امید کا مشکیزہ

آس، امید کا پانی بھر کے
اک مشکیزہ
روز سویرے
پیٹھ پہ لادے
میں باہر
آ جاتا ہوں

ٹوٹے پھوٹے دل کے ٹکڑے
گارا کر کے
پھر سے ان کی شکل بنانے
جوڑ لگانے
آ جاتا ہوں

درد مٹا کے دل بہلانے
آگ بجھا کے پھول کھلانے
دکھتے دل پہ پھایا رکھنے
پھونک پھونک ٹھنڈک پہنچانے
آس دلا کر شوق جگانے
نیند بُلا کر خواب دکھانے
آ جا تا ہوں

اوک میں بھر کے آس کا پانی
مشکیزے سے پیتی ہیں
آزردہ، بے چین سی روحیں
تپتے دن سے شام ڈھلے تک
میرے ساتھ ہی رہتی ہیں
پیاس بجھاتی رہتی ہیں

تھکا ہوا ہر شام کو جب میَں
گھر پر واپس آتا ہوں
مشکیزے کے خالی پن سے
خود خالی ہو جاتا ہوں

پھر جوکھم سے رات گئے تک
سبز دنوں کی خواہش لا کر
آنکھ، صراحی، بادل، بارش
ایک بنا کر
مشکیزے کو بھرتا ہوں
روز سویرے
پیٹھ پہ لادے
پھر باہر
آ جاتا ہوں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*