بزنجو کاپاپاخ

یخ ٹھٹھرتا دسمبر تھا۔ درختوں سے پتے بے وفائی کے مرتکب ہو چکے تھے۔ شاخوں کو ٹھنڈے سرد موسم کے حوالے کر کے وہ خود بھی یہ جدائی نہ سہہ پائے تھے۔ سردی کی ٹھنڈی لہر اور وجود کوکاٹ دینے والی ہواؤں کی زد سے بچنے کے لیے غریب کسان اور مزدور اپنے کچے مکانوں اور جھونپڑیوں میں دبک گئے تھے۔ سرِ شام ہی گھروں سے دھواں اُٹھ رہا تھا تاکہ کھانے سے فارغ ہو کر لوگ اپنے اپنے غریبی کے بستر میں گھس جائیں ۔ ایسے میں فائر کی آواز تو دل کو دہلا ہی دیتی ہے۔
’ یا اللہ خیر ! سنا ہے کہ سات سمندر پار کوئی انقلاب آیا ہے، بڑ اشور ہے ۔۔۔ کہیں ادھر تو نہیں آگیا یہ انقلاب‘ کہیں سے آواز آئی۔
’ ہیری گوانکے۔۔۔ خیر کی پکار ہے، سفر خان کے ہاں بیٹے کا جنم ہوا ہے: نام ہو گا،غوث بخش!‘

روسی سرخ انقلاب کا سال ، بیٹے کی پیدائش۔۔۔استعارہ تو نہیں ۔۔۔؟ انقلاب کا۔۔۔تاریخ کا۔۔۔جدوجہد کا۔۔۔!

میں نے اس بچے کو پالنے میں ابھی لوری سنتے ہی دیکھا تھا، ابھی وہ ’آئی، ابا‘ کہنا بھی نہ سیکھا تھا کہ ایک برس میں اسے یتیمی بھوگتے دیکھا۔ مگر اس یتیمی کو اس نے فٹ بال بنا کر اپنے پاؤں کی ٹھوکر پہ رکھ دیا۔ پھر میں نے اسے علی گڑھ جاتے دیکھا۔ وقت کے جید اساتذہ کے پہلو میں علم کے موتی چنتے دیکھا۔ شادی کرتے، خاندان بساتے دیکھا۔۔۔ اور پھر اُسے بلوچستان کی سیاست کی بھٹی کی نذر ہوتے دیکھا۔

یہ سفر شروع ہوتا ہے بلوچ لیگ سے، اور پھر قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی، آل انڈیا پیپلز کانفرنس، کمیونسٹ پارٹی، بلوچستان مزدور پارٹی، کے زینے چڑھتا ہوا، آگے بڑھتا رہتا ہے۔ اس سفر میں ، میں نے قلات کے دیوانِ عام میں آزاد بلوچستان کے لیے ان کی تقریر بھی سنی، انہیں بلوچستان کا قومی پرچم لہراتے اور بلوچستان کا آئین تشکیل دیتے دیکھا۔

بلوچ پارلیمنٹ میں ان کی تاریخی تقریر کے بعد، بلوچستان کو پاکستان میں ڈال دیا گیا، اور ہمارے بابا بزنجوکو جیل میں۔ یہاں سے نکلے تو مسلم لیگ کا چولا بھی پہن کر دیکھا۔ مگر جیل اور ریل کا سفر نہ رکا۔ بلوچ سے شروع ہو کر بلوچستان مزدور پارٹی کا سفر اُستمان گَل میں ڈھلتا ہے۔ وہاں سے پاکستان نیشنل پارٹی تشکیل پاتی ہے، جو آگے چل کر نیشنل عوامی پارٹی بن جاتی ہے۔

یہاں میں انہیں وطن کی پیشانی پر وال چاکنگ کرتے، پابندی شکنیاں کرتے دیکھتی ہوں۔ یہیں وہ وقت ہے جب ناشکرے لوگ آدھا ملک گنواتے ہیں۔ جس کے بعد باقی ماندہ پاکستان کو بھٹو، اور بلوچستان کو چانسلر بزنجو سنبھالتے ہیں۔ چانسلر بن کر انہوں نے مگر ششک کے خاتمے کی تحریک کو رد کر کے جو مؤقف اپنایا، وہ چاند پہ داغ بن گیا۔ نتیجہ یہ کہ گورنری کے نوماہ ہی میں وہ ’قیدی چانسلر‘ بن گئے۔

ایک بار پھر ۔۔۔! جیل۔۔۔ جیل جو انسان کے ذہن، اس کے پورے وجود کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے۔ خوب صورت اور بھر پور زندگی کے قیمتی ماہ وسال کال کوٹھڑیوں کے اندھیروں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ یہ متحرک زندگی کو ایک دم جامد کر دیتی ہے، لیکن اصولوں کی جنگ، اپنی شناخت کی جنگ، ظلم و استحصال کی جنگ لڑنے والوں کی روح زندان میں بھی آزاد رہتی ہے اور اذیتوں کی آگ میں جل جل کر کندن بن جاتی ہے۔

میں نے دیکھا کہ جیل کے ٹھنڈے یخ فرش پر بیٹھے وہ جب قالین بُن رہے تھے تو اپنے وطن اور اپنے لوگوں کی فکر کے ساتھ ساتھ میرے دکھ بھی اس کے ساتھ ساتھ بُن رہے تھے، جو مجھے انھیں دیکھ کر ہو رہا تھا ۔ زندگی کے 25 طویل سال ان کے، جیل کی نذر ہوئے۔

پھرمیں دیکھتی ہوں، وہ اس قید سے چھوٹتے ہیں تو نیپ ٹوٹ پھوٹ چکی ہے۔ ان کے سیاسی سفر کا اگلا پڑاؤ نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی بنتی ہے، اور پھر پاکستان نیشنل پارٹی اس سفر کا آخری ٹھکانہ ثابت ہوتی ہے۔ ضیاالحق آتا ہے ، اور وہ اس کے خلاف ایم آر ڈی کا حصہ بن جاتے ہیں۔

یہاں میں ان کی سیاست کے خدوخال دیکھتی ہوں: بلوچ دوستی، سامراج دشمنی، بین الاقوامیت پسندی، شہنشاہیت مخالفت، سرقبیلوی نظام کی مخالفت، وفاقی نظام کے لیے، سیکولر ازم کے لیے، عورتوں کے حقوق کے لیے، پارلیمانی جمہوریت کے لیے، سوشل ازم کے لیے، منظم عوامی پارٹی کی جستجو۔۔۔ان کی سیاست کے یہ نمایاں خدوخال ابھرتے ہیں، جن کا اختتام بابائے مذاکرات کے طعنے پہ ہوتا ہے۔

ان کی سیاسی زندگی سے گزر کر میں ان کی لائبریری پہنچتی ہوں۔ یہاں سے ہو کر تو میں ان کی شخصیت کے تاج محل میں داخل ہو گئی۔ بچوں کے ساتھ انہیں کھیلتے دیکھا۔ بہ طور استاد انہیں سٹڈی سرکل لیتے دیکھا۔ سب سے بڑھ کر، انہیں بہ طور لکھاری دیکھا۔ بہ طور مقبول لیڈر ان کی مقبولیت دیکھی۔ بہ طور شکست خوردہ لیڈر انہیں مایوس و پژمردہ ہوتے دیکھا۔

اور پھر بالآخر یہ پژمردگی شاشان کے سکوت میں ڈھل گئی۔ 11 اگست 1989 کو یہ سکوت جھاؤ میں ان کی لائبریری کے صحن کے ایک کونے میں، سفید سنگ مرمر کی ایک قبر میں ڈھل گیا؛ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔۔۔۔

تب ایسے میں مجھے کہیں سے ہلکے سُروں میں گنگنانے کی آواز آئی۔ میں نے پلٹ کر بڑی سی کھڑکی سے باہر دیکھا؛ بارش کی ہلکی ہلکی پھوار شروع ہو چکی تھی، پرندوں کی ڈاریں گزر رہی تھیں۔۔۔ دُور بیٹھی کوئی ماں گا رہی تھی اور چند سال کا بچہ ماں کے الفاظ سمجھنے کی کوشش میں اس کا چہرہ تک رہا تھا۔

بوئے وشیں چو گوئڑتغیں نو ذانی پذاں
تمھاری خوشبو اس قدر میٹھی ہے جیسے بارش برسنے کے بعد،گل زمین کی ہوتی ہے!

میں آہستہ آہستہ چلتے ہو ئے لائبریری سے نکل گئی۔ میرے ذہن میں بابا بزنجو کے الفاظ گونجتے رہے ؛
’’جمہوریت دراصل ایک ذہنی کیفیت ہے۔ایسی ذہنی کیفیت جو ہر قسم کے امتیازات اور استحصال سے پاک ہو، اجتماعی اور انفرادی نوعیت کے تمام تر استحصال اور ہر قسم کے جبر و استبداد سے پاک ہو۔۔۔‘‘

میں سوچتے سوچتے اس جنگلے کی طرف بڑھی جہاں سفید پتھروں میں بابا بزنجواپنے خالق، اپنے ضمیر، اپنی قوم کے سامنے سرخرو محوِ آرام ہیں ۔ میں دو زانوں ہو کر بیٹھی اور ان کی سیاست، ان کی فکر کے وارث ڈاکٹر شاہ محمد مری کی کتاب ’بابا بزنجو‘ کا آخری فقرہ پڑھا:

’’۔۔۔۔اور بزنجو کا پاپاخ ابھی تک موزوں سر کا منتظر ہے۔۔۔!‘‘

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*