‎غزل

سامنے اک دوسرے کے کوئی بھی آتا نہیں

‎پھول اور خوشبو کے نظّارے میں آئینہ نہیں

‎پڑھ لیے ہیں غور سے یادوں کے مٹتے حاشیے

‎ داستانوں میں کسی کا نام بھی لکھا نہیں

‎ دور جانا چاہتا ہوں دل کے قبرستان سے

‎پر یہاں سے سیلِ یادِ رفتگاں جاتا نہیں

‎غور کرنے پر بھی لگتے ہیں یہ سب نا آشنا

‎ان مکینوں اور مکانوں میں کوئی میرا نہیں

کس جہانِ بے نشاں کی بات کرتے تھے وہ لوگ

صورتِ وحشی جہاں کوئی بھی پیش آیا نہیں

بے سبب بلکل نہیں کہسار کے خالی بدن

‎ان شفق آثار رستوں سے کوئی گزرا نہیں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*