کتا

صبح کافی دیر تک سونے کے بعد وہ بے دلی سے اٹھا ۔ اسے اپنا سر بھاری سا لگنے لگاتھا۔ جیسے اس پر بھاری وزن لاد دیا گیا ہو۔ رات کو شراب بھی کچھ زیادہ ہی ہو گئی تھی۔اسنے سستی دور کرنے کے لئے انگڑائیاں لیں، تبھی اسکی نظر کھڑکی سے باہر لیٹے ہوئے ایک کتے پر پڑی۔ کتے نے بھی اسی سمے انگڑائیاں لیں اور پھر سو گیا۔ اس کتے کو دیکھ کر وہ سوچنے لگا، کتنی مساوات ہے، آدمی اور کتے میں۔۔۔۔ وفا داری کو چھوڑکر تقریباً ساری باتیں ایک سی ہی ہیں۔ کتوں کے بارے میں وہ اور بھی باتیں سوچنے لگا۔
سوچتے سوچتے اچانک اسے لگنے لگا کہ، وہ بھی ایک کتا ہے۔ اسنے گھبرا کر آئینہ دیکھا، اور اس بات سے بے فکر ہوکر کہ وہ اب تک آدمی ہی ہے، باتھ روم میں گھس گیا۔اسکے بعد وہ آفس جانے کی تیاری کرنے لگا ۔ اب تک اسکے سر سے کتا اترا نہیں تھا۔
بس میں بیٹھ کر آفس جاتے وقت اسکی نظر سڑک کے کنارے پر پڑی۔ وہاں پر اسنے دیکھا کہ ایک کتیا کے پیچھے کئی سارے کتے گھوم رہے ہیں۔ ان کتوں میں کچھ کھجلی والے کتے تو کچھ لنگڈے کتے بھی تھے۔ سبھی اپنی اپنی باری آنے کے انتظار میں لگے ہوئے ہیں، اور بیچ بیچ میں ایک دوسرے پر غراتے ہوئے چل رہے ہیں۔ وہ اپنے کالج کے دنوں کو یاد کرنے لگا ۔ اسے اسکی کلاس میں پڑھنے والی لڑکی ‘رشمی’ یاد آنے لگی۔ بلا کی خوبصورت تھی وہ۔ کالج کے کئی لڑکے اس پر مرتے تھے ۔ وہ بھی تو ان میں سے ایک تھا۔ اسے یاد آنے لگا کہ، کیسے کالج چھوڑنے پر لڑکے اسکے پیچھےپیچھے اسکے گھر تک جاتے تھے۔
تھوڑی دیر بعد اسنے دیکھا کہ ان میں سے ایک کتا اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہے اور باقی کتے اس پر پل پڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اتنے میں ایک دوسرے محلے کا کتا وہاں آ پہنچا ہے، اور کتوں کا دھیان بٹ گیا ہے۔اور وہ سب اس دوسرے محلے کے کتے کی طرف اسے بھگانے کے لئیے دوڑنے لگے ہیں۔ کچھ دیر میں پھر واپس آکر اپنی باری کے انتظار میں آس پاس گھومنے لگے ہیں۔ اسنے سوچا وہ بھی تو جاتا تھا چھپتا چھپاتا ہوا، رشمی کے پیچھےپیچھے اسکے گھر تک۔ رشمی بھی تو مہیش کے ساتھ پھنس گئی تھی۔ باقی سب اپنا سا منہ لیکر رہ گئے تھے، پھر بھی دو تین لوگوں نے ہمت نہیں ہاری تھی۔ ان میں سے ایک وہ خود بھی تھا۔
اچانک بس کے جھٹکے سے اسکی سوچ کی رسی ٹوٹی۔ اسکا آفس آ گیا تھا۔ وہ جلدی جلدی بس سے اترا اور آفس پہنچ گیا ۔ آفس پہنچ کر وہ اپنی کرسی پر بیٹھا ۔ اسے پیاس لگ رہی تھی ۔ ٹیبل پر خالی گلاس پڑا ہوا تھا ۔ شاید چپراسی گلاس بھرنا بھول گیا تھا ۔ اسکا دماغ خراب ہو گیا ۔ اسنے چپراسی کو آواز دی، اور جیسے ہی چپراسی سامنے آیا، وہ اسے زور زور سے پھٹکارنے لگا ۔ اسے اچانک پھر سے محسوس ہونے لگا کہ وہ پھر کتا بن گیا ہے ۔ اب اسے اپنی آواز کتے کے بھونکنے سی لگنے لگی۔ اسنے چپراسی کو پھٹکارنا بند کر دیا۔ اسے لگا کہ اسکے اندر کے کتے نے بھونکنا بند کر دیا ہے، پر غرانا جاری ہے۔
کچھ دیر بعد باس کا بلاوا آ گیا ۔ ڈانٹ پڑنے کے ڈر میں پھنسا ہوا وہ باس کے چیمبر میں پہنچا۔ باس سے باتیں کرتے ہوئے اسے لگا کہ، وہ باس کی ہاں میں ہاں ملانے کے علاوہ کچھ نہیں بول پا رہا ہے، جبکہ وہ بہت کچھ بولنا چاہ رہا تھا ۔ اسے اچانک لگا کہ، اسکی ایک دم نکل آئی ہے، جو دھیرے دھیرے ہل رہی ہے۔ تھوڑی دیر بعد اسے محسوس ہونے لگا کہ وہ باس کے قدموں میں لوٹ پوٹ ہو جائیگا اور باس کے پیروں کو چاٹنے لگ جائیگا۔ اپنی آواز اسے کتے کے پلے کی کوں کوں جیسی لگنے لگی، جو اپنے بڑے کتے کو دیکھ کر وہ کرتا ہے۔ باس نے اسے غرا کر اپنی سیٹ پر چلے جانے کے لئے کہا، جیسے کہہ رہا ہو ٹامی چلو اب بھاگو یہاں سے، نہیں تو ڈنڈا مارونگا
وہ دبے پاؤں باس کے چیمبر سے نکلا اسے لگا کہ وہ اپنی دم اپنے پچھلے پیروں کے بیچ دبایے ہوئے نکل رہا ہے۔ باس کے چیمبر کے باہر اسے رمیش مل گیا، اور اسے رات کی پارٹی کے لئے دعوت دے کر گیا۔ وہ سوچنے لگا کل ہی تو سریش کے گھر پر پارٹی تھی، اور آج پھر پارٹی۔۔۔ پھر شراب کا دور۔ سوچتے سوچتے وہ اپنی کرسی پر آ بیٹھا۔ اور ایک لیٹے ہوئے کتے جیسے اونگھنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اسنے کتوں کو اپنے سر سے ہٹایا اور جیسے تیسے کام نبٹانے لگا۔ کام ختم کرکے وہ رمیش کے ساتھ ہی اسکے گھر ہو لیا۔

پارٹی میں پہنچنے پر پھر شراب کا دور شروع ہو گیا ۔ اس بیچ نہ جانے کس بات پر رمیش نے سریش کو کتا کہہ دیا ۔ ‘کتا’ شبد سنتے ہی اس میں پھر کتا پن جاگ گیا، اور وہ بھی بے مطلب ہی انکی لڑائی میں کود پڑا ۔ اب پارٹی میں سبھی طرف کتا، کتا کا شور مچ گیا ۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب اسے وہیں پر نیند نے گھیر لیا ۔ خواب میں اسے اپنے آس پاس کتے ہی کتے نظر آنے لگے ۔ سبھی الگ الگ نسل کے تھے ۔ اسے اپنی نسل کسی آوارہ کتے سی لگی ۔ اس احساس سے گھبرا کر وہ اٹھ بیٹھا۔ اسکی سانسیں تیز تیز چلنے لگیں، اور وہ زور زور سے چیخنے لگا میں کتا نہیں ہوں،۔۔۔ سنا تم نے، میں کتا نہیں ہوں،

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*