کوہ سلیمان میں مست توکلی کے آثار ..حصہ اول

توکلی چورہ.
چند پتھروں کو جمع کرکے جو نشان بنایا جاتا ہے اسے بلوچی میں چورہ کہتے ہیں جس سے یا تو کسی زمین کے تقسیم کے حدود کا پتہ چلتا ہے یا پھر اس سے تاریخی کوئی واقعہ وابستہ ہوتا ہے. آج جس چورہ کی بات ہورہی ہے (توکلی چورہ) اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے اور اسکے پتھر توکلی مست کے ہاتھوں جمع ہوئے تھے اسکو توکلی چورہ کا نام خود توکلی نے دیا. توکلی میرے پردادا کے ہم عصر اور دادا جان کے وقت تک بھی زندہ تھے اور ہمارا آبائی وطن کوہ سلیمان توکلی کا پسندیدہ مسکن تھا چونکہ وہاں کی ہوا فضا موسم نظارے بہتی ندیاں شش جہت سے حسن ہی حسن منظر ہی منظر کہیں چرواہوں کے بانسریوں کی سر تانیں کہیں انکے شِینزارغوں کی مسحور کن آوازیں اور انکے ساتھ ریوڑ کے گلے کی گھنٹیوں کی ہلکی ٹن ٹن ہر طرف سے چکوروں تیتروں سیسیوں فاختاؤں اور کٹکروں کی آوازیں سربہ فلک پہاڑ ٹھندی ہوائیں پھر اپنی زبان اپنی بولی اپنے لوگ ظاہر ہے صرف مست توکلی نہیں ہر انسان اس طرح کے ماحول کا خواہش مند ہوتا ہے.
جبھی تو مست نے کہا تھا.
مست جالی مں کوہ سلیمان ءَ
کوہ بیہو ءَ سندھ دامانا
ترجمہ
مست کو سکون صرف کوہ سلیمان ، کوہ بیہو ، سندھ اور دامان میں ملتا ہے.
کوہ سلیمان میں بزدار اور لیغاری علاقے مست کو بے حد پسند تھے چونکہ لوگ مست کے قدر دان تھے اس قدر مست کا احترام کرتے تھے مست جہاں بھی جاتا وہ مہمانی کے طور پہ کوئی بکرا دمبہ ذبح کرتے تھے. اور گوشت کی تقسیم کے وقت مست سمو کے گوشت کے حصے مطالبہ کرتے تھے. جب حصہ مل جاتا تو کسی لڑکے سے کہتے تھے کہ یہ حصہ سمی کے جیڈیوں (سہیلیوں) کو دے آنا اور جب وہ کھالیں تب آکر بتانا. ایک دفعہ وہ ہماری فیملی کے کسی گھر میں مہمان تھے بزدار قبیلے کے اندر ہماری سب کاسٹ (ذیلی شاخ) شہوانی ہے ہمیں خاندانی علمی حیثیت کی وجہ عام طور پر ملا کہا جاتا ہے. تو جب گوشت تقسیم ہوا اس نے کسی لڑکے سے کہا یہ ونڈ(حصہ) سمی جیڈیوں(سہیلیوں) کو دے آنا وہ لڑکا وہاں سے گوشت لیکر چلا گیا اس نے کسی جگہ چھپ کر وہ گوشت کھا لیا اور آکر کہا مست آپ اپنے گوشت کا حصہ (ونڈ) کھالیں سمی کی سہیلیوں نے سمی کا حصہ کھا لیا. تب مست نے کہا.
(مں ونڈ ہچی نہ وراں سمی ونڈ کوشلیں ملاءَ واڑتہ)
ترجمہ. میں اپنا حصہ کبھی نہیں کھاؤں گا سمی کا حصہ چھوٹے کانوں والا ملا کھاگیا.
مست ناراض ہوگیا مست کو منانے کے لیے
بالآخر دوسرا دمبہ ذبح کیا گیا تب مست نے گوشت کھایا.
مست میرے پردادا کی وفات کے بعد بھی زندہ تھے اور میرے دادا حاجی بزدار انکے بہنوئی درویش بزدار ان سے کافی محبت کرتے تھے جب بھی آتے ہمارے ہاں لازماً آتے. ایک دفعہ ہمارے گھر سے درویش کے ساتھ روانہ ہوئے درویش اپنے دوسرے رشتہ داروں کے پاس جارہا تھا مست نے سخی سرور میلے پہ جانا چاہتا تھا چونکہ مست کو سخی سرور کا میلہ کافی پسند تھا.
کہتے تھے
سرور دربارا منہہ نیستیں عاشقاں.
ترجمہ
سخی سرور کا دربار وہ جگہ ہے جہاں عاشق بلا روک ٹوک جاسکتے ہیں.
جونہی وہ ہمارے گھروں سے جنوبی جانب ایک بلند جگہ جسے ماڑ سر کہتے ہیں وہاں پہنچے درویش آگے چل رہا تھا مست پیچھے تھے چونکہ مست کبھی آگے نہیں چلتے تھے یکدم مست کو روفاسک یعنی لومڑی کی آواز سنائی دی.
مست نے جونہی آوزا سنی تو درویش سے کہا ٹھہرو سنو لفیشنگ (روفاسک) کی کتنی پیاری آواز ہے. درویش نے کہا رہنے دو ایک جنگلی جانور تو ہے کہنے لگے اس طرح صبح تڑکے اس کی آواز پہاڑوں سے ٹکرا کر جو گونج پیدا کررہی مجھے لگتا ہے جیسے یہ کسی کے ہجر میں اسطرح کی آواز نکال رہا ہو میں عاشقوں کا ساتھی ہوں تیرا نہیں تم جاؤ. مست وہاں بیٹھے رہے جب تک روفاسک کی آواز آتی رہی جب آواز خاموش ہوگئ تو مست نے وہاں پتھر جمع کرنے شروع کئے اتنے میں دن کافی چڑھ چکا تھا اس زمین کا مالک جس کا نام حیدر تھا وہ وہاں آگیا کہنے لگا مست یہ کیا پتھروں کا ڈھیر جمع کرکے بیٹھے ہو کہنے لگا یہاں میں نے ایک عاشق کی آواز سنی درویش میرے ساتھ تھا چلا گیا مگر میں اس آواز کو سننے بیٹھ گیا. اب میرے دل نے کہا کہ اس جگہ پہ ایک چورہ بنادوں تاکہ بعد میں جب بھی آؤں مجھے یاد رہے کہ یہ وہی جگہ ہے.جہاں میں نے ایک عاشق کی غمزدہ آواز سنی. وہ چورہ آج بھی موجود ہے توکلی کو دنیا سے رخصت ہوئے ڈیرھ سو سال ہوئے مگر اس چورہ کا نام آج بھی توکلی چورہ ہے اور اس زمین کا نام حیدر بہیر سے توکلی بہیر ہوگیا.

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*