پاداش

جانتی ہو اُداسی راس آجائے تو زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ مشکلیں مشکلیں نہیں لگتیں۔ الجھنیں الجھن میں نہیں ڈالتیں۔جھیل کے پانی کی طرح ٹھہراؤ آجاتا ہے۔ دیکھتی ہو نہ جھیل کے پانی کی سطح کیسے کنول کے پھولوں سے بھر جاتی ہے۔ دیکھنے والے کی آنکھ کو کیسے دھوکہ دیتے ہیں یہ پھول۔بس جھیل اور انسان میں یہ فرق ہے جھیل تو کیچڑ سے بھری ہوتی ہے انسان دکھوں سے“۔”چھوڑوتم بھی کیا باتیں لے بیٹھتی ہو۔ آؤ چائے بنائیں۔کتنے دنوں بعد آئی ہو تم“۔اور دونوں دوست اٹھ کھڑی ہوئیں۔

طاہرہ آگے آگے اور نفیسہ جو اپنی بہترین دوست سے ملنے کافی دنوں بعد اس کے گھر گئی اس کے پیچھے چل پڑی۔دروازہ بجایا تھا تو طاہرہ ہی نے بالوں کی پونی ٹیل بنائے ہمیشہ کی طرح ٹراوزر شرٹ پہنے چمکتے مسکراتے چہرے سے نفیسہ کا استقبال کیا۔

جب بھی طاہرہ سے ملتی ہمیشہ مسکراہٹ سے ملتی خوشبوؤں میں بسی پتہ نہیں کس پتھر کی بنی تھی زندگی نے نہ اپنا اثر دکھایا نہ وقت نے اسکے چہرے پر رنگ ڈالا۔بڑا ہنر آتا تھا اسے جینے کا۔

دونوں ڈرائنگ وم میں بیٹھیں اورکچھ پرانی یادیں، آنے والے روشن مستقبل،اور بیتے ماضی کے جھرو کوں سے چرائے لمحے سب کہے سنے گئے۔

طاہرہ اورنفیسہ دونوں کالج کے زمانے کی دوست تھیں۔ طاہرہ نے جب کالج میں ایڈمیشن لیا تھا تو نفیسہ اپنی کزن کے ساتھ پہلی بار اسے کلر یکل آفیس کے باہر فیس جمع کراوتے ہوے ملی اور طاہرہ کو پہلی نظر میں نفیسہ اور اس کی کزن اقصیٰ بہت تیز طرار،جھگڑالو، منہ پھٹ لڑکیاں لگیں۔ جیسے ہی کوئی لڑکی ساتھ والی لائن میں آتی یا اگلی کوئی لڑکی ذرا سی ہلتی تو فٹ نفیسہ/اقصیٰ اس کے لتے لے لیتیں۔ اور توتڑاخ سے بات کرتیں۔ طاہرہ کے گھر ہمیشہ آپ جناب سے بات ہوتی تھی۔اسے تو یہ ایک آنکھ نہ بھاتیں۔

دوسرے دن نفیسہ نے ہاتھ میں پھول لیے کالج کینٹین کے باہر طاہرہ کو روکا کولڈ ڈرنک کی آفر کرنے کے ساتھ پھول دیے اور دوستی کی پیش کش کر دی۔

کیا مطلب؟طاہرہ حیرت سے بولی!

ارے مطلب و طلب کیابس دوستی۔یہ لو پھول اور صرف میری دوست ہم اچھے کلاس فیلو ہیں دوست ہیں پھر دوستی کا سوال کیسا؟

نہیں طاہرہ ہاں بولو!

ہاں ہاں ہم دوست ہیں۔

اچھا چلو پکا نا؟۔ہاں بالکل۔طاہرہ نے کسی طرح اس سے جان چھڑائی اور کلاس روم کی طرف بھاگی۔

اور شام کوطاہرہ گھر واپس چلی گئی۔ نفیسہ نے برتن سمیٹے بچے آگئے۔ احمد اوربچوں کو کھانا دیا۔ بچوں کو اپنے روم میں سونے کیلئے بھیجا اور خود اپنے کمرے میں آئی۔احمد TVپر ایک انگلش مووی دیکھنے میں بزی تھا۔طاہرہ نے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھتے ہوئے احمد کو کہا آج نفیسہ آئی تھی۔

اچھا چلو تم توآج بڑی خوش ہوئی ہو گئی باتیں کر کے۔

ہاں اچھا لگا اس کا آنا۔

ہاں تمہیں تو سب کا آنا اچھا لگتا ہے۔ سوائے میرے۔

میں نے ایسا کب کہا احمد!

احمد کب جواب دینے والا تھا۔وہ تو ایک زہر میں بھر اجملہ اسے ہربات کرنے سے پہلے بولتا اور وہ اسی زہر کو پیتے پیتے اندر سے مر چکی تھی۔ یہ آج سے نہیں پہلے دن سے اسکے ساتھ تھا۔

شادی کے دن وہ اتنی حسین لگ رہی تھی جیسے شہزادی۔ اور احمد اسے دیکھتے ہی جل گیا۔ کوئی تعریف کوئی پیار بھرا جملہ کوئی اپنایت کچھ نہیں اور یہ روز ہوتا صبح شام۔ شادی کے دوسرے دن وہ تیار ہوئی خوب نکھار آیا تھا اس پر۔پر احمد نے اسے دیکھنا تک گوارا نہ کیا۔ دو تین دن وہ تیار ہوتی رہی پر کوئی فائدہ نہیں تیسرے دن اس نے فیصلہ کیا،کیا تیار ہونا۔اس نے چوتھے دن یہ بھی نہ پوچھا کہ لپ اسٹک کیوں نہیں لگائی۔ اب اسکی شادی کو 10سال ہوگئے پر اس نے ان10سالوں میں کبھی گھر میں لپ سٹک نہیں لگائی۔ جب تیار ہو کر کہیں جاتی ہو توکہتا کس کو دکھانے جارہی ہو۔ کس کے لیے بن رہی ہو۔ اگر بیمار ہوتی تو خوش ہوتا اگر منہ پر دانے نکلتے تو خاص نوٹس کرتا اور چہرا خوش ہوتا کہ اس کا چہرہ داغ دار بن گیا تو احمد کو سکون ہے۔

یہاں نہ جاؤ،اس سے بات نہ کرو،اس کے گھر کزن آجاتے ہیں۔طاہرہ ماں باپ کی عزت کے ہاتھوں مجبور روتے روتے راتیں گزارتی پرزبان پر اُف تک نہیں لاتی اور لوگوں کو ایسے جھوٹے قصے سناتی کہ وہ ایسا خوابوں کا شہزادہ ہے کہ ہر لڑکی اس کا خواب دیکھے۔

احمد ایسا کیوں کرتا ہے۔ یہ سوال وہ ہمیشہ سوچتی پر جواب کون دیتا۔وہ تو کبھی اسکو اس قابل نہیں سمجھتا تھا کہ وہ اس کو دو بول پیار سے بول دیتا۔اگر وہ پوچھتی کہ ایسا کیوں تو اسے ”کم ترذہن کی مالک عورت ہو چھوٹا ذہن ہے“ایسی باتیں کرتا۔ موبائل سوئچ آف کر کے گھر سے چلا جاتا اور صبح کاگیا ساری رات گزر جانے کے بعد آتا۔ وہ رو رو کر جلتی آنکھوں سے انتظار کرتی۔

کبھی اپنا دکھ ماں باپ بہن بھائیوں دوستوں کزنوں کسی کو نہیں بتایا۔ سب کے سامنے ایک ہی راگ میرا میاں محبت کرنے والا ہمدرد ہے۔ ہر چیز خود خرید لاتی اور سب کو چہک چہک کر دکھاتی۔ احمد لایا۔یہ سالگرہ کا تحفہ،یہ شادی کی سالگرہ کا تحفہ،یہ عید کا تحفہ یہ سردیوں کا تحفہ یہ گرمیوں کا تحفہ۔سب رشک کرتے اس پر۔کمال ہے یہ دکھ اسکے چہرے سے نظرنہ آتا ہمیشہ چہرا چمکتا نظر آتا۔ ہمیشہ خوشبوؤں میں بسی رہتی چاند سے باتیں کرتی رہتی۔

آخر وہ ایسا کیوں کرتا ہے مجھے کیوں اگنور کرتا ہے یہ سوال اسے اندر ہی اندر بے چین رکھتا۔ پر وفا کے نام پر شہید ہونے کیلئے تیار رہنے والی ایک مشرقی لڑکی کے روپ کا اصل نام طاہرہ تھا۔ساری ساری رات احمد موبائل پر لگا رہتا جب بھی طاہرہ کروٹ بدلتی اسے موبائل میں مصروف کبھی مسکراتا کبھی قہقہہ لگاتا دیکھتی اور تڑپ کر رہ جاتی۔ صبح اٹھتا نہاتا/ سنورتا اپنے آفس جاتا واپس آتا تو آدھی شام گزر چکی ہوتی پھر کھانا کھایا۔یہ نہ پوچھا کیسی ہو دن کیسا گزرا کچھ ضرورت ہے کچھ خریدنا ہے۔ بس اسے 10سال گزرگئے۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ اک ہی سوال یہ ایسا کس لیے کرتا ہے کاش معلوم ہو جائے۔

شام کا وقت تھا آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔”میری خیرہے دوسرے خوش ہوں“ کے نظریے کے تحت زندگی کے اصولوں پر عمل درآمد کرنے والی اٹھی اور بچوں شوہر کیلئے پکوڑے بنانے کچن میں گئی۔ پکوڑے بنا رہی تھی کہ احمد کچن میں آیا بولا، زیادہ بناؤ میرے دوست آرہے ہیں۔چائے بھی4کپ بنانا اور پلٹ گیا۔ پکوڑے چائے بنا کر احمد کو بلانے کیلئے مہمان خانہ کے دروازے پر پہنچی کہ احمد کو آواز دے، اک دم آواز اسکے کانوں میں ٹکرائی ”واہ یار احمد تم نے بڑا قابو کر رکھا ہے بھابھی کو“۔ اور احمد کے ساتھ اسکے دوستوں کے ذور دار قہقہے گونجے۔ ہاں یارقابو کیا تمہیں تو عورت ذات سے نفرت ہے۔ تم تو اس ایک عورت کی بے وفائی کے صدمے سے عورتوں سے نفرت کرتے تھے۔ پھر شادی کیوں کی؟۔میں ہمیشہ پوچھنا چاہتا تھا پر فون پر کیا پوچھتا آج11سال بعد اپنے وطن لوٹا ہوں آج موسم اچھا تھا ملنے آئے۔ ذکر چلا توسوچا پوچھوں“۔

”ہا ہا ہا، یار نفرت کیا شدید نفرت ہے۔ پر میرے ہتھے یہ عورت آئی جب بھی اس کی شکل دیکھتا ہوں لگتا ہے آگ لگا دوں۔ وہ حسین نہیں تھی اس نے میرے ساتھ ہوتے ہوئے غیر مردوں سے تعلق جوڑا۔یہ تو حسین ہے یہ کیا کرے گی۔ اسلئے ذرا دھمکا کر رکھتا ہوں۔سہمی ہوئی آواز میں بلی کے بچوں کی طرح میاؤں میاؤں کر کے جب یہ پھرتی ہے تو مجھے سکون ملتا ہے۔ بیمار ہو مجھے خوشی ملتی ہے بستر پر پڑی ہے۔پتہ ہے بنتی ہے تو کمال لگتی ہے دل چاہتا ہے اس کے کپڑے میک اب بننا سورنا سب آگ میں جھونک دوں۔

اچھا یار پر بھابھی کی تعریف تو سب کرتے ہیں سگھڑ ہیں خوبصورت ہیں اچھا گھر چلا رہی ہیں۔

تو میں نے برائی کب کی۔میں تو اسکی اچھائی سے ڈرتا ہوں۔ یار احمد تم اس گھٹیا عورت کی بے وفائی کا بدلہ وفادار بیوی سے کیوں لے رہے ہو؟

”ہاہاہا! عورت تو عورت ہوتی ہے، گھٹیا یا بڑھیا نہیں۔وفادار یا بے وفا نہیں۔اور عورت ہونا گناہ ہے جرم ہے اور جرم کی سزا مجرم کو ملتی ہے۔ میرے ہاتھ ایک مجر م لگا ہے۔ میں تو سزا دیتا رہوں گا“۔اورزور دار قہقہہ صرف احمد کا تھا۔

اور طاہرہ بغیر آواز کے رندھے ہوئے گلے آنسوؤں کی جھڑی کے ساتھ واپس پلٹی تو گرج چمک کیساتھ شدید بارش شروع ہوگئی۔ بڑے بیٹے کو آواز دی بابا کو بلا لاؤ۔ احمد آیا طاہرہ کے آنسو صاف تھے۔ وہ گنگناتا ہوا کچن میں آیا پکوڑوں کی ڈش اُٹھائی پھر چائے لی اور ایک سر سری سی نظر ڈالے بغیر کچن سے باہر نکل گیا۔

طاہرہ سوچتی رہی۔یہ کیا ہوا۔آج جو سوال میں 10سالوں سے اپنے آپ سے احمد سے پوچھتی رہی وہ اسے اچانک اس طرح کیوں ملا؟۔ کاش نہ پتہ چلتا میں انجانے سوالوں میں ہی گھومتی رہتی۔یہ دھتکارے جانے کا کرب کیوں ملا؟

سزا کیلئے ضروری نہیں تھا مجرم ہونا جرم کرنا۔سزا کیلئے تو عورت ہونا کافی تھا۔ کاش وہ نہ سنتی۔اک انجانے دکھ میں مبتلا ہونا بہت بہتر تھا بہ نسبت اس دکھ کے جو کسی اور کی پاداش میں بھگتنا پڑے۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ اگست

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*