ایوان عدالت میں (نذیر عباسی کی شہادت پر کہی گئی ایک نظم)

پتھرائی ہوئی آنکھیں
پتھراۓ ہوۓ چہرے
پتھرائی ہوئی سانسیس
چمڑے کی زبانوں پر
پتھرائی ہوئی باتیں

فریاد کٹہرے میں
رو رو کے تڑپتی تھی
قانون کے رکھوالے
کل لے کے گئے جس کو
اب اس کو یہاں لائیں
وہ نعش تو دکھلائیں

پتھراۓ ہوۓ چہرے
پتھرائی ہوئی آنکھیں
چمڑے کی زبانوں پر
لچکی ہوئی کچھ باتیں
پتھر کہ جو چکنے تھے
ہاتھوں سے پھسلتے تھے
قانون کے نکتے تھے
کیا لوگ سمجھتے تھے
سنگیں مجبوری ہے
درخواست ادھوری ہے

پتھراۓ ہوۓ دلوں میں تو
بس ریت برستی تھی
ہر آنکھ کہ پتھر تھی
اشکوں کو ترستی تھی
یکدم کوئی دل دھڑکا
شعلہ سا کہیں بھڑکا
جب تک کوئی سمجھے
لو پھوٹ بہے دھارے
آوازیں ملیں باہم
اور گونج اٹھے نعرے
معصوم سی جانوں کے
بے تاب جوانوں کے

کیا شور لہو کا تھا
کیا گونج تھی نعروں میں
ایوان عدالت میں
پتھراۓ ہوۓ کمرے
دم روک کے سنتے تھے

جب سرخ سلام آیا
مقتول کا نام آیا
گھونسہ سا لگا دل پر
آنکھوں سے لہو پھوٹا
جیتے رہو دل والو
پتھر تو کوئی ٹوٹا

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*