نظم

ہم نے سنا ہے
خواب دیکھنے پر
سوال کرنے پر
دلیل دینے پر پابندی ہے،
ہم نے سنا ہے
یہاں اپنے حقوق مانگنا
اپنے عقائد پر عمل کرنا جرم ہے
ہم نے سنا ہے
یہاں بات کرنا
سچ کو دھرانا
خدمت کرنا
کتابیں لکھنا
کتابیں پڑھنا
جھوٹ سے انکار کرنا بغاوت کے ذمرے میں آتے ہیں،
ہم نے سنا ہے
یہاں غریب کی کوئی اوقات نہیں
اقلیت ناسور ہیں
مذہب کاروبار ہے
خون بہانا آسان ہے
ہاں یہاں کوئی کسی کا نہیں،
ہاں یہاں طبقات کی چکی میں پسے لوگ
شعوری طور پر مر چکے ہیں
ہاں یہاں رہبر رہزن ہے
ہاں یہاں محافظ ظالم
ہاں یہاں اہل قلم ” قلم ” فروش ہیں
ہاں یہاں ہر کوئی اپنی دکان سجائے
یہاں اپنے عقیدوں کا سودا کرتا ہے،
کوئی مانے تو اپنا
نہ مانے تو واجب القتل،
ہاں یہاں حقوق کی باتیں کرنے والا
تعلیم کی باتیں کرنے والا
غریبوں کو جگانے والا
لہو سے تر مسخ شدہ لاش بن جاتا ہے
یا زندان میں اذیتیں سہہ سہہ کر
لاپتہ بن کر صرف ایک عدد بن جاتا ہے،
ہاں یہاں روادری انصاف امن
اور بہتر زندگی کی باتیں کرنے والا احمق اور پاگل ہے،
ہاں یہاں جاگیر دار سرمایہ دار
نواب وڈیرا بیروکریٹ جنرل کرنل
اور سیاسی بُت ہی انسان ہیں
باقی غریب مزدور کسان
اور اقلیت جانور سے بھی کم تر،
ہاں یہ سب کچھ ہے اور بہت کچھ ہے
مگر ہم چپ نہیں رہیں گے
ہمارے لب آزاد ہیں
چیختے رہیں گے
ہاں یہاں سب دیکھ کر اندھے بن جاتے ہیں
سن کر بہرے پھر بھی
صدائیں دیتے رہیں گے،
گر کچھ نہ کر سکے
تو خواب دیکھیں گے
خواب لکھیں گے
خواب بھانٹیں گے،
ہم خوابوں کی دنیا میں رہنے والے
ایک ایسے جہاں کی خواب دیکھتے ہیں
جہاں تمام انسان برابر ہوں
جہاں طبقاتی جبر نہ ہو
جہاں تعلیم صحت اور دیگر بنیادی سہولیاتیں
سب کو یکساں میسر ہوں
جہاں بھوک مفلسی نہ ہو
جہاں مزدور کسان خوشحال ہوں
جہاں رواداری برداشت ہو
جہاں خوشحالی ہو، آسودگی ہو
کوئی امیر نہ ہو
کوئی غریب نہ ہو
سب کو آزادی ہو
اپنے اپنے نظریات عقیدوں پہ کاربند رہنے کی
جہاں عورتوں پر جبر نہ ہو
عورتیں اپنی زندگی گذارنے
اپنے فیصلے کرنے پر خودمختیار ہوں،
جہاں ہر طالبعلم کو یہ اختیار ہو کہ
وہ اپنا مستقبل اپنی منزل آپ چنے،
جہاں بچیوں کو بلاخوف و خطر
اسکول کالیج یونیورسٹی جانے کی اجازت ہو
اپنا مستقبل اپنے فیصلوں پہ اختیار ہو
ہاں ہم ایسے جہان کا خواب دیکھتے ہیں
اور جب تک زندہ ہیں دیکھتے رہیں گے
اور دنیا کو دکھاتے رہیں گے
آدرش

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*