Le Petit Nicholas A Des Annuis کے ایک باب کا ترجمہ

دلچسپ چیزوں کا بیان

آج میڈم نے کہا کہ کل کلاس میں "دلچسپ چیزوں کا بیان” ہو گا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر بچّہ کوئی ایک چیز لائے گا، کچھ بھی، مثلاً کسی سفر کی نشانی، اور پھر سب بچّے اس چیز کو غور سے دیکھیں گے، اس پر اپنی رائے دیں گے اور پھر وہ چیزلانے والا بچّہ اس کے بارے میں بتائے گا کہ یہ کیا ہے اور کہاں سے آئی ہے اس کے ساتھ اس کی کیا یادیں وابستہ ہیں۔ یوں اس کلاس میں ایک طرح سے نئی چیزوں اور جغرافیے کے بارے میں بھی معلومات ملیں گی۔
لطیف نے پوچھا، "لیکن میڈم، ہم کس قسم کی چیزیں لائیں ؟”
میڈم بولیں، "میں نے کہا نا، کوئی بھی دلچسپ چیز جس کی کوئی کہانی ہو، کوئی تاریخ ہو۔ اچھا سنو، کچھ سال پہلے میرا ایک طالب علم ڈائنوسار کی ایک ہڈّی لے کر آیا تھا جو اس کے چچا نے آثار قدیمہ کی تحقیق کے دوران کہیں سے ڈھونڈی تھا۔ اچھا، اب تم میں سے کون مجھے بتائے کہ ڈائنوسار کیا ہوتا ہے ؟”
آیان نے اپنا ہاتھ اٹھایا لیکن اس دوران ہم سب آپس میں باتیں کرنے لگے کہ کون کیا لائے گا۔ کلاس میں اتنا شور ہو گیا کہ میڈم اپنا فٹا اپنی میز پر زور سے مارنے لگیں کہ کسی کو سنائی ہی نہ دیا کہ میڈم کا چہیتا آیان کیا کہہ رہا تھا۔
گھر پہنچ کر میں نے ابّا سے کہا کہ کل مجھے کسی سفر کی زبردست سی نشانی سکول لے کر جانا ہے۔
ابّا بولے، "یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ ایسی عملی باتوں سے بچّے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ چیزوں کو دیکھنے سے بچّے ساری عمر وہ سبق بھول نہیں پاتے۔ تمہاری میڈم بہت اچھی استانی ہیں، بہت اچھے اور جدید طریقے سے پڑھاتی ہیں۔ اچھا تو اب دیکھتے ہیں۔ ۔ ۔ تم کل سکول کیا چیز لے کر جا سکتے ہو ؟”
میں نے کہا، "میڈم نے کہا تھا کہ سب سے اچھی بات یہ ہو گی کہ اگر میں ڈائنوسار کی ہڈّی لے کر آؤں۔”
ابّا کی آنکھیں گول گول گھومنے لگیں اور وہ بولے، "ڈائنوسار کی ہڈّی ؟ یہ بھی خوب کہی ! اب تم ہی بتاؤ کہ میں ڈائنوسار کی ہڈّی کہاں سے لاؤں ؟ نہیں، نصیر بیٹا، میرا خیال ہے ہمیں کوئی سادہ سی چیز تلاش کرنا ہو گی۔”
لیکن میں نے ابّا سے کہا کہ میں کوئی سادہ سی چیز نہیں لے جانا چاہتا۔ مجھے ایسی چیز چاہئے جسے دیکھ پر میرے دوست حیران رہ جائیں۔ ابّا نے کہا کہ ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے دیکھ کر میرے دوست حیران رہ جائیں۔ میں نے کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو کوئی ایسی چیز سکول لیجانے کا کوئی فائدہ نہیں جس کو دیکھ کر میرے دوست حیران نہ رہ جائیں۔ اور اس سے تو بہتر ہو گا کہ میں کل سکول ہی نہ جاؤں۔ ابّا نے کہا کہ بس بہت ہو گیا اور ایسی بات ہے تو آج رات کے کھانے کے ساتھ مجھے میٹھا نہیں ملے گا اور یہ بھی کہ نجانے میری میڈم کو ایسے الٹے سیدھے خیالات کہاں سے آتے ہیں۔ میں نے صوفے کو ایک ٹھڈّا مارا۔ ابّا نے کہا کہ لگتا ہے میری پٹائی کا وقت ہو رہا ہے۔ میں رونے لگا تو باورچی خانے سے امّاں بھاگتی ہوئی باہر نکلیں۔
امّاں نے پوچھا، "اب کیا ہو گیا ؟ میں تم دونوں باپ بیٹے کو ایک لمحے کے لئے بھی اکیلا چھوڑ دوں تو تم دونوں نئی مصیبت کھڑی کر دیتے ہو۔ نصیر، چپ کر جاؤ ! کیا ہو رہا ہے یہاں ؟”
ابّا بولے، "ہو یہ رہا ہے کہ تمہارا صاحبزادہ اس بات پر خفا ہے کہ میں اسے ڈائنوسار کی ہڈّی نہیں دے رہا۔”
امّاں نے مجھے اور امّاں کو چند لمحے دیکھا اور کہنے لگیں کہ اس گھر میں سب پاگل ہو چکے ہیں۔ اس پر ابّا نے انہیں سمجھایا تو امّاں مجھ سے کہنے لگیں، "دیکھو نصیر، یوں شورشرابا مچانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اچھا دیکھو، اس الماری میں بہت سی بہت اچھی چیزیں پڑی ہیں۔ یاد ہے جب ہم کراچی گئے تھے ؟ وہاں وہ بڑا گھونگھا بھی پڑا ہو گا جو ہم نے سمندر کنارے سے خریدا تھا جب ہم سمندر کی سیر کرنے گئے تھے۔”
ابّا بولے، "ہاں، واقعی ! وہ گھونگھا تو کسی پرانے ڈائنوسار کی ہڈّی سے کہیں زیادہ بہتر ہو گا۔”
میں نے کہا کہ معلوم نہیں گھونگھے کو دیکھ کر میرے دوست حیران ہوں گے یا نہیں۔ امّاں نے کہا کہ ساری کلاس حیرت زدہ رہ جائے گی اور میڈم بھی مجھے بہت شاباش دیں گی۔ ابّا فوراً اٹھے اور وہ گھونگھا اٹھا لائے۔ وہ واقعی بہت بڑا تھا اور اس کے نیچے "کلفٹن گفٹ کمپنی لمیٹڈ” بھی لکھا تھا۔ ابّا نے کہا کہ اس گھونگھے سے تو سب لوگ حیران رہ جائیں گے اور مجھے ساتھ ہی کیماڑی جزیرے تک کشتی کے سفر اور اپنے اتنے اچھے لیکن سستے ہوٹل کے بارے میں بھی بتانا چاہئے۔ اور اگر اس پر بھی میرے دوست حیران نہ ہوئے تو میرے دوستوں کا قصور ہے، انہیں حیران ہونا آتا ہی نہیں۔ امّاں ہنسنے لگیں اور ہمیں کہا کہ کھانا تیار ہے سب لوگ میز پر چلیں۔ دوسرے دن صبح میں سینہ تانے فخریہ اندازمیں سکول روانہ ہو گیا۔ میرا گھونگھا بھورے کاغذ میں لپٹا میرے بستے میں تھا۔
جب میں سکول پہنچا تو میرے سب دوست پہنچ چکے تھے اور انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں کیا لایا ہوں۔
میں نے پوچھا، "پہلے تم بتاؤ ؟”
"میں تو کلاس میں ہی بتاؤں گا !” جعفری بولا جسے ہر بات راز میں رکھنے کا شوق تھا۔
باقی بھی کسی دوست نے کچھ نہ بتایا سوائے جمیل کے جس نے ایک سنہری چاقو دکھایا جو واقعی بہت شاندار تھا۔
اس نے بتایا، "یہ کاغذ کاٹنے والا چاقو ہے جو میرے عبداللہ چاچا تہران سے لائے تھے۔ تہران ایران میں ہے۔”
لیکن ماسٹر موچھل (وہ ہمارے پی ٹی ماسٹر ہیں لیکن یہ ان کا اصلی نام نہیں ہے) نے جمیل کو دیکھ لیا اور اس سے وہ کاغذ کاٹنے والا چاقو ضبط کر لیا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ہزار مرتبہ منع کیا ہے کہ کوئی بچّہ سکول میں کوئی خطرناک چیز نہیں لا سکتا۔
جمیل چیخا، "لیکن ماسٹر صاحب، مجھے میڈم نے کہا تھا یہ لانے کو !”
ماسٹر موچھل بولے، "اچھا ؟ تو تمہیں تمہاری میڈم نے یہ ہتھیار سکول لانے کا کہا تھا ؟ بہت خوب۔ اب تو میں نہ صرف یہ ضبط کرتا ہوں بلکہ تمہیں پچاس مرتبہ اپنی کاپی پر مجھے لکھ کر دکھانا ہو گا، ‘میں آئندہ کبھی پی ٹی ماسٹر صاحب سے جھوٹ نہیں بولوں گا جب وہ مجھ سے ایک خطرناک ہتھیار کے بارے میں پوچھیں گے جو میں چھپا کر سکول لایا تھا۔’ اب رونے دھونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اور تم باقی سب بھی منہ بند کرو ورنہ تمہیں بھی سزا ملے گی !”
یہ کہہ کر موسٹر موچھل گھنٹی بجانے چلے گئے اور ہم سب قطار میں کھڑے ہو گئے۔ جب ہم کلاس میں داخل ہوئے تو جمیل ابھی تک رو رہا تھا۔
میڈم اسے دیکھ کر بولیں، "اوہ، ابھی سے شروع ہو گیا ! جمیل، کیا ہوا تمہیں ؟”
جمیل نے انہیں بتایا کہ کیا ہوا۔ میڈم نے ایک لمبی سانس بھری اور انہوں نے کہا کہ سکول میں چاقو لانا اچھی بات نہیں لیکن پھر بھی وہ ماسٹر دلاور صاحب سے بات کریں گی۔ ماسٹر موچھل کا اصلی نام یہی تھا۔
پھر میڈم بولیں، "اچھا تو دیکھتے ہیں سب بچّے کیا لائے ہیں۔ سب لوگ اپنی چیزیں سامنے ڈیسک پر رکھ دیں۔”
سب بچوں نے اپنی اپنی چیزیں نکال کر سامنے رکھ دیں۔ اصغر ایک ہوٹل کا مینو کارڈ لایا تھا جہاں اس نے اپنے امّاں ابّا کے ساتھ بہت زبردست کھانا کھایا تھا۔ ادریس کسی دوسرے ملک کا پوسٹ کارڈ لایا تھا۔ آیان ایک جغرافیے کی کتاب لایا تھا جو اس کے ابّا کسی دوسرے ملک سے لائے تھے۔ لطیف ایک نیا بہانہ لایا تھا کہ اسے اپنے گھرمیں کچھ نہ ملا کیونکہ اس نے سمجھا کہ صرف کسی بڑے جانور کی ہڈّی ہی لانا لازم تھا۔ مقصود اور رفیع، احمق کہیں کے، وہ بھی گھونگھے اٹھا لائے تھے۔
رفیع بولا، "مجھے یہ گھونگھا اس وقت ساحل پر ملا تھا جب میں نے سمندر میں ڈوبتے ہوئے ایک آدمی کو بچایا تھا۔”
مقصود قہقہہ لگا کر بولا، "ضرور بچایا ہو گا ! تم تو گھٹنے گھٹنے پانی میں جانے سے بھی ڈرتے ہو۔ اور دوسری بات یہ کہ اگر تمہیں یہ گھونگھا ساحل سمندر پر ملا تھا تو اس کے نیچے ‘کراچی گفٹ شاپ’ کیوں لکھا ہے ؟”
میں زور سے ہنسا، "ھاھاھا !”
رفیع میری جانب مڑا، "تمہیں ایک مکّہ لگاؤں ؟”
میڈم چلاّئیں، "رفیع ! فوراً کلاس سے نکل جاؤ ! تمہاری جمعرات کی آدھی چھٹی بند ! نصیر، مقصود، تم دونوں خاموش ہو جاؤ ورنہ تمہیں بھی سزا ملے گی !”
جعفری فخریہ اندازمیں مسکراتے ہوئے بولا، "میڈم، میں سوئٹزرلینڈ کی ایک چیز لایا ہوں۔ یہ سونے کی گھڑی ہے جو میرے ابّا نے وہاں سے خریدی تھی۔ ”
میڈم بول اٹھیں، "سونے کی گھڑی ؟ تمہارے ابّا کو معلوم ہے کہ تم اسے سکول لے آئے ہو ؟”
جعفری بولا، "معلوم تو نہیں ہے۔ لیکن جب میں انہیں بتاؤں گا کہ آپ نے کہا تھا گھڑی سکول لانے کو تو وہ مجھے کچھ نہیں کہیں گے۔”
میڈم چیخ اٹھیں، "میں نے تمہیں کہا۔ ۔ ۔ ؟ بے وقوف لڑکے ! فوراً اسے سنبھال کر اپنی جیب میں رکھ لو !”
جمیل بولا، "لیکن میڈم، اگر میں اپنا کاغذ کاٹنے والا چاقو واپس نہ لے کر گیا تو میرے ابّا مجھے نہیں چھوڑیں گے !”
میڈم پھر چلاّئیں، "جمیل میں نے تمہیں کہا نا کہ میں پی ٹی ماسٹر صاحب سے بات کروں گی۔”
یکایک جعفری چیخا، "میڈم ! مجھے گھڑی نہیں مل رہی ! میں نے اپنی جیب میں ڈالی تھی، جیسے آپ نے کہا تھا، لیکن اب وہ مجھے مل نہیں رہی !”
میڈم بولیں، "افوہ، جعفری ! کہاں جا سکتی ہے گھڑی ؟ فرش پر دیکھا تم نے ؟”
جعفری نے جواب دیا، "جی میڈم، دیکھ لیا۔”
گھڑی فرش پر بھی نہیں تھی۔ میڈم جعفری کے بنچ کے پاس گئیں اور انہوں نے ہر طرف دیکھا۔ پھر انہوں نے ہم سب کو کہا کہ ہم بھی تلاش کریں اور دھیان سے کہ کسی کا پاؤں گھڑی پر نہ آ جائے۔ اس دوران مقصود کا ہاتھ لگا اور میرا گھونگھا زمین پر جا گرا۔ میں نے اسے ایک گھونسہ لگایا۔ میڈم چیخنے لگیں۔ انہوں نے سب بچّوں کو آدھی چھٹی بند کی سزا سنائی۔ جعفری رونے لگا اور کہنے لگا کہ اگر اسے گھڑی نہ ملی تو میڈم کو اس کے ساتھ گھر جا کر اس کے ابّا سے بات کرنا ہو گی۔ جمیل بولا کہ لگے ہاتھوں میڈم کو اس کے ابّا سے چاقو کے بارے میں بھی بات کرنا چاہئے۔
لیکن بالآخر سب خیریت رہی۔ کیونکہ جعفری کو اس کی گھڑی مل گئی۔ جعفری کے کوٹ کی پھٹی ہوئی جیب سے گھڑی کوٹ کے استر میں جا پھنسی تھی۔ تھوڑی دیر میں ماسٹر موچھل نے جمیل کا چاقو بھی لوٹا دیا۔ پھر میڈم نے ہم سب کی سزائیں بھی ختم کر دیں۔
آج کی کلاس میں بہت مزا آیا۔ میڈم نے بھی کہا کہ ہم سب جو چیزیں لائے تھے ان کی بدولت وہ یہ کلاس ساری عمر بھول نہ پائیں گی۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*