17 اگست

یہ اس شام پہلا اور آخری محرم تھا جس میں امام بارگاہوں میں کچھ گھنٹے جشن کا سماں تھا اور مٹھائیاں بٹی تھیں۔

لیکن17 اگست 1988 کی اس دوپہر میں اپنے دوست ذولفقار شاہ با المعروف پپوشاہ کیساتھ شیعہ عالم عبدالغفور جانوری کیساتھ حیدرآباد سے بھٹ شاہ نکلا تھا اور ہمارے ساتھ ہمارا دوست اور زمیندار ملنگ المولا بھی ساتھ تھا ۔ملنگ المولا ایک دلچسپ انسان اور کردار تھا۔ جسکے بس تین شوق تھے جن کے پیچھے اس نے اپنی ملکیتیں لٹا دی تھیں اچھے گھوڑے، ٹویوٹا جیپیں اور محرموں میں مجلسوں میں مہنگے ذاکر اور مولوی منگوا کر ان سے مجالس پڑھوانا۔

میں ایک لا مذہب شخص لیکن مجھے ایسے لوگوں اور مواقع سے ایک انسیت رہی ہے اور میں بھی کبھی کبھار دس دن کلچرلی عزادار بن جاتا رہا ہوں۔ رئیس ملنگ المولا کے بھی سعیدآباد کے پاس آموں کے باغات تھے اور سنا ہے وہ ایک سندھی اخبار کے اوائلی مالکوں میں سے بھی تھا۔ علامہ عبدالغفور جانوری کو اس دن بھٹ شاہ میں شاہ عبداللطیف کے روضے کے آنگن میں مجلس پڑھنی تھی پپو شاہ کو ماتم کرنا تھا اور رئیس کو مجلس سننا تھی۔ مجھے شاہ بھٹائی کی کرنا تھی زیارت اور لگانے تھے سٹے فقیروں کے ساتھ بیٹھ کر۔

جب ہم وہاں پہنچے تواسوقت شاہ بھٹائی کے روضے کے آنگن میں ماتم ہو رہا تھا۔ تو میں نے رئیس ملنگ المولا سے ازراہ تفنن کہا “یہ کیا آپ لوگوں نے شاہ لطیف بھٹائی جیسے شاعر اور درویش کو یرغمال بنایا ہوا ہے” “ ہم نے لطیف سرکار کو یرغمال ہرگز نہیں بنایا کامریڈ۔ لطیف سرکار نے ہمیں اپنا اسیر بنایا ہوا ہے۔” رئیس ملنگ المولا نے کہا۔ ملنگ المولا سندھ کے کئی رئیسوں وڈیروں کو جانتا تھا اور میری ایک لالچ انکے متعلق کہانیاں ان سے سننے کی بھی تھی۔

شاہ لطیف کے روضے کے صحن میں ماتم رک گیا اور علامہ عبدالغفور جانوری کی مجلس شروع ہوئی۔ علامہ عبدالغفور جانوری کی مجالس سینکڑوں لوگوں کو اپنی طرف کھینچا کرتی کیونکہ وہ ان دونوں یزید وقت جنرل ضیا الحق کیخلاف زبردست تقریریں کیا کرتا تھا۔ اس سال تو ویسے بھی مومنین میں غم و غصہ بہت پایا جاتا تھا کیونکہ شیعہ رہنما عارف الحسینی کا پشاور میں قتل ہوا تھا اور ان میں سے اکثریت سمجھتی ہے کہ اس قتل کے پیچھے ضیا الحق کا ہاتھ ہے۔ سازشی تھیوریاں چل نکلی تھیں کہ بس اس عید الاضحی پڑھ کر جب عیدگاہ سے نکلیں گے تو اس ملعون کی کھٹیا کھڑی ہوئی ہوگی۔

“ جب آم پک کر پھٹ جائیں گے تو تمہیں تخت مل جائے گا” اس بہار میں بینظیر بھٹو کو بنگلہ دیش کے بنگالی بابے نے بتایا تھا جس بابے کو وہ پھر بلاول ہاؤس بھی لے آئی تھی۔ بینظیر بھی بڑی بابے کلکٹر تھی۔

تو پس عزیزو، میرے تینوں ہمسفر غم حسین میں کہیں ڈوب گئے۔ اور میں باجو والے میخانے میں جا نکلا۔ جہاں ایک گورا بھی بیچ میں بیٹھا سلفی کے دم لگا رہا تھا اور لوگ اسے لطیف سرکار کا جرمن فقیر کہہ رہے تھے۔ کاندھوں تک لہراتے بال، سیاہ لباس ، انگوٹھیاں اور کڑے ۔ یا علی مدد کہتے ہوئے اس نے میرے لیے وہاں بچھی رلی پر اپنے قریب جگہ بنائی۔” یو سی۔ میرا ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ میرے لوگ بٹّے ہوئے ہیں۔ میں اسی لیے یہاں ہوں۔ یہاں بڑا سکون ہےاور وہاں دیوا برلن ہے”، جرمن ملنگ نے مجھے انگریزی میں بتایا۔

پھر کسی نے مجھے بتایا کہ وہ گذشتہ کچھ سالوں سے بھٹ شاہ پر رہتا ہے۔ اسکے بچے یہاں کے مقامی پرائمری سکول میں سندھی پڑھنے لگے تھے۔ پھر کسی نے بتایا کہ،وہ مشرف بہ اسلام ہوگیا ہے۔ میں نے بھی اسکےکٹرخیالات جانے تھے وہ اپنی باتوں میں ایک صوفی سے زیادہ خمینی پرست تھا۔ جرمن ملنگ کو اس بات پر غصہ تھا کہ بھٹائی کے فقیر اور مقامی سندھی لوگ اسے “انگریز” کہا کرتے تھےاس نے کہا “ان لوگوں کو کیسا لگے اگر میں ان سندھیوں کو انڈین، بنگلہ دیشی یا برمی نیپالی کہوں!” ۔ میں نے اس سے کہا انکا قصور نہیں کہ ہم تو کوریائی کو بھی انگریز کہتے ہیں۔

پھر اچانک میخانے میں ایک طرح کی سی کھلبلی مچ گئی۔ پوش پوش کی آوازوں سے آنکھیں اور سر نیچے کیے گئے کہ جرمن ملنگ نے مجھے سر نیہوڑے بتایا کہ “پاک گذ ر رہے ہیں” یعنی کہ پاس ہی حویلی سے سید زادیاں نکل کر جار ہی ہیں۔

جب خنکی والے سترہ اگست کا سورج ڈھلا تو ہم حیدرآباد شہر میں داخل ہو چکے تھے۔ علامہ جانوری کا گلا بیٹھ چکا تھا۔ اور اپنے گلے کو گرم و تازہ کرنے کو سوپ پینے کو ہم گاڑی کھاتہ کے کینٹون چائینیز میں رکے۔ پپو شاہ نے کہا کہ وہ تب تک جاکر امام بارگاہ میں انتظامات کا جائزہ لے۔ مگر وہ جن قدموں سے گیا تھا ان ہی قدموں سے واپس ہوا اور پرجوش ہو کر کہنے لگا “مبارک ہو” کیا تمہارے گھر بچے کی پیدائش ہوئی ہے ان محرم کے دنوں۔” میں نے اس سے پوچھا۔ اس نے کہا نہیں “ ضیا کا دور گیا” کیا؟

امام بارگاہ پہنچے تو وہاں جشن کا سا تھا۔ بلکہ مٹھائی بانٹی جا رہی تھی۔

یہ امام بارگاہ تھی تو حیدرآباد سندھ میں لیکن ایسا لگتا کہ جہلم یا چکوال میں ہے۔ اسکے چالیس فی صد عزادار فوجی ہوا کرتے۔ افسری سے لیکر سولجری تک۔ کبھی کبھار تو کوئی مومن جنرل بھی مجلس و ماتم کو آ نکلتا۔

“ہے روون دی آزادی اج
شبیر دے ماتم داراں نوں”۔

یہاں سب شبیر کے ماتم دار تو تھے۔ کسی کو کسی سے نہیں تھا کہ کوئی ایف آئی یو میں ہے کہ سی آئی ڈی کہ عام شہری۔ ایک دفعہ تو اس مجلس میں پی ایس ایف کے لالا اسد کو بھی دیکھا تھا۔

لیکن اس دن رو اکثر ماتم دار رو نہیں رہے تھے۔ ہنس رہے تھے۔ بس اسوقت جب تک فوجی عزاداروں نے مومن بھائیوں سے کہا اب بس کرو صرف ضیا نہیں ہمارے اور بھی بڑے بڑےجرنیل شہید ہوئے ہیں۔

کئی دنوں بعد مجھے وہ شاہ لطیف کا جرمن فقیر حیدرآباد شہر میں ملا ۔ وہ بہت دُکھی تھا۔ اس نے کہا اسکی بیوی بچوں کو لیکر ناراض ہوکر جرمنی واپس چلی گئی ہے۔ پھر وہ مجھ سے کہنے لگا یہ کونسا اسلام ہے جب تمہارے مسلمان بھائی تمہاری بیوی پر بری نظر ڈالیں۔

شہر شہیدوں کے سوگ اور کہیں کہیں خوشی میں فائرنگ سے گونج اٹھا تھا۔ ہر جگہ اور ہر چوک سیاہ بینر لگ چلے تھے ضیا الحق کی قد آدم تصاویر کیساتھ کہ ایم آکیو ایم نے تین روز سوگ کا اعلان کیا تھا۔ اور کہیں کونے میں کسی دیوار پر لگتا ہے عجلت میں لکھا ہوا تھا “شکریہ مشہود بھائی!”

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*