمہوریت کی بقا کے لیے عدلیہ کا آزاد ہونا بھی ضروری ہے۔ جب تقسیمِ اختیارات پر صحیح عمل ہو گا اور قانون کی حکمرانی ہو گی، نتیجتاً عدلیہ بھی آزادی سے کام کرے گی۔ ذرائع ابلاغ کی آزادی بھی جمہوریت کی بقاء اور استحکام کی ضامن ہوتی ہے۔ ایسے معاشرے جہاں اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر حکومت کا قبضہ ہو، عوام دوسرے ممالک کے ذرائع ابلاغ (بی بی سی لندن، وائس آف امریکا وغیرہ) پر انحصار کرتے ہیں۔ مغربی ممالک میں ذرائع ابلاغ حکومت پر تنقید کرتے اور اس کا احتساب کرتے ہیں۔ وہ حکمرانوں کو آئین کی حدود میں رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔

جمہوریت کی بقا اور تحفظ کے لیے معاشی عدل کی فضا کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ اگر شہری معاشی مسائل کا شکار ہوں گے تو وہ سیاسی معاملات میں دلچسپی نہیں لیں گے۔ ان کو سیاست سے تبھی دلچسپی پیدا ہو سکتی ہے اگر اُن کی بنیادی ضروریاتِ زندگی پوری ہو رہی ہوں۔ اگر ہم نے اپنے ساتھی انسانوں کے ساتھ مل کر رہنا ہے اور اجتماعی زندگی کے فوائد سے بھی سیراب ہونا ہے تو ہمیں اپنے ذاتی مفادات کی کسی حد تک قربانی دینا پڑے گی۔

جمہوریت اور متوسط طبقہ

جمہوریت کے تسلسل اور بقا کے لیے سیاسی، معاشی اور معاشرتی لحاظ سے مضبوط متوسط طبقے کا خاصی اکثریت میں ہونا ضروری ہے۔ درمیانہ طبقہ حکمران، بالادست طبقے کی بے راہروی اور بے اعتدالی کی مزاحمت کرتا ہے۔ معاشی اصلاحات اور ترقی کے ذریعے بھی غریب لوگ چند درجے اوپر آ کر درمیانے طبقے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ پاکستانی نژاد برطانوی شہری محمد صادق ایک بس ڈرائیور کا بیٹا تھا، صلاحیت کی بناء پر لندن کا میئر بن گیا۔ جبکہ پاکستان میں صلاحیتوں والے، حق دار، سیاسی ترقی سے محروم رہ جاتے ہیں۔

”سٹیٹس کو“ کا جبر مسلسل، فریبیوں کے ڈھونگ اور منزل سے محروم خوار و زبوں عوام

ایک طویل عرصے سے ہم صرف فرقہ وارانہ منافرت اور لسانی و علاقائی بڑائی و عصبیت کی لپیٹ میں ہی نہیں ہم طرح کے انتشار اور بحرانوں میں ڈوبے، اندھیروں میں گرتے پڑتے، ہولناک دلدلوں میں دھنسے ہوئے ہیں۔ کارواں بے سمت و بے منزل ہے۔ ہم اجتماعی شعور اور اجتماعی مقصد سے خالی ہو چکے ہیں، کوئی قومی آرزو و تمنا تو کہاں اب تو غبارِ تمنا بھی باقی نہیں رہا۔

ہمارا بنیادی روگ ہی یہ ہے کہ عام طور پر ہم سب اس خوش گمانی میں پڑے رہتے ہیں کہ اگر ہم ذاتی فوز و فلاح اور انفرادی ترقی میں کمال پا لیں تو پھر ہم ہر لحاظ، ہر پہلو اور ہر نشیب و فراز سے محفوظ و مامون ہو جائیں گے۔ تب ہم پر کبھی کہیں سے کوئی قومی افتاد، کوئی ملکی ابتلاء یا کوئی ناگہانی آفت نہیں پڑے گی۔ حالانکہ اجتماعی اصول اور تاریخی دستور یہ ہے کہ اگر کوئی قوم مجموعی طور پر ترقی و عروج کے راستے پر گامزن نہیں اور ابتر حالات سے گزر رہی ہے تو اس قوم کے افراد اپنی ذاتی ترقی و کامرانیوں کو ہرگز ہرگز دائمی نہ سمجھیں کیونکہ وہ ابتر حالات اور قومی زوال، انجام کار اپنے افراد کو کسی وقت بھی آ لیں گے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ملک تو قرضوں میں ڈوبا ہوا ہو، عالمی سطح پر اس کی کوئی عزت نہ ہو، لیکن قوم اس کے انجامِ بد اور وبال سے بچ جائے؟ اگر کشکول اس کے ہاتھ سے نہیں چھوٹتا تو پھر وہ وقت بھی آ سکتا ہے کہ ہنستے پھولوں کو، کانٹوں میں الجھے روتے ہوؤں کے ساتھ ہی رونا اور تڑپنا پڑ جائے۔ مطلب عرض کرنے سے یہ ہے کہ آسودہ حال لوگ فقط ذاتی کامیابیوں کے پیچھے ہی نہ بھاگتے رہیں بلکہ قومی بہبود و ترقی کے مقصد و آرزو کو بھی ہمیشہ اپنے دل میں مقدم اور فعال و متحرک رکھیں تاکہ ملک اور پبلک کی ترقی کی سطح اور رفتار میں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ اور ایک دوسرے کے قریب قریب ہوں۔

سوچئے کہ آخر حیوانوں اور انسانوں کے درمیان کیا بنیادی فرق ہے؟ ما سوائے شعور و آرزو کے، معلوم رہے کہ شعورِ آرزو کی مہک اور آرزوئے شعور کی حرارت دونوں ترقی و تہذیب کی بنیادی علامتیں ہیں جنہوں نے اپنے اندر قومی مقصد کا چراغ نہیں جلایا، گویا وہ مثل حیوانوں کے ہیں۔ ہمارے سامنے چین کی ترقی کی اعلیٰ مثال موجود ہے۔ جاپان ہو یا چین، ان کے فرد فرد کے اندر قومی عروج و ترقی کی جیسے آگ بھری ہو، وہ تڑپتے ہیں کہ ”بس ہمارا ملک دنیا میں سب سے آگے رہے“۔

ہم بھی خود کو ٹٹولیں کہ کیا ہمارے اندر بھی ان کی طرح کی آگ، کوئی تڑپ، کوئی ارمان موجود ہے کہ ہم بھی ترقی کریں اور چین، جاپان، جرمنی کی طرح عالمی معاشی مسابقت کی دوڑ میں شریک ِمقابلہ ہو جائیں۔

بات ہو رہی تھی اندر اور باہر کے اندھیروں کی، اب حقیقت ِحالِ زار و زبوں یہ ہے کہ ہمیں کوئی راہ نہیں سُوجھ رہی،بہتّر (۲۷) سال میں سٹیٹس کو کے جابروں، جرنیلوں، جاگیرداروں، سول بیورو کریسی (افسر شاہی)، صنعتکار سرمایہ داروں اور مولوی پیروں سب ڈاکوؤں، مکاروں نے مسلسل ہمیں دھوکے میں رکھا۔ ان خونخواروں کی وجہ سے عوا کے دن قہر اور راتیں زہر بنی ہوئی ہیں۔ ان کے پاس سوائے دُکھ اور مایوسی کے زہر کے کچھ نہیں۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی خزانہ خالی ہے، عوام پر قرضوں پہ قرض چڑھ رہے ہیں۔ غربت، مہنگائی، ظلم و بے انصافی اور بے روزگاری کے بارود عوام کی چیخیں نکلوا رہے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اندر و باہر کے متذکرہ اندھیروں سے کیونکر نکلا جائے؟ ہم کس عنوان کی جدوجہد سے معاشی و اخلاقی ترقی کی جانب پیش رفت کریں؟ اور فیوڈو کریسی یعنی جرنیلی و جاگیردارانہ جمہوریت کی بجائے حقیقی اور عوامی جمہوریت کا خواب کیسے شرمندہئ تعبیر ہو گا؟

اس ضمن میں گزارش ہے کہ ملک میں ٹھوس، حقیقی اور وقیع تبدیلی کے لیے ہمیشہ اول اور بنیادی کام پبلک کی ذہن سازی کا کام ہوتا ہے، لوگوں کو سیاسی شعور دینا، لوگوں کوجمود سے نکالنا، ان کی سوچوں کو بدلنا اور ان کو متحرک و فعال بنانا، یہ تبدیلی کا پہلا قدم ہے۔ تعلیم یافتہ لوگوں کو آگاہ و خبردار کرنا کہ سیاسی تبدیلی کا کام نہ کرنے کے کیا نقصانات اور کرنے کے کیا فوائد اور کیا برکتیں ہیں۔ یہاں پر یہ سوچنا اشد ضروری ہے کہ یہ جو عوام دشمن قوتیں صدیوں سے وسائل پر قابض، ریاست پر قابض، سیاست پر ان کے پنجے، حکومت پر قابض، پولیس تھانوں، قانون کچہریوں پر قابض…… انہوں نے آج تک عوام کو آزاد نہیں کیا، کیوں؟ کیا یہ ایسے ہی یعنی خود سے سارے قبضے چھوڑ دیں گے؟ …… نہیں، ان جبارین کو ری پلیس Replace کرنے کی جدوجہد ایک دینی، انسانی اور مقدس فریضہ ہے۔

لہٰذا اس وقت سب سے پہلے ہماری Intelligentsia کا عوامی فریضہ ہے کہ وہ اپنے دماغ کو سیاسی اور فکر کو سائنسی بنائے۔ انٹیلی جینشیا سے مراد ڈاکٹرز، انجینئرز، پروفیسرز، وکلاء، اساتذہ، طلباء، صحافی، ادباء اور شعراء ہیں۔ Intelligentsia خود کو بھی سوچ و فکر اور مطالعے کی ریاضت سے تیار کرے اور دوسروں، احباب وغیرہ کو بھی سیاسی ذہن اور سائنسی فکر بنائے۔ یہی روشن فکر سیاسی ذہن جب عوام سے جُڑیں گے تو تب ترقی اور جمہوری سوچ پروان چڑھنے کے امکانات روشن تر ہوتے جائیں گے۔

ماہنامہ سنگت اگست

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*